Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

17 - 20
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراس کے تقاضے

مفتی محمدعبداللہ قاسمی
	
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت دین وایمان کا جز ہے، دنیوی واخروی فلاح وکام یابی کا ضامن ہے ،جہنم اوراس کے درد ناک عذاب سے گلوخلاصی کے لیے اولین شرط ہے ،محبت رسول سے ایمان کی حلاوت اورچاشنی نصیب ہوتی ہے ،جنت میں نبی کی رفاقت ومعیت حاصل ہوتی ہے،حب رسول ایک سچے مسلمان کی فطرت کا اٹوٹ حصہ ہے ،مومن کے دل کی آرزو اور اس کے ضمیر کی آوازہے،عشق رسول وہ متاع گراں مایہ ہے جو صحابہ کرام کے حصہ میں آئی تو ان میں سے ہر فرد اپنے عہد کا گل سرسبد ،مینارہ نور اورنوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار بنا ،یہ وہ مئے ہے کہ اس کے جام لب ریز سے جس نے بادہ گساری کی وہ دنیا میں آفتاب وماہ تاب بن کر چمکا، اورپوری دنیا کو اپنی ضیاپاشی سے منور کیا ،یہ وہ سرور آفریں نشہ ہے کہ جو اس سے سرشار ہوا اس نے محبت وعرفان کے مدارج تیزگامی سے طے کیے، اورفطرت کے اسرار ورموز اس پر منکشف ہوئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت رکھنا اسلام میں مطلوب ہے اورہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے،اس کے بغیر مسلمان کا ایمان ناقص ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :”لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین․“(بخاری ،حدیث نمبر:14)تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ،اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ،جو شخص رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح معنوں میں محبت کرتاہے اسے نہ صرف اخروی نجات حاصل ہوگی ؛بلکہ وہ جنت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت ومعیت سے بھی سرفراز ہوگا ،چناں چہ مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! قیامت کب آئے گی ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟اس شخص نے کہا :اللہ اوراس کے رسول کی محبت۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تم کو محبت ہوگی ۔(بخاری شریف ،حدیث نمبر:6171)۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت اورآپ سے قلبی لگاؤ سب سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو تھا،صحابہ کرام سے زیادہ نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرنے والے نہ پیدا ہوئے اورنہ پیدا ہوں گے، یہ حب رسول اورآپ صلی الله علیہ وسلم سے عشق ہی کا نشہ تھا کہ حضرت زید بن دثنہ  کفار مکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ،جب انہیں شہید کرنے کے لیے حرم سے باہر لایا گیا تو ابوسفیان نے، جو اس وقت مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے، ان سے پوچھاکہ زید! کیا تم اس کو پسند کروگے کہ اس وقت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہاری جگہ ہوں اورہم تمہارے بدلہ ان کی گردن اڑادیں اورتم اپنے اہل وعیا ل میں عیش کرو،حضرت زیدبن دثنہ  نے عشق رسول کے نشہ میں سرشار ہوکر پوری خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا :(تم قتل کرنے کی بات کرتے ہو)اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر ہوں اورآپ صلی الله علیہ وسلم کو کانٹا بھی چبھ جائے تو میں اسے گوار نہیں کرسکتا ۔اس پر ابوسفیان نے کہا کہ میں نے لوگوں میں سے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسے محمد (صلی الله علیہ وسلم) کے ساتھی ان سے کرتے ہیں ۔(معرفة الصحابة لابی نعیم:3/1183)

صلح حدیبیہ کے موقع پرحضرت عروہ بن مسعود ثقفی  مسلمانوں سے معاہدہ کرکے جب کفار مکہ کے پاس پہنچے تو صحابہ کی جانثاری اورآپ صلی الله علیہ وسلم سے حددرجہ عشق ومحبت کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اللہ کی قسم !میں دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس گیا ہوں ،میں نے قیصر وکسری اورنجاشی کا درباربھی دیکھاہے،بخدا!میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحبین اس کی ایسی تعظیم وتوقیر کرتے ہوں جتنی صحابہ کرام  آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں ،قسم بخدا!جب وہ ناک صاف کرتے ہیں تو اس کی ریزش صحابہ کرام اپنی ہتھیلی میں لے لیتے ہیں، اوراس کو اپنے چہرہ پر مل لیتے ہیں ،جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ لوگ اس کی تعمیل میں دوڑ پڑتے ہیں ،جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضوکاپانی لینے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ،جب وہ کچھ کہنے لگتے ہیں تو ان کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں ،آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم میں وہ نظر اٹھاکرنہیں دیکھتے ہیں۔(بخاری ،حدیث نمبر:2731)

نبی کی محبت، جس پر ایمان کا دارومدار ہے، آج امت میں اس حقیقی محبت کا فقدان ہے ،نبی کی محبت، جو اتباع شریعت اورسنتوں کا اہتمام کرنے پر مجبور کرے، ایسی محبت ہم میں ناپید ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کا دم بھرنے والے لوگ تو بہت ہیں ،عشق رسول کا دعوی کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ؛لیکن وہ عشق جو اطاعت رسول پر ابھارے وہ ہم میں مفقود ہے ،اگر ہمارے اندر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کو پامال نہ کرتے ،ہم ایسے اعمال سے کنارہ کشی اختیارکرتے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کو ناپسند ہیں،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ میلاد النبی کے عنوان سے ہم بہت سے ایسے اعمال کرتے ہیں جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے سختی سے منع کیا ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے کامل مسلمان اس شخص کو قراردیا ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری ،حدیث نمبر:10)آپ صلی الله علیہ وسلم نے راستہ سے تکلیف دہ چیزکو ہٹانے کو جنت میں داخل ہونے کاسبب قرار دیا ہے۔(بخاری ،حدیث نمبر:2631)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے سایہ داردرخت کو کاٹنے سے منع فرمایا ہے ؛اس لیے کہ یہ دوسرے کے لیے باعث تکلیف ہوتاہے ، لیکن عمومایہ دیکھا گیا ہے کہ میلاد النبی کے جلسوں میں ارباب جلسہ ساونڈ باکس جلسہ گاہ سے باہر نصب کرتے ہیں ،جس کے نتیجے میں آواز گھر گھر میں اس قوت کے ساتھ پہنچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، نہ کوئی آرام کرسکتاہے، نہ کوئی یکسوئی سے اپنا کا م انجام د ے سکتاہے ،ظاہر ہے کہ اس سے لوگوں کی یکسوئی میں فرق آتاہے اور انہیں ایذا پہنچتی ہے ،دوسرے یہ کہ محلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری قومیں بھی بستی ہیں، مسلمانوں کے اس طرز عمل سے وہ اسلام اور مسلمانوں سے قریب ہونے کے بجائے ان سے متنفر ہوجاتے ہیں، اسلام کی صاف وشفاف ہدایا ت وتعلیمات کے متعلق غلط تاثرات ان کے ذہنوں میں راہ پاتے ہیں ۔اسی طرح بعض مقامات پر یہ دیکھنے میں آیاہے کہ میلاد النبی کے جلسے عام گزرگاہوں پرمنعقد کیے جاتے ہیں، جس سے ٹریفک کے مسائل پید اہوتے ہیں اورلوگوں کو آمد ورفت میں زحمت ومشقت کا سامنا کرناپڑتاہے ۔حب رسول کے نام پر چند رسمی اعمال میں بے دریغ پیسے صرف کیے جاتے ہیں اوربے جا فضول خرچی اورحد درجہ اسراف سے کام لیا جاتاہے ،حالاں کہ اسراف گناہ کبیرہ ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے اسراف کرنے والوں کوشیطان کا بھائی قرار دیا ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسراف سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔

اسی طرح میلاد النبی کے جلسوں میں خطاب کرنے والے مقررین کرام کو لوگوں کی طرف سے تعریف وتوصیف اورواہ واہ کی فکر زیادہ دامن گیر ہوتی ہے ،عوامی اصلاح کی باتیں کم ہوتی ہیں ،اورزیادہ تر گفتگو نعروں اوربے جا شورشرابوں پر ہوتی ہے،مقررین کرام سیرت النبی کے ان جلسوں میں مسلکی اختلافات کی اساس پرعوام میں آپسی اختلاف وانتشار ،تعصب وتحزب اورگروہ بندی وتفرقہ بندی کے بیج بوتے ہیں، سیرت النبی کے یہ جلسے جہاں سے اتحاد واتفاق اوراخوت وبھائی چارگی کا پیام عام ہونا چاہیے تھا آج یہ جلسے دوسرے مکاتب فکر کے خلاف بغض وعنا د اورعداوت ودشمنی کی مسموم فضا پھیلانے کا پلیٹ فارم بن چکے ہیں ،چناں چہ ان جلسوں میں دوسرے مکاتب فکر کے علماء کی توہین وتنقیص کی جاتی ہے ،ان کے لیے اہانت آمیز اورفتنہ خیز جملے استعمال کیے جاتے ہیں ،ظاہر ہے کہ عشق رسول کے نام پر کی جانے والی ان خرافات کا دین وایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے اوریہ پہلوفوری طورپر اصلاح طلب ہے ۔

عشق رسول کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے خودبھی واقف ہوں اورنئی نسل کو اس سے واقف کرانے کا اہتمام کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم سے حقیقی محبت وعقیدت کا نقش ہم اپنے دلوں میں بٹھائیں ،نوجوان نسل کو اسلامی تہذیب وثقافت کے حوالہ سے غیور بنائیں ،اسوہ نبوی کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم مصمم کریں ،اپنے اخلاق کے بام ودر کو گلشن سیرت کے عطربیز پھولوں سے سجائیں،آپ صلی الله علیہ وسلم کی مٹی ہوئی سنتوں کااحیاء کریں، مغربی وضع قطع اورچال ڈھال کو اختیار کرنے کے بجائے اسلامی وضع قطع کو اپنائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات وہدایات سے برادران وطن کو واقف کرائیں،اگرہم اس کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیارکرتے ہیں توپھرہماری زندگیوں میں خوش گواراورصالح انقلاب آئے گا،ہرسو چھائی ہوئی ذلت ونکبت دور ہوگی، اورانشا ء اللہ شبابی سے کلیمی اورغلامی سے آقائی حاصل ہوگی، اورہماری عظمت رفتہ اورکھویا ہواوقاربحال ہوگا۔

Flag Counter