Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

9 - 17
اصلاح باطن

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

نحمدہ ونستعینہ، ونستغفرہ، ونومن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور انفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھدأن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی ، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی، بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ، وَالْآخِرَةُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی، إِنَّ ہَذَا لَفِیْ الصُّحُفِ الْأُولَی، صُحُفِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی ﴾․ (سورة الأعلی، آیت:19-14)

قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ألا إن فی الجسد مضغة، إذا صلحت صلح الجد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الإیمان، باب فضل من استبر أ لدینہ، رقم الحدیث:52)

صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک لمن الشاھدین والشاکرین، والحمدلله رب العالمین․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو!

آپ حضرات کے سامنے قرآن کریم کی جو آیت تلاوت کی ہے، اس میں الله تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی﴾ تحقیق فلاح اور حقیقی کام یابی حاصل کر لی اس شخص نے جس نے اپنے باطن کو، اندرون کو روح کو گندگیوں سے پاک کرلیا اور وہ الله کو یاد کرتا ہے، الله کا ذکر کرتا ہے اور الله کی بندگی، اس کی عبادت کرتا ہے۔

یہ تین صفات اور خوبیاں جس آدمی میں ہیں، الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آدمی فلاح اور کام یابی حاصل کرنے والا ہے۔

کام یابی کا ایک مفہوم وہ ہے، جو ہمارے درمیان ہے کہ پیسے زیادہ ہوں تو آدمی کام یاب ہے، جائیداد زیادہ ہو، وہ آدمی کام یاب ہے، عزت اور منصب بڑا حاصل ہو، تو وہ آدمی کا م یاب ہے، شادی ہو جائے، بچے ہو جائیں تو وہ آدمی کام یاب ہے، فلاں ، فلاں… یہ سارے معیارات وہ ہیں جو ہم نے آپس میں قائم کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے معیارات ہم خود مشاہدہ کرتے ہیں، ہم خود صبح شام دیکھتے ہیں کہ وہ حقیقی کام یابی نہیں، پیسے کا زیادہ ہونا یہ کام یابی نہیں، قارون کے پاس بھی بہت مال تھا، آثارواحادیث میں ہے کہ ساٹھ خچروں پر اس کے خزانے کی چابیاں جاتی تھیں، تو خزانہ کتنا بڑا ہو گا؟ (تاریخ الطبری، تاریخ ماقبل الھجرة، ذکر أمرقارون263/1 البدایہ والنہایہ، ماقبل الھجرة النبوة، قصہ قارون مع موسی356/1)

لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ وہ نامراد ہوا، وہ نا کام ہوا۔ وہ نامراد تھا، وہ ناکام تھا۔عزت ومنصب میں کام یابی نہیں۔ نمرود بہت بڑا بادشاہ تھا۔ فرعون بہت بڑا بادشاہ تھا، لیکن اس کی بادشاہت اسے کام یاب نہ کر سکی۔ ان لوگوں کا منصب انہیں کا م یاب نہ کر سکا۔ہم اپنے ارد گرد دیکھیں کہ آج ایک آدمی کے پاس پیسہ ہے او رکل اس کے پاس نہیں۔ آج کام یاب ہے، کل ناکام ہے، آج عہدہ، منصب ہے اور کل وہ عہدہ اور منصب اس کے پاس نہیں، اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں۔

یہ ساری چیزیں عارضی ہیں اور عارضی ہونے کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ نے ان میں چین، سکون اور اطمینان نہیں رکھا۔ دنیا میں ایک ادارہ ہے، جو دنیا میں معیار زندگی کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ملک او رکہاں کے رہنے والے کی زندگی کا معیار سب سے اونچا ہے۔ کہاں کے رہنے والوں کی آمدنی سب سے زیادہ ہے، اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

چناں چہ”ناروے“کے بارے میں اس عالمی ادارے کا فیصلہ ہے کہ وہاں معیار زندگی سب سے بلند ہے، امریکا سے بھی بلند، برطانیہ سے بھی بلند، جاپان سے بھی بلند ہے․․․ اور وہاں کی آمدنی سب سے زیادہ ہے۔ انھیں کا ایک اور عالمی ادارہ بھی ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ خودکشی بھی ناروے میں ہے۔ سب سے زیادہ پاگل اور مجنون بھی ناروے میں ہیں، سب سے زیادہ طلاق کی شرح بھی ناروے میں ہے۔

اگر معیار زندگی اتنا بلند ہے اور آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی مقابل نہیں، تو عقل کیا کہتی ہے؟ چین ہونا چاہیے، سکون ہونا چاہیے، راحت ہونی چاہیے، اطمینان ہونا چاہیے۔

لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ الله تعالیٰ نے ان چیزوں میں راحت ، چین، سکون نہیں رکھا۔

﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّی﴾ جو آدمی اپنے باطن کو گندگیوں سے پاک کرلیتا ہے او راس کے بعد وہ الله الله کہتا ہے تو اسی میں اطمینان ہے۔ لہٰذا، اطمینان الله تعالیٰ نے اپنے ذکر میں رکھا ہے۔ اطمینان الله تعالیٰ نے اپنی طرف رجوع، اپنی طرف انابت میں رکھا ہے۔ اطمینان اور فلاح الله تعالیٰ نے اپنے نام میں رکھی ہے۔ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن کریم میں اور احادیث میں جہاں ”فوز“ اور ”فلاح“ استعمال ہوا ہے، اس کا ترجمہ وہ نہیں جو ہمارے ہاں کام یابی کا لیا جاتا ہے، بلکہ اس کا ترجمہ ہے: ایسی کام یابی جس کے بعد پھر کبھی ناکامی نہ ہو۔ چنانچہ الله تعالیٰ کے ذکر میں اطمینان ہے۔ مال میں، دولت میں، اطمینان نہیں۔

الله تعالیٰ کا ذکر آپ کسی بھی حال میں کرسکتے ہیں، چلتے ہوئے، لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے، گاڑ ی میں ، دکان میں، گھر میں ،مسجد میں، سب جگہ۔ الله کے ذکر میں آپ کو سکون اور اطمینان ملے گا، یقینا ملے گا، طے شدہ ہے۔ اگر محنت کرکے آدمی اپنے باطن کو پاک اور صاف کرلے تو یہ سکون مل جائے گا۔

آپ جانتے ہیں کہ اگر گندے برتن میں پانی پئیں تو پانی گندا ہو جائے گا، گندے برتن میں دودھ ڈالیں، گندے برتن میں آپ اور چیزیں ڈالیں، تو وہ سب چیزیں خراب ہو جائیں گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ برتن کو آپ بہت اچھی طرح صاف ، شفاف، پاک کرکے اس میں پانی پئیں۔ کئی مرتبہ آپ کو تجربہ بھی ہوا ہو گا کہ صاف شفاف برتن میں آپ پانی پیتے ہیں تو پیاس بجھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اطمینان ہوتا ہے او راگر میلے کچیلے برتن میں پانی پیتے ہیں، تو پانی توپی لیتے ہیں، لیکن اطمینان نہیں ہوتا اور طبیعت میں تکدر اور طبیعت پر اُلجھن آتی ہے۔

اپنے اندر کو پاک کرنا، اس کا تزکیہ کرنا․․․ اس کے لیے باقاعدہ آدمی پہلے تو یہ جانے کہ اندر کی بیماری کیا ہے؟ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ آپ اس کو جانتے نہیں کہ باطن کی بیماری کیا ہے؟

چناں چہ ریا ایک بیماری ہے، جو اند رکی بیماری ہے، کِبر بیماری ہے، اندر کی بیماری ہے اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کی خواہش کرنا یعنی ”سُمعہ“ یہ بیماری ہے، عجب کی بیماری ہے کہ میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہو کہ نماز کے بعد لوگ مجھ سے کہیں کہ واہ، مولانا واہ! آج آپ نے کیا بیان کیا ہے! یہ اندر کی بیماری ہے۔

ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ منبر پر بیان فرمارہے ہیں۔ بیان کے دوران اچانک منبر سے اتر گئے اور نیچے بیٹھ گئے۔ صحابہ نے پوچھا، اے امیر المومنین، عجیب بات ہے، آپ تو بیان فرمارہے تھے اور بیان کے دوران فوراً آپ نیچے آکے بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ میرے دل میں تعلِّی پیدا ہوئی یعنی میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں ان سے بڑا ہوں، تو فوراً میں نے اس کی اصلاح کی کہ نہیں ،میں ان سے بڑا نہیں ہوں، میں ان کے برابر ہوں۔ چناں چہ فوراً اسی مجمع میں بیٹھ گئے۔ اب آپ بتائیے کہ کیا اس بیماری کو کوئی دیکھ سکتا ہے؟ یہ نظر آنے والی بیماری نہیں ہے۔

میں نماز پڑھ رہا ہوں کہ لوگ مجھے نمازی کہیں، میں دعا مانگ رہا ہوں اس جذبے سے کہ لوگ مجھے کہیں کہ ماشاء الله دعائیں مانگ رہا ہے۔ یہ سب ریا ہے۔

اسی طرح کبر ہے، غرور ہے۔ غرور اورکبر گناہ کبیرہ ہیں۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کبریائی صرف میرے لیے ہے۔ میرے سوا کسی اور کے لیے کبریائی نہیں ہے۔ کبریائی میری چادر ہے۔ اگر کوئی کبر کرتا ہے، تو وہ میری ردائے کبریائی کو پھاڑ رہا ہے، میں اس کو گوارہ نہیں کرتا۔

آپ جانتے ہیں کہ شیطان کا نام ”عزازیل“ ہے۔ یہ شیطان بننے سے پہلے الله تعالیٰ کا بہت مقرب تھا۔ یہ سارے فرشتوں کا سردار تھا۔ (الکشف والبیان، سورة الکہف،175/6) لیکن․․․ تکبر عزازیل را خاک کرد․․․ تکبر نے شیطان کو برباد کردیا۔ اس کی ساری خوبیاں ختم کردیں۔

اسی طرح سمعہ اندر کی بیماری ہے۔ اسی طرح بخل اندر کی بیماری ہے کہ آدمی کے پاس پیسہ ہے۔ پیسے، مال، دولت یہ جمع کرنے کی چیز نہیں، یہ تو خرچ کرنے کی چیز ہے۔ جتنا خرچ کروگے، الله تعالیٰ اتنا خوش ہوں گے اور جب الله تعالیٰ خوش ہوں گے تو پیسہ کم ہو گا یا زیادہ ہو گا؟

بہ بہت بڑی بھول ہے، بہت بڑی غلطی ہے کہ میں پیسہ خرچ کروں گا تو پیسہ کم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں، بلکہ جتنا خرچ کرے گا، اتنا الله تعالیٰ اس کو اور عطا کرے گا، نیز انسان خرچ کرنے میں خود کو ریا سے، سمعہ سے بچائے۔ خاموشی سے خرچ کرے ۔

میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے جب یہ دنیا بنائی تو سب سے پہلے پانی پر ایک مٹی کا بلبلہ پیدا کیا اور اس کو کھینچا طولاً بھی او رعرضاً بھی۔ جب یہ زمین کی شکل میں پھیل گئی تو پانی کے اوپر ڈولنے لگی۔ اس کو حرکت سے روکنے کے لیے الله تعالیٰ نے اس پر پہاڑ کی کیلیں لگائیں۔ یہ پہاڑ کیلیں ہیں جو اس زمین کو توازن میں رکھے ہوئے ہیں۔

حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمین کی حرکت روکنے کے لیے الله تعالیٰ نے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کیے۔ فرشتوں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے الله ! یہ تو ایسی مخلوق ہے کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی، تو کیا آپ کی مخلوقات میں اس سے بڑی بھی کوئی مخلوق ہے؟ فرمایا،ہاں، اس سے بڑی بھی مخلوق ہے، بہت بڑی، بہت زیادہ طاقت ور۔ فرشتوں نے پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا: وہ لوہا ہے۔ لوہا پہاڑوں کو کاٹ دیتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ملک، بیرون ملک، بڑے بڑے پہاڑوں کو لوہا اس طرح کاٹ دیتا ہے، جس طرح ہم کیک کاٹتے ہیں۔ اِدھربھی پہاڑ، اُدھر بھی پہاڑ․․․بیچ میں سے لوہے کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے۔ سرنگیں بنائی جاتی ہیں۔ لوہے کے ذریعے اس کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ پھر پوچھا، اے الله! کیا لوہے سے بھی زیادہ طاقت ور آپ کی مخلوق ہے؟ فرمایا: ہاں! پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا، وہ آگ ہے اور وہ اتنی طاقت ور ہے کہ لوہا جتنا بھی بڑا اور سخت ہو، آگ اسے پگھلادیتی ہے۔ آپ نے لوہے کی بھٹیوں میں دیکھا ہوگا کہ لوہا وہاں آگ کے اوپر ڈالا جاتا ہے۔ پہلے تو وہ لال، سرخ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اور حرارت اور آگ بڑھاتے ہیں، تو وہ پانی بن جاتا ہے۔ آگ کے سامنے وہ لوہا پانی کی طرح بہتا ہے، حالاں کہ وہ لوہا پانی نہیں، لیکن اس آگ نے لوہے کو پانی بنا دیا۔

پھر فرشتوں نے پوچھا کہ اے الله! آگ سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پوچھا، وہ کیا ہے؟ فرمایا: وہ ہے پانی۔ کتنی بڑی آگ ہو، اس پر اگر پانی برس جائے، اس پر پانی ڈال دیا جائے، تو آگ بجھ جاتی ہے۔ پھر پوچھا کہ اے الله! پانی سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں۔ اس پانی سے زیادہ طاقت وَر ہوا ہے کہ کتنا ہی پانی ہو، آپ دیکھتے ہیں، اوپر بادل ہیں اور ان بادلوں میں بلکہ بدلیوں میں اتنا پانی ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی جگہ برسنا شروع کر دیں تو بعض دفعہ شہروں کے شہر ڈوب جاتے ہیں، سیلاب آجاتا ہے، علاقوں کے علاقے تباہ ہو جاتے ہیں۔

لیکن ہوا ان بادلوں کو اڑالے جاتی ہے۔ ان بادلوں کی ہوا کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ پھر پوچھا کہ اے الله تعالیٰ! اس ہوا سے بھی زیادہ طاقت ور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں، اس ہوا سے زیادہ طاقت ور ایک مومن کا دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرنا ہے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ یہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔

”عن أنس بن مالک رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: لما خلق الله الأرض جعلت تمید، فخلق الجبال فعاد بھا علیھا فاستقرت، فعجبت الملائکة من شدة الجبال، قالوا: یارب ھل من خلقک شیء أشد من الجبال؟ قال: نعم، الحدید، قالوا: یارب، فھل من خلقک شیء أشد من الحدید؟ قال: نعم، النار، فقالوا: یارب، فھل من خلقک شيء أشد من النار؟ قال: نعم الماء، قالوا: یارب فھل من خلقک شیء أشد من الماء؟ قال: نعم، الریح، قالوا یارب، فھل من خلقک شیء أشد من الریح؟ قال: نعم، ابن آدم تصدق بصدقة یمینہ یخفیھا من شمالہ․“ (سنن الترمذی، أبواب تفسیر القرآن، رقم الحدیث:3369)

یہ وہی اخلاص ہے کہ الله کے لیے ہو۔ آپ الله کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں۔ آپ صدقہ دے رہے ہیں۔ آپ خیرات کر رہے ہیں، لیکن اس جذبے سے کہ الله تعالیٰ راضی ہو جائے، مخلوق کو پتہ نہ چلے، لوگوں کو پتہ نہ چلے، بالکل خاموشی ہے۔ اس کا اجر الله تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ ہے۔

یہ خیال کرنا کہ میں خرچ کروں گا تو میرے پیسے کم ہو جائیں گے! ایسا نہیں ہے، بلکہ آپ الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے تو الله تعالیٰ خوش ہوں گے او رجب الله تعالیٰ خوش ہوں گے تو سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے اندر بہت بڑی طمانینت پیدا ہوگئی ہے۔ آپ کے اندر اطمینان اور خوشی پیدا ہو گی۔

کسی غریب کو، کسی یتیم کو، کسی بیوہ کو، کسی ضرورت مند کو آپ جب اس پر خرچ کریں گے تو آپ کے اندر ایک طاقت آئے گی ،ایک قوت آئے گی اورآپ کے اندر خوشی پیدا ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ جب راضی ہوں گے تو آپ کے لیے فتوحات کے دروازے کھول دیں گے، کبھی کم نہیں ہوں گے۔

میں عرض کر رہاتھا کہ یہ اندر کے معاملات ہیں، اندر کی چیزیں ہیں کہ جب ان کو آدمی ایک ایک نشان لگائے اور فکر کرے کہ کہیں میرے اندر کبر تو نہیں؟ اگر ہے تو اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے، ریا تو نہیں ہے میرے اندر؟ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔

اور اسی طریقے سے سمعہ ہے، بخل ہے، بدنظری ہے، جبن اور بزدلی ہے۔ یہ سب اندر کی بیماریاں ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ اورجب الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے اور الله تعالیٰ کی طرف انابت اختیارکرکے وہ اس کوشش میں لگتا ہے تو الله تعالیٰ اس کے لیے آسان فرماتا ہے ۔

اس کا سب سے مؤثر ذریعہ اچھی صحبت اختیار کرنا ہے۔ جب آدمی کی صحبت اچھی ہوتی ہے تو وہ اچھا ہو جاتا ہے او رجب آدمی کی صحبت خراب ہو گی تو وہ خراب ہو گا۔ یہ صحبت ہر ہر چیز کی ہے، یہ پتھر کی بھی ہے، یہ مٹی کی بھی ہے، یہ لکڑی کی بھی ہے، یہ سونے چاندی کی بھی ہے، یہ گھر کی بھی ہے، یہ بیوی بچوں کی بھی ہے، یہ دوستوں ، اچھے برے دوستوں کی بھی ہے۔

آج ہماری صحبت خراب ہے۔ ہم مسجد میں ہیں، الله کا گھر ہے، یہ صحبت ہے، ہم یہاں اس وقت بیٹھے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ الله کا گھر فرشتوں سے بھرا ہوا ہے تو ہمیں فرشتوں کی صحبت حاصل ہو رہی ہے یا نہیں؟

اب یہ صحبت جتنی بڑھے گی تو فرشتوں والی صفات ہمارے اندر آئیں گی۔ اس طرح بازار کی صحبت ہے، ایک آدمی بازار میں ہے، بعض لوگ تو کام سے بازار میں ہیں اور بعض لوگ بغیر کام کے بازار میں ہیں کوئی کام نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، ہوٹل میں بیٹھے ہوئے ہیں ،راستے میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ بتائیے کہ اس سے گناہ گارہوں گے ،نہیں ہوں گے؟ طے شدہ بات ہے۔

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین جگہیں روئے ارض پر الله کے گھر ہیں یعنی مساجد ہیں۔ اور سب سے بدترین جگہیں بازار ہیں۔(عن أبی ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: أحب البلاد إلی الله مساجدھا، وأبغض البلاد إلی الله أسواقھا)(الجامع الصحیح لمسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد، رقم الحدیث:288)

بازار میں کان بھی خراب ہو گا ، آنکھ بھی خراب ہو گی ، زبان بھی خراب ہو گی، دل بھی خراب ہو گا، دماغ بھی خراب ہو گا، ہر چیز خراب ہو گی۔ جو لوگ ضرورت سے بازار میں بیٹھتے ہیں، مثلاً کسی کی دکان ہے، کسی کی تجارت ہے ،وہ بھی اپنی حفاظت کا اہتمام کریں۔ وہ بھی محفوظ رہیں۔ کوشش کریں کہ بدنظری سے بچیں۔ کوشش کریں کہ کانوں کو گندگی سے بچائیں۔ کوشش کریں کہ زبان کو بری باتوں سے بچائیں۔ کوشش کریں کہ دکان کے ماحول کو بری صحبتوں سے بچائیں۔ غلط لوگ اندر بیٹھیں گے تو غلط باتیں شروع ہوں گی۔

یہ فکر کا کام ہے۔ اور یہ کام ابھی سے، اپنی ذات سے شروع کریں۔ اپنے گھر میں اس کا اہتمام کریں۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا اہتمام کریں۔ ہم اچھی صحبت میں رہیں۔ کتابوں کے ساتھ، قرآن کریم ساتھ، حدیث کے ساتھ، سب چیزوں کے ساتھ ان کا ارتباط ہو۔

آپ قرآن پڑھ رہے ہیں تو کس کی صحبت میں ہیں؟ قرآن کی صحبت میں۔ آپ حدیث پڑھ رہے ہیں تو کس کی صحبت میں ہیں؟ حدیث کی صحبت میں۔ فقہ کی کتابیں پڑھ رہے ہیں تو فقہ کی صحبت میں۔

لیکن ایک آدمی جو بازار میں ہے، محلے میں ہے، دکان میں ہے، دفتر میں ہے وہ بُری صحبت میں ہے۔

اسی طرح دعوت وتبلیغ کے نام سے جو کام ہو رہا ہے اس میں ہمیں اچھی صحبت مل رہی ہے۔چناں چہ تین دن ،دس دن، چالیس دن، چار مہینے، جب انسان اس راستے میں لگتا ہے تو ان تمام بری صحبتوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے او رہمیں ایک نیک اوربہترین صحبت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اب نماز پڑھنے کو جی چاہ رہا ہے، اب صحبت اچھی ہو گئی، قرآن پڑھنے کوجی چاہ رہا ہے۔ صحبت اچھی ہو گی تو ذکرکرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ صحبت اچھی ہو گی تو باتیں بھی منھ سے اچھی نکل رہی ہیں۔ بری باتیں نہیں نکلتیں۔

اس کا اہتمام کریں کہ ہم اپنی صحبت جتنی بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں ، کریں اور اس کے لیے اہل الله کی صحبت میں جائیں ،علماء کی صحبت میں جائیں۔

ان علما وصلحا کے پا س تھوڑی دیر بیٹھنا فائدے سے خالی ہے ہی نہیں۔ چاہے کوئی بات نہ کریں۔ خاموش بیٹھے رہیں۔ آپ وہاں دس منٹ، آدھا گھنٹہ، گھنٹہ بیٹھ کے آجائیں گے۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے اندر ایک تبدیلی آئی ہے۔ آپ کے اندر ایک فرق آیا ہے۔ آپ کے اندر ایک بہتری آئی ہے، الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم، وصلی الله تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ اجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․

Flag Counter