Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

11 - 20
مفتی احتشام الحق آسیا آبادیؒ کی شہادت
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں

برکت الله مندی، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی

20/ شوال المکرم کی رات تھی، مغرب کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے کچھ ہم جولیوں کے ساتھ اپنی مادرِ علمی جامعہ فاروقیہ کراچی مقر ثانی کی ”حویلی“ میں موجود کینٹین کے سامنے بیٹھا تھا، چوں کہ اس وقت مدارس میں داخلوں کا سلسلہ چل رہا تھا اور ہم بھی اپنے علاقے سے آئے ہوئے چند طالب علموں کے داخلوں کے لیے کوشاں تھے، اس لیے اس موضوع پر لب کشائی ہو رہی تھی کہ میرے موبائل کے میسیج کی گھنٹی نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، میسیج دیکھا تو حضرت مفتی احتشام الحق آسیا آبادی کی شہادت کی خبر تھی۔

شہادت اگرچہ الله تبارک وتعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جس پرجتنا بھیمُسرت کا اظہار کیا جائے کم ہے ، لیکن مفتی صاحب جیسے انفاس قدسیہ کی جدائی ایک ناقابلِ برداشت مرحلہ تھا۔ اس جانکاہ خبر کو پڑھ کر عالم آنکھوں میں تاریک ہو گیا۔ انا لله وانا الیہ راجعون․

علماء کی وفات درحقیقت ایک قومی حادثہ ہے، جس پر قوم کا ہر ہر فرد تعزیت کا مستحق ہے۔ مفتی صاحب نہ صرف مکران بلکہ، پاکستان ، ایران اور عرب ممالک کی ایک کثیر تعداد کے محبوب ومخدوم رہے ہیں۔ لیکن مکران کی پسماندہ سر زمین پر حضرت نے جو صبر آزما خدمات سر انجام دیں ان کا احاطہ کرنا شاید مجھ جیسوں کے لیے دشوار ہو۔ وہاں کی دینی خشک سالی کے دور میں اگر اُن کی قابل صد تحسین شفقتوں کا تذکرہ کیا جائے تو کوئی بھی زندہ دل شخص داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ اشاعتِ دین اور شرک وبدعات کے خلاف آپ کی کاوشیں اسلاف کی زندگیوں کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔ لوگوں کو شریعت سمجھانے او ران کے مسائل شرعی نہج پر حل کرنے کے لیے آپ نے بے شمار اسفار کیے۔ اپنی سر زمین اور وطن کے دفاع کی خاطر ہر آن وطن دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ اپنے ایک کلام میں اپنے اس دردِ دل کو یوں بیان فرماتے ہیں #
        نشاط وعیش جو کرتے تو بے سفر ہوتے
        قفس میں کون سُلگتا ہم اپنے گھر ہوتے
        ہمیں خیال جو ہوتا کہ بیٹھ کر کھائیں
        پریشاں حال نہ ہوتے، نہ در بدر ہوتے
        میں آس ہوں، وطن کا دفاع کرتا ہوں
        غلط یہ کام نہ کرتے تو بے ضرر ہوتے!!

مولانا مفتی احتشام الحق آسیا آبادی شہید رحمہ الله1948ء کو بلوچستان میں مکران ڈویژن کے ضلع کیچ، تحصیل تمپ کے ایک گاؤں آسیا آباد میں پیدا ہوئے، ابھی بچپن کے ”بوئے گل“ کو جی بھر کر سونگھ بھی نہ پائے تھے کہ والد کا سیایہٴ عاطفت سر سے اُٹھ گیا۔ آسیا آباد اور اس کے گردونواح میں دینی تعلیم کا چوں کہ فقدان تھا، مستقل کوئی مدرسہ نہ تھا، صرف چندگنیچنی مسجدوں کے امام ایک مختصر وقت میں بچوں کو قرآن پاک کا درس دیتے تھے، اس لیے آپ ناظرہ قرآن پاک پڑھنے کے بعد یہاں اپنی دینی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے۔ آپ نے آسیا آباد کے قریب ”نظر آباد“ نامی علاقہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں آٹھ جماعتیں امتیازی نمبروں سے پاس کیں، مفتی اعظم مکران مفتی مولا بخش صاحب دامت برکاتہم جب پنجگور سے تربت کے دورے پر آئے تو آپ کی ذہانت او رعلمی قابلیت کے بارے میں سُن کر آپ کو اپنے ساتھ اپنے قائم کردہ مدرسہ جامعہ مفتاح العلوم پنگجور لائے، یوں آپ نے مفتی مولا بخش صاحب جیسے فقہ میں عمیق نظر رکھنے والے جبال علم کی سرپرستی میں درسِ نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ جو ہری کی آنکھ چوں کہ اس ہیرے کی قدر وقیمت کو بھانپ گئی تھی اس لیے اس طرح تراش کر مُزیّن بنا دیا کہ ہر آنکھ کو بھا گئے، لیکن الله تبارک وتعالیٰ شاید اس ہیرے کو کار سازوں کے ہاتھ مزیدچمکانا چاہتے تھے، اس لیے الله تبارک وتعالیٰ نے شہرہ آفاق فقیہِ دوراں مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب رحمہ الله کی عقیدت آپ کے دل میں پیدا کر دی جس کا اظہار پہلے تو خط وکتابت کی صورت میں ہوتا رہا ، لیکن عقیدت جب اور زیادہ بڑھ گئی تو اساتذہ کی اجازت ومشورے سے شرح جامی کے سال کراچی تشریف لے گئے، وہاں جاکر مفتی رشید احمد صاحب کے مشورے سے آپ نے جامعہ دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا اور درجہ رابعہ سے وہاں اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا، مفتی صاحب سے آپ نے بیعت تو جامعہ مفتاح العلوم پنجگور میں بذریعہ خط وکتابت کی تھی۔

اس لیے دارالعلوم کراچی کے تعلیمی اوقات سے فارغ ہونے کے بعد آپ اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر کثرت سے استفادہ کرتے، حضرت مفتی صاحب رحمہ الله نے آپ کی اس طلب کو دیکھ درجہ خامسہ سے آپ کو افتاء کی مشق شروع کروادی۔ خود آپ نے ایک مرتبہ سخاوت کے موضوع پر گفت گو کرتے ہوئے آخر میں اپنے مشفق شیخ کی اس بے مثال سخاوت کا ذکر فرماتے ہوئے کہا:”میرے استاد محترم کی سخاوتوں میں سے ایک بڑی سخاوت یہ ہے کہ انہوں نے مجھے درجہ خامسہ سے افتاء کی مشق شروع کرائی۔“ تو آپ نے ایک ساتھ کئی ماہرین علم فقہ اور اساطین علم سے بھرپور استفادہ کیا، جن میں مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع ، فقیہ العصر حضرت مفی رشید احمد لدھیانوی صاحب  ،حضرت مولانا عاشق الہٰی صاحب ، مولانا سحبان محمود صاحب ، حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی مدظلہ او رحضرت مولانا تقی عثمانی صاحب مدظلہ جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔ یہ ان رجال ساز شخصیات کی توجہ اور شفقتوں کا نتیجہ تھاکہ آپ نے علم فقہ میں مثالی رسوخ حاصل کیا۔ آپ جامعہ دارالعلوم کراچی میں تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی تنگی کو دور کرنے کے لیے دارالعلوم ہی میں جلد سازی کا کام بھی کیا کرتے تھے اور اس پر جو اجرت ملتی اپنے لیے کتابیں خریدتے اور پوری طالب علمی کے زمانے میں جامعہ کا کھانا کھانے کے بجائے اپنی اس مزدوری کے پیسوں سے کھانا خرید کر تناول فرماتے #
        ہیرے کی جو نفاست آنکھوں کو بھارہی ہے
        سختی کے مرحلوں سے گزرا ہوا اثر ہے

1975ء کو جامعہ دارالعلوم کراچی سے سند فراغت حاصل کرنے بعد ایک سال مزید آپ نے اپنے شیخ کی خدمت میں گزارا، تخصص فی الفقہ میں شریک ہوئے اور عشاء کے بعد اپنے شیخ کے گھر جا کر ان سے دو بہ دو فیض بھی حاصل کیا۔ اس قلیل مدت میں آپ نے تقریباً24 تحقیقی مقالات تحریر فرمائے اور اسی عرصے میں آپ نے ”انوار الرشید“ کے نام سے اپنے شیخ کی سوانحِ حیات کا ایک معتدبہ حصہ تحریر فرمایا۔

1976ء میں مفتی اعظم پاکستان رحمہ الله اور فقیہ العصر رحمہ الله کے علم وعمل کا یہ امین انہیں کی اجازت سے اپنے علاقہ ”آسیا آباد“ آئے اور ان حضرات کے مشورے سے وہاں ”جامعہ رشیدیہ“ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیادرکھی۔ مخالفین نے مفتی صاحب کے اس مدرسہ کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر اس مردِ مجاہد نے ہزار مصیبتیں جھیل کر اپنے اس کارِ خیر پر آنچ نہ آنے دی ۔ ابتدائی درجات کے دروس سمیت افتا اور قضا کے امور میں مشغول رہے۔ آپ کی علمی شہرت سُن کر ملک کے دور دراز علاقوں سے تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے جوق درجوق آنے لگے۔

آپ کا قائم کردہ یہ مدرسہ شروع میں ایک ” پیلو کے درخت“ کے سائے پر مشتمل چھوٹی سے جگہ تھی، جس کے سایے تلے اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ اپنے آباء کے زریں عہد کی یاد تازہ فرماتے #
        زمانے مختلف، مقصود ایک ہے، لیکن
        وہاں انار ہے اور یاں شجر ہے پیلو کا

قدرت کا قانو ن ہے کہ جب بھی حق کا بول بالا ہوا ہے تو اس کے پسِ منظر میں قربانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ کیوں کہ ظلمتوں کے پیچھے ہی دمکتا ہوا سحر نمودار ہوا کرتا ہے، بالکل اسی طرح ہوا، مفتی صاحب کے لیے الله تبارک وتعالیٰ نے آسانیوں اور سہولتوں کے دروازے کھول دیے، تنگی فراخی میں تبدیل ہو گئی، پیلوں کے درخت کے قریب جامع مسجد تعمیر ہوئی اور مسجد کے صحن ہی میں ایک وسیع رقبے پر محیط زمین پر درس گاہیں، دارالافتاء او رایک وسیع وعریض کتب خانہ بنوایا گیا۔

مفتی صاحب کا یہ کتب خانہ کتب کی تعداد کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان کا دوسر اور قدیم علمی نسخوں، مخطوطات اور دینی کتب کے حوالے سے بلوچستان کا پہلا او رپاکستان کے بڑے کتب خانوں میں سے ایک بڑا کتب خانہ ہے۔ جس میں تقریباً ہرموضوع پر کتابیں دست یاب ہیں۔ کتابوں کی کثیر تعداد آپ کے ذوق مطالعہ او رکثرت سے کتب بینی کا بین ثبوت ہے۔ مولانا کمال الدین المسترشد شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ کلفٹن لکھتے ہیں :
”ایک دفعہ میں نے مفتی صاحب کو ”الاشباہ والنظائر“ کا قلمی نسخہ پیش کیا، آپ بہت خوش ہوئے، چند ایام کے بعد آپ نے خط ارسال کیا کہ میں نے الاشباہ کا کئی دفعہ مطالعہ کیا تھا، مگر عشاء کی نماز کے بعد میں اسے پڑھنے لگا تو پڑھنے میں مزا آیا، صبح کوئٹہ جانا تھا، اس لیے خیال یہ تھا کہ تھوڑا سا پڑھ کر سوجاتا ہوں، جب گھڑی دیکھی تو دو بج چکے تھے، اس لیے نیند کی گولی کھائی، تاکہ نیند آجائے، پھر سوچا کہ نیند آنے تک تھوڑا سا پڑھ لوں گا، اتنے میں صبح کی اذان ہوئی او راس کے ساتھ کتاب بھی ختم ہوئی، باریک لکھائی والی یہ کتاب تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل تھی۔“

آپ سفر میں ہوتے یا حضر میں، کتاب ہر وقت ساتھ ہوتی، سفر طے کرتے کرتے کئی کتابیں ختم کر لیتے۔آپ صرف مطالعہ ہی نہیں، بلکہ تصنیف وتالیف کے میدان کے بھی ایک بڑے شہسوار تھے۔ ذکری فرقہ کے حوالے سے آپ کی لکھی ہوئی کتابیں مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ذکری فرقہ کی حقیقت، ذکری دین کی حقیقت ، ذکری مذہب کے عقائد واعمال، ماہی الذکریہ؟ (عربی)، ذکریھارا بشناسید(فارسی) جیسی کتابیں تصنیف فرماکر آپ نے عرب او رعجم، تمام امت کو اس فرقہ کی حقیقت سے آشنا کروا دیا اور ان کے کفریہ عقائد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ہمارے علمائے دیوبند نے ادیان باطلہ کے خلاف خوب کام کیا ہے۔ انہیں ادیان باطلہ میں ذکری فرقہ کے عقائد کی شناسائی کے لیے مفتی صاحب کی تصانیف ہی کو معتمد ومعتبر مانا جاتا ہے، کیوں کہ مفتی صاحب جس علاقے کے مکیں تھے یہ اسی خطے کی پیداوار ہیں۔ وصاحب البیت ادریٰ بما فیہ۔

اس کے علاوہ آپ نے مختلف فقہی مسائل پر رسائل بھی لکھے ہیں۔ ”تحقیق وتخریج صحیفہ ہمام ابن منبہ“ اور ”جزء من طلب العلم“ بھی آپ ہی کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جو حدیث نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة کے ساتھ آپ کے اشتغال کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے شیخ کے فتاوی کے مجموعہ احسن الفتاوی کی جن جلدوں پرتحقیق وتخریج کا جو قابلِ رشک کام سر انجام دیا وہ علمی حلقوں میں ہمیشہ مقبول رہا ہے، آپ نے تقریبا50 کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں 15 طبع شدہ ہیں۔ گویا کہ آپ نے عقائد، فقہ، حدیث اوراحکام سب کو مدِّ نظر رکھ کر امت مسلمہ کو وہ قیمتی اثاثے دیے جو راہ نما کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ شعر گوئی کا بھی ذوق رکھتے تھے، اپنے اس ذوق کی بنیاد پر آپ ” آسی“ بن کر قلم کی نوک کے نوِشتوں کو اپنے دل کا ترجمان بنا کر مدتوں سپردِ قرطاس کرتے رہے۔ آپ کی شاعری ”قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید“ کے ثبوت پر ٹھوس دلیل ہے ،خاص طور پر آپ کے کلام کے اس شعر کو پڑھ کرآپ کی قلندر گوئی کا خوب پتہ چلتا ہے #
        ابھی بزدل نہ ہو آسی، چلے ہو جانبِ منزل
        شہادت تم بھی پاؤگے مگر آہستہ آہستہ

آپ کی شاعری کا ایک دیوان”کلامِ آسی“ طبع شدہ ہے، ”افکارِ آسی“ اور دیوان آسی “غیر طبع شدہ ہیں۔

مسائل کے حل اور صلح جیسے معاملوں میں خدا وندِ باری تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا، پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کو اتنے سہل انداز میں پیش فرماتے کہ فوراً ذہن میں اُتر جاتا، مضطرب شخص آپ کو اپنا دکھڑا سُناتا تو مطمئن ہو کر ہی آپ کی مجلس سے رخصت ہوتا۔ آپ کے شاگرد اورجامعہ رشیدیہ آسیا باد کے استاد مولانا مختار حیدر آسیا آبادی صاحب کے ذریعے سے معلوم ہوا کہ آپ نے یوں تو کئی مقدمات میں فریقین کے درمیان صلح کروائی ہے، لیکن 2000ء تک 250 کے لگ بھگ قتل کے ایسے مقدمات کو نمٹاچکے ہیں کہ اگر مزید جنگ چھڑ جاتی تو کئی جانیں ضائع ہو جانے کا خطرہ تھا، لیکن آپ نے اس انداز سے صلح کروائی کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے آپس میں شیروشکر ہو گئے #
        ایں سعادت بزور بازو نیست
        تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اسلام دشمن عناصر کی آنکھوں میں آپ کی خدمات کانٹے کی طرح چبھتی تھیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ اپنی مجاہدانہ خدمات پر کار بند ہو کر دین کی مزید اشاعت کریں۔ اس لیے19 شوال1437ھ بمطابق24 جولائی 2016ء ضلع کیچ کے علاقے ”کلاہو“ جاتے ہوئے عصر کے وقت آپ کو آپ کے فرزند مولانا شبیر احمد سمیت شہید کر دیا گیا۔20 شوال کی صبح آپ کے چاہنے والوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے آخری دیدار کو بے تاب اور آپ کی جدائی کے غم سے نڈھال آہیں بھر رہا تھا، نماز جنازہ آپ کے بھتیجے مولانا آدم آسیا آبادی صاحب نے پڑھائی، علم وعمل کے اس پیکر کو ان کی وصیت کے مطابق اُن کے جامعہ کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔

سقی الله ثراہ، وجعل الجنة مثواہ۔ آمین

Flag Counter