طریقہ تربیت۔۔۔ اسوہٴ نبوی کی روشنی میں
مولانا محمد غیاث الدین حسامی
نفس کا تزکیہ او راخلاق کی تہذیب ایک کٹھن اور صبر آزما عمل ہے، یہ ایک ایسا بے آب وگیاہ صحرا ہے جہاں گرم ہواؤں کے جھونکے ہیں، بھورے رنگ کے پتھر اور گرم ریت ہے، اس دشوار گذار صحرا کو عبور کرنے کے لیے ایک طرف عزم پیہم اور جہدِ مسلسل ضروری ہے تو دوسری طرف صحرا کے نشیب وفراز سے بھی واقف ہونا ناگزیر ہے، کیوں کہ نفس کی تربیت او راخلاق وکردار کی تہذیب وہ شجر طوبی نہیں ہے، جو چند دنوں کی محنت کے بعد برگ وبار لاتا ہے، بلکہ اس کے لیے سالہا سال کی محنت وجاں فشانی او رمضبوط عزم وارادہ کی ضرورت ہوتی ہے اورجب تک تربیت اور تزکیہ نفس کے اسلوب اور اس کے طریق کار کا علم نہ ہو تو اس وقت تک اس سلسلے میں کی جانے والی کوششیں فضول اور بے فائدہ ثابت ہوں گی، آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے اس سلسلے میں ہمیں راہ نمائی لینے کی ضرورت ہے اور اس باب میں آپ صلی الله علیہ و سلم کے طریق کار کو اسوہ اور نمونہ بنانا ضروری ہے۔
قرآن کریم میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے چار بنیادی مقاصد بتائے گئے ہیں، ان میں سے ایک تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق ہے، قرآن مجید کے ان چار بنیادی مقاصد میں سے تزکیہ نفس ایک اہم اساسی مقصد ہے، باقی تین مقاصد اس کے وسائل اور ذرائع ہیں، اسی لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تمام جد وجہد اور آپ کی تمام دعوتی سرگرمیوں کا محورو مقصود دراصل تزکیہ باطن اوراخلاق کی تہذیب ہی ہے اور اس کو ہر شخص کی فلاح ونجات کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے، قرآن مجید اس بات پر شاہد ہے کہ آخرت میں انسان کی نجات وکام یابی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نفس کو گناہ کی آلائشوں سے پاک رکھے، چناں چہ الله نے ارشاد فرمایا:﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾ یقینا وہ شخص کام یاب ہو گیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ ناکام ونامراد ہوا جس نے اس کی گندگیوں پر پردہ ڈالا۔(سورہٴ شمس، آیت:10-9) ظاہر ہے کہ جب آخرت میں انسان کی نجات تزکیہ نفس پر منحصر ہے تو انبیاء علیہم السلام کا اصل مشن یہی ہوا ،کیوں کہ وہ پور ی انسانیت کے لیے ہادی او رراہ نما کی حیثیت سے دنیا میں بھیجے گئے ہیں، اسی لیے وہ لوگوں کے قلوب کو مجلیٰ او رمصفیٰ اور ان کے اخلاق وکردار کو سنوارتے ہیں اور ظاہری وباطنی نجاستوں سے پاک وصاف کرتے ہیں۔
سوال… تزکیہ نفس کیا ہے ؟ اس کا سادہ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ تہذیب اخلاق اور نفس کی تربیت کا نام ہی تزکیہ نفس ہے، انسان کے اندر سے عاداتِ رزیلہ نکل کر اخلاقِ حمیدہ اور صفات محمودہ پیدا ہو جائیں بس اسی کو تزکیہ کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی پوری زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو تربیت نفس کا پہلو ہر جگہ نظر آئے گا، آپ اپنے صحابہ کی تربیت کے لیے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے اوراس کے لیے بہتر مواقع او رمناسب حالات کی تلاش میں لگے رہتے ، جب کبھی آپ کو کوئی مناسب موقع ملتا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے صحابہ کی تربیت کرتے، تربیت کے لیے بہتر او رمناسب وقت کی تلاش میں لگے رہتے، تربیت کے لیے بہتراو رمناسب وقت کا ہونا بھی ناگزیر ہے، ورنہ مربی کی بات صدا بہ صحرا ہو گی ، اسی لیے حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا: ”دلوں کی کچھ خواہشات او رمیلانات ہوتے ہیں، کبھی وہ بات سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں اورکبھی وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے، تم لوگوں کے دلوں میں میلان کے وقت داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب کہ وہ سننے کے لیے آمادہ ہوں کیوں کہ دل کا معاملہ ایسا ہے کہ جب اسے کسی بات پرمجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے یعنی بات کو قبول کرنے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔“ (انساب الاشراف للبلاذری، باب نبذة من اقوال علی بن ابی طالب)
آں حضور صلی الله علیہ وسلم کے طریق تربیت میں حکمت ودانائی تھی، آپ موقع ومحل کے مطابق کسی کی غلطی اور کوتاہی پر براہ راست متنبہ نہیں فرماتے تھے، تاکہ مخاطب دوسرے لوگوں کے سامنے اپنی بے عزتی محسوس نہ کرے، اگر بعض لوگوں کی کچھ کوتاہیوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم باخبر ہوتے تو اجتماعی طور پر خطاب کرتے ہوئے اس غلط طرزِ فکر اور نامناسب عمل کی اصلاح فرما دیتے، اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ عام حضرات کے سامنے بھی اسلام کا صحیح طریقہٴ عمل آجاتا، جیسے حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کسی شخص کی غلطی پر تنبیہ فرماتے تو اس کا نام لیے بغیر اور اسے مخاطب کیے بغیر یوں فرماتے کہ لوگ اس طرح کیوں کرتے ہیں۔ ( ابو داؤد، باب فی حسن العشرة، حدیث نمبر4788) اسی طرح چند صحابہ نے ازواج مطہرات سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے معمولات کے بارے میں پوچھا( جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کے حالات ان کے سامنے آئے تو) ان میں سے بعض نے کہا میں کبھی شادی نہیں کروں گا اور بعض نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور بعض نے کہا کہ میں رات میں نہیں سوؤں گا، صرف عبادت ہی کرتا رہوں گا (جب یہ باتیں آپ صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئیں تو) آپ صلی الله علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر کہا کہ کیا ہو گیا ہے کچھ لوگوں کو وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟! یقینا میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں شادی بھی کرتا ہوں ( یاد رکھو!) جو کوئی میری سنت سے اعراض کرے گا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ، حدیث نمبر1401)
اگر کبھی اس بات کی ضرورت ہوتی کہ غلطی پر فوراً براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو انتہائی نرمی او رنہایت دل سوزی او رمحبت کے انداز میں سمجھاتے، تاکہ مخاطب حق بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے، چناں چہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے: ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا، مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس کو برا بھلا کہنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خاموش کیا، حتی کہ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور اس اعرابی کو بلا کر نہایت نرم لہجہ میں کہا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے، مسجد میں الله کا ذکر کیا جاتاہے اور نماز ادا کی جاتی ہے، اس اعرابی پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کہتے ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا او رنہ ہی برا بھلا کہا ۔( سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر529) آپ صلی الله علیہ وسلم کا انداز لوگوں کے ساتھ کس قدر محبت آمیز اور مشفقانہ تھا، اس کا اندازہ حضرت انس کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں:” میں دس برس تک حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہا، جو کام میں نے جس طرح بھی کر دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ”یہ کیوں کیا؟“ اگر کوئی کام نہ کر سکا تو یہ نہیں فرمایا: ”یہ کیوں نہیں کیا؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم کا باندیوں اور خادموں کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے کبھی کسی کو نہیں مارا۔ (مسلم، باب کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم أحسن الناس خلقا، حدیث نمبر2309)
اصلاح وتربیت کے سلسلہ میں آپ کا ایک خاص اسلوب یہ بھی ہے کہ آپ زیادہ لمبی اور طویل وعظ ونصیحت سے گریز کرتے ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ حیرت انگیز اعجاز تھا کہ آپ بڑی بڑی باتوں کو مختصر سے جملوں میں بیان کر دیتے تھے، الله تعالیٰ نے آپ کو جامع کلمات کی خصوصی صفت عطا کی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم محسوس اور مشاہدہ میں آنے والے امور کو لے کر نصیحت فرماتے، جس سے بات مخاطب کے ذہن نشین ہو جاتی، صحیح مسلم میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بازار سے گزر رہے تھے، لوگوں نے آپ کو دونوں طرف سے گھیر رکھا تھا، آپ کا گزر ایک چھوٹے کانوں والے مردہ بکری کے بچہ سے ہوا، آپ قریب گئے اور اس کے کان پکڑ کر فرمایا: ”تم میں سے کون اس مردہ بچہ کو ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟“ صحابہ نے عرض کیا: ”ہم کسی بھی قیمت پر اس کو خریدنا نہیں چاہتے، یہ ہمارے کس کام آئے گا آپ نے پوچھا: ”کیا تم پسند کرو گے کہ یہ مفت میں تمہیں مل جائے؟“ صحابہ نے با ادب عرض کیا: یا رسول الله ! یہ اگر زندہ ہوتا تب بھی کان چھوٹے ہونے کا عیب اس میں تھا ہی، جب کہ ابھی تویہ مردہ ہے، اس لیے اس کو لینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ سن کرنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الله کی قسم! یہ بچہ تمہاری نظر میں جتنا بے وقعت ہے، دنیا الله کی نظر میں اس سے کہیں زیادہ بے وقعت ہے۔“ (ترمذی، باب ماجاء فی ہو ان الدنیا علی الله عزوجل، حدیث نمبر2321) آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام کے دلی جذبات کو جانتے تھے اس لیے موقع کو غنیمت جانا اور دنیا کی بے وقعتی کو خوش اسلوبی سے صحابہ کے ذہنوں میں بٹھایا، جس کا نتیجہ تھا کہ دنیا کی ظاہری چمک دمک ان کی نظروں کو کبھی اپنی طرف نہ پھیر سکی اور لیلائے سیم وزر کی توبہ شکن آغوش کبھی ان کو اپنا اسیر نہیں بنا سکی۔
حضور صلی الله علیہ وسلم جذبات اور احساسات کے علاوہ مزاج ونفسیات کا بھی لحاظ فرماتے تھے، چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آکر پوچھا: متی الساعة یا رسول الله؟ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم!قیامت کب آئے گی؟ دیکھنے میں یہ ایک معمولی سا سوال تھا، جس کا کوئی بھی جواب دے کر بات ختم کر دیتے، مثلاً قیامت کی کچھ نشانیاں بتا دیتے، یا کہتے کہ اس کا علم مجھے نہیں ہے، الله ہی بہتر جانتا ہے وغیرہ۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا، آپ نے جب دیکھا کہ ایک شخص پر قیامت کی فکر طاری ہے اور اس کے وقوع کے بارے میں سوال کر رہا ہے تو آپ جواب دینے کے بجائے خود ہی سوال کرتے ہیں: ماذا اعددت لھا؟ تونے اس دن کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے ؟ اس سوال کے ذریعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حقیقت ذہن نشین کرائی کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کی ہے ؟ اگر قیامت دیر سے بھی آئے، مگر ہماری طرف سے کوئی تیاری نہ ہو تو بے کار ہے ۔ آپ کی اس خوش اسلوبی نے سائل کو احتساب نفس او راپنے اعمال کا جائزہ لینے پر آمادہ کر دیا۔(بخاری، باب ماجاء فی قول الرجل ویلک، حدیث نمبر6167)
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا انداز تربیت دل کش، دل نشیں اور دل آویز ہوتا تھا، آپ کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز جس میں درد ، سوزو تڑپ کی بجلی ہوتی وہ مخاطب کے احساس وضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی او راس کو اپنی زندگی میں صالح او رخوش گوار انقلاب لانے پر مجبور کردیتی، ایک صحابی کوشراب کی لت پڑ گئی تھی، ایک سے زائد بار شراب پینے کی حالت میں ان کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، ہر باران پر کوڑے برستے، لیکن پھر دوبارہ شیطان کے بہکاوے میں آکر شراب پی لیتے، پھر آپ کی خدمت میں انہیں پیش کیا جاتا، سزا دی جاتی مگر پھر شراب پی لیتے، ایک بار جب انہیں شراب کے نشہ میں مست حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو بیزار ہو کر کسی صحابی نے کہہ دیا: کیا عجیب انسان ہے!!الله کی لعنت ہو اس پر کہ بار بار اسے لایا جاتا ہے، جب الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ان کو لعنت کرتے ہوئے سنا تو آپ نے لعنت کرنے والے کو ڈانٹا:” اس پر لعنت مت بھیجو، یہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے“۔ ایک دوسری روایت میں ہے : ”خبر دار! اپنے دینی بھائی کے مقابلہ میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (حدیث) آپ کی یہ ہم دردی محض زبانی نہ تھی، بلکہ آپ لوگوں کے سراپا معاون اور مدد گار تھے، لوگوں کے دکھ درد میں بذات خود شریک ہوتے، مصائب میں ان کی دل جوئی کرتے، آپ کا یہی اسوہ لوگوں کو آپ کا گرویدہ بناتا اور وہ آپ کے ہر حکم پر جان دینے کے لیے تیار رہتے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم ہر بات مناسب موقع پر کرتے تھے اور اچھے کام پر صحابہ کرام کی تعریف کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے، ایک بار ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آیا، آپ نے دیکھاکہ اس کی ہتھیلیوں پر نشانات پڑے ہوئے ہیں، آپ نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا: یا رسول الله! میں ایک مزدور آدمی ہوں، کسب حلال کے لیے مجھے پتھر توڑنا پڑتا ہے، اس سخت محنت کی وجہ سے یہ نشانات پڑ گئے ہیں، جب آپ نے یہ بات سنی تو فرط محبت میں اس کے ہاتھ چوم لیے۔(حدیث) غور کیجیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اس فعل مبارک سے اس صحابی کا کتنا دل خوش ہوا ہو گا او ران کا حوصلہ کتنا بلند ہوا ہو گا!!!
ان تمام باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ کہ حضور صلی الله علیہ وسلم ہر کام اور ہر معاملے میں تدریج کا اہتمام فرماتے تھے، زیر تربیت افراد کی خوبیوں اور خامیوں کا اچھی طرح سے تجزیہ کرکے ایک خامی کو دور کرتے ایک خوبی کو پروان چڑھاتے، مخاطب کی صلاحیت اور طاقت کے مطابق اسے احکام اسلام کا پابند بناتے، اسی لیے حضرت معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے، وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے معاذ! تم اہل کتاب کے پاس جارہے ہو، تم پہلے انہیں توحید اور رسالت کی دعوت دینا، جب وہ یہ بات مان لیں کہ الله ایک ہے اور محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے رسول ہیں تو پھر انہیں یہ بتانا کہ الله نے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ اس بات کو بھی تسلیم کر لیں تو پھر انہیں یہ بتانا کہ الله نے ان پر زکوٰة فرض کی ہے جو ان کے مال داروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے گی۔“ (بخاری، باب وجوب الزکوٰة، حدیث نمبر1395)
ہم سیرت نبوی علی صاحبہا التسلیمات کا مطالعہ کریں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے تربیت کے طریقوں کو ذہن نشین کریں اور ان طریقوں کے مطابق نسل نوکی تربیت او ران کے اخلاق وکردار کی تہذیب کا عمل انجام دیں، اس سے ان شاء الله ایک صالح اور خوش گوار معاشرہ وجود میں آئے گا او راس کے زیر سایہ پوری انسانیت کو امن وسکون او رچین واطمینان کی سانس نصیب ہو گی۔ آمین!