Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

1 - 20
آپ کیا کررہے ہیں؟

عبید اللہ خالد
	
اس وقت شام کی صورتِ حال پوری دنیا میں توجہ کا مرکز ہے۔ خبروں کے مطابق، جس طرح وہاں خانہ جنگی کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، وہ درندگی کی سفاک ترین مثال پیش کرتا ہے۔ شام کے شہر حلب میں جاری کشت و خون کی خبریں آپ بھی روزانہ سن رہے ہیں اور وہاں کی یہ تصاویر مسلمانوں کی مجبوری اور معذوری کی الم ناک تصویر کشی کرتی ہیں۔

وجہ بہ ظاہر کچھ ہی ہو، نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے عام مسلمان شدید ترین صعوبتوں سے گزر رہے ہیں اور عالمی میڈیا کے مطابق، اس میں بچوں اور عورتوں کی بھی تخصیص نہیں ہے۔ حتیٰ کہ دشمنوں نے اس بار مسلمان خواتین کو خاص کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہے۔

یوں تو مسلمانوں کے ساتھ یہ سلسلہ پہلی بار نہیں ہوا، تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اتنے ہی بے حس اور بے پروا ہوچکے ہیں کہ وہ بار بار کی مشکلات کے باوجود اسباب پر غور کرنے اور ان کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟

معاملہ تاتاری حملے کا ہو یا پھر ہندستان پر فرنگی جالوں کا، یا پھر کوئی اور سانحہ․․․ ہر حال میں مسلمانوں نے ایک قوم کی حیثیت سے کبھی دل سوزی اور جاں گدازی کے ساتھ اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اگر کسی طبقے نے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے اور انہیں درست سوچ دینے اور صحیح راستہ دکھانے کی جرات کی تو وہ علما کا طبقہ ہے۔ لیکن، شو مئی قسمت کہ مسلمانوں نے انہی سے بغض رکھا اور ان کی بات پر سرمو التفات نہیں کیا۔

اگرچہ یہ سلسلہ کئی سو سال سے جاری ہے، مگر اٹھارویں صدی کے بعد جب دنیا پر سامراجی تسلط کے بعد خاص الحادی فکر کو عام کیا گیا، یہ مزاج آج اپنی انتہا کو ہے۔ سامراجی تسلط کے بعد جو نظام دنیا پر مسلط پر کیا گیا، وہ نام کو اگرچہ غیر مذہبی یا لادینی (سیکولر) ہے، مگر عملی اعتبار سے وہ اینٹی اسلام ہے۔

خود مسلم ممالک میں اس فکر کو کبھی نظام تعلیم کے نام پر تو کبھی روشن خیالی کے نام پر مسلمانوں میں پھیلانے کی مہم جاری رکھی جاتی ہے۔

مسلمانوں کا حال اس مُردہ کی طرح ہوچکا ہے جس کو جدھر چاہے، اٹھا پھینکا جائے، اس کی طرف سے کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جس جانب توجہ کی جائے، جس شعبے پر نظر ڈالی جائے، یہی حال دکھائی دیتا ہے۔ یہ معاملہ صرف دنیا کا ہوتا تو شاید بات کسی حد تک قابل قبول تھی کہ چلو دین اور آخرت تو محفوظ ہیں کہ دنیا تو ویسے ہی فانی ہے اور ہمیں مر کر خدا کے حضور جانا ہے، لیکن مذکورہ بالا جمود کی کیفیت ہمیں مسلمانوں کے دین اورآخرت کی بھی نظر آتی ہے۔ بلکہ بعض لحاظ سے معاملہ دنیاوی پہلو سے زیادہ شدید اس لیے بھی ہے کہ یہاں معاملہ بے دینی سے آگے نکل کر بددینی کی طرف چلا گیا ہے۔اس وجہ سے مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ ایسے افعال اور افکار کا شکار ہے جو قرآن اور حدیث سے واضح طور پر ٹکراتے ہیں، مگر انہیں قرآن و حدیث اور نبوی تعلیمات بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

ہم نے بات شروع کی تھی شام کے حالا ت سے․․․ دنیا میں اور بھی کئی علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ خود اُن ممالک میں کہ جہاں مسلمان بہ ظاہر امن سے ہیں، کیا وہاں وہ اسلامی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا وہاں وہ مسلمان دین پر بہ خوشی چلنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم جو ایک اسلامی مملکت کے شہری ہیں، اپنے تئیں خوش دلی سے دین پر عمل کرنے کو تیار ہیں؟

شاید اس کا جواب اگر واضح طور پر نفی میں نہ ہو تو اثبات میں بھی نہیں ہے۔

جب ہمارا حال یہ ہے تو کیا ہم اس اندازِ فکر اور طرزِ حیا ت کے ذریعے اللہ کی رحمت کو دعوت دے رہے ہیں یا عذاب کو؟ اس سوال کا جواب آپ خوب جانتے ہیں!

Flag Counter