دعا کی حقیقت اور اہمیت
امین عالم، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾․(سورہ غافر، آیت:60)
ترجمہ:” او رکہتا ہے تمہارا رب کہ مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو، بے شک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے، اب عنقریب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہو کر۔“
الله رب العزت نے اس آیت کریمہ میں بہت عمدہ طریقے سے دعا کے مضمون کو بیان فرمایا ہے، اس کی ترغیب دی ہے او رترک دعا پر خوف ناک انجام کی طرف اشارہ کیا ہے، پہلے فرمایا ﴿وَقَالَ رَبُّکُمُ﴾یعنی الله رب العزت دعا کرنے کو فرمارہے ہیں، یہ کسی غیر کی بات نہیں ہے اور پھر ”رَبُّکُمُ“ میں اشارہ اس طرف ہے کہ وہ ذات جو آپ لوگوں کو پالنے والی اور پیدا کرنے والی ہے، اپنی مخلوق کی بہتری چاہتی ہے او ران کی بھلائی کو پسند کرتی ہے ۔ جیسے دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿َلَا یَرْضَی لِعِبَادِہِ الْکُفْر﴾(سورہٴ زمر:7)کہ الله اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ جب ہمارا خالق ہمیں دعا کی طرف متوجہ کرتا ہے تو ضرور اس میں ہمارے لیے عافیت وبھلائی ہو گی، پھر صیغہٴ امر سے تاکید کے ساتھ فرمایا”ادْعُونِی“ کہ مجھ سے مانگو اور ہمارا یہ مانگنا الله رب العزت کو بہت پسندہے کہ اس میں شان عبدیت کا اچھی طرح اظہار ہوتا ہے، آگے بشارت بھی دی ہے کہ آپ کی یہ دعا ضائع نہیں جائے گی، بلکہ﴿أَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾کہ میں تمہاری دعا قبول کرتا ہوں، معلوم ہوا کہ دعا ہمیشہ فائدہ مند ہوتی ہے اور اس کا ثمرہ ظاہر ہوتا ہے۔
دعا کی خصوصیات
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ جتنی بھی عبادات ہیں ، اگر دنیا کے لیے ہوں تو وہ عبادت نہیں رہتیں، برخلاف دعا کے کہ اگر یہ دعا دین کے لیے ہو تو سبحان الله! پھر تو کیا ہی بات ہے، لیکن اگر دنیا کے لیے ہو تو پھر بھی وہ عبادت ہے، اس لیے کہ دعا میں جو نیاز مندی اور عبدیت کا اظہار ہے، وہ دنیا کے مانگنے کے وقت بھی موجود ہے۔
دوسری خصوصیت دعا میں یہ ہے کہ اس میں صورت کے بجائے معنی پر نظر ہوتی ہے،برخلاف دوسری عبادات کے کہ ان میں صورت کا بھی اعتبار ہوتا ہے، جیسے نماز ہے، اس کی ایک خاص ترتیب وکیفیت ہے، اگر اس سے ہٹ کر ادا کی جائے تو وہ ادا نہیں ہوتی، جب کہ دعا میں ایسا نہیں ہے، اس کی کوئی خاص ترتیب وکیفیت نہیں ہے، بلکہ آپ جس وقت، جہاں ،جس زبان میں الله رب العزت سے گفت گو کر سکتے ہوں، اس میں صرف عاجزی وانکساری کا مولیٰ کے سامنے اظہار کرنا ہوتا ہے۔
تنبیہ
لیکن دعا میں اصل چیز کامل توجہ اور خشوع وخضوع ہے، اگر یہ چیز حاصل ہے تو وہ دعا ہے، ورنہ صرف زبانی دعا کے کچھ الفاظ یاد کر لیے اور اسی کو دہراتے رہے اور یہ خالی از معنی ہیں تو اس کو دعا نہیں کہیں گے۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ گریہ وزاری کر رہا ہے، تو موسی علیہ السلام نے الله رب العزت سے کہا کہ اگر اس کی چاہت میرے قبضے میں ہوتی تو میں اس کو ضرور پورا کرتا، تو الله تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے موسی! مجھے تجھ سے زیادہ اس پر رحم آتا ہے، لیکن وہ مجھ سے تو مانگتا ہے، لیکن اس کا دل بکریوں اور بھیڑوں کے پاس ہوتا ہے اورمیں ایسوں کی دعا قبول نہیں کرتا جو مجھ سے مانگے، لیکن اس کا دل کہیں اور متوجہ ہو۔
مثال کے طور پر آپ جب کسی استاد یا مالک کے پاس کوئی درخواست لے کر جاتے ہیں تو اس میں کتنا اہتمام کرتے ہیں کہ کاغذا چھا ہو، لکھائی صاف ہو، املا کی غلطیاں نہ ہوں اور جب استاد یا مالک کے پاس درخواست پیش کرتے ہیں تو اس کی منظوری کے لیے اصرار بھی کرتے ہیں اور آپ کے دل میں اس کی منظور ی کے لیے چاہت وتڑپ بھی ہوتی ہے، پھرکیا بات ہے کہ الله تعالیٰ سے کوئی چیز مانگیں تو اس میں کوئی تڑپ وطلب کا مادہ نہیں ہوتا، اگر یہ صورت آپ استاد یامالک کے ساتھ کریں کہ درخواست کے وقت آپ کمرے کی چیزوں کودیکھتے رہیں، استاد کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو ں، کبھی اِدھر کبھی اُدھر دیکھیں تو کیا استاد یا مالک آپ کی درخواست قبول کرے گا؟ نہیں، بلکہ وہ آپ کو دھکے دے کر باہر نکالے گا۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”تم قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے الله سے دعا مانگو اور یاد رکھو! الله تعالیٰ غافل اور کھیلنے والے کی دعا قبول نہیں کرتا۔“ ( یعنی اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جس کا دل دعا مانگتے وقت الله سے غافل ہو اور غیر الله میں مشغول ہو۔ (ترمذی)
مقبول دعائیں
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین دعائیں ہیں جو مقبول ہوتی ہیں اس میں ذرا بھی شک نہیں۔ 1.مسافر کی دعا۔ 2.مظلوم کی دعا۔3..اپنی اولاد کے حق میں والد کی دعا۔(ابوداؤد وترمذی)
دوسری جگہ آپ علیہ السلام سے مروی ہے کہ دو دعائیں ہیں کہ ان کے او رخدا کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور مظلوم کی دعا اور جو دعا کہ اپنے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے مانگی جائے۔
اسی طرح احادیث میں روزے دار جب تک افطار نہ کر لے اور حاجی جب تک حج سے واپسی نہ ہو جائے کی دعا کو مقبول دعاؤں میں شمار کیا گیا ہے۔
دعا کے آداب
علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”الحصن الحصین“ میں تفصیل کے ساتھ دعا کے آداب جمع کیے ہیں، جو مختلف احادیث میں وارد ہوئے ہیں ٭…پاک وصاف ہونا۔٭… باوضو ہونا۔٭… پہلے الله تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنا او رالله کے اسماء حسنی اور صفات عالیہ کا واسطہ دینا ۔٭… پھر درود شریف پڑھنا۔٭… قبلہ رخ ہونا۔٭… خلوص دل سے الله کی طرف متوجہ ہونا اور یہ یقین رکھنا کہ صرف الله ہی دعا قبول کرسکتا ہے ۔ ٭…دعا کے لیے دوزانوں ہو کر بیٹھنا ۔٭… دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔ ٭…خشوع وخضوع کے ساتھ با ادب ہو کر دعا کرنا۔٭… دعا کرتے وقت جسم میں عاجزی اورتذلیل ظاہر کرنا ۔٭… آسمان کی طرف نظرنہ اٹھانا۔ ٭…شاعرانہ تک بندی اور گانے کے طرز سے بچنا۔ ٭…حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور سلف صالحین او راپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے دعا کرنا ۔ ٭… بار بار سوال کرنا جو کم از کم تین بار ہو ۔ ٭… جامع دعا کرنا۔ ٭…اپنے گناہوں کا اقرار کرنا۔٭… دل حاضر کرکے دل کی گہرائی سے دعا کرنا۔ ٭… اپنی دعا میں سب مسلمان دوستوں، عزیزوں اور استادوں کو شامل کرنا۔ ٭… دعا کے ختم سے پہلے حمد وثنا اور دروردشریف پڑھنا ۔ ٭…ختم پرآمین کہنا ۔٭… بالکل اخیر میں منھ پر ہاتھ پھیرنا۔