Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

2 - 17
ماہ رجب اور واقعہٴ معراج النبی ﷺ

مولانا محمد نجیب قاسمی،ریاض
	
اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں الله تبارک وتعالی نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے :﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾․(سورة التوبہ، آیت:36)

الله کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو الله کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن الله نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں… ان چار مہینوں کی تحدیث قرآن کریم میں نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب، معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان چار مہینوں کو اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ ان مہینوں کو حرمت والے مہینے اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام جو فتنہ وفساد، قتل وغارت گری او رامن وسکون کی خرابی کا باعث ہو، سے منع فرمایا گیا ہے، اگرچہ لڑائی جھگڑا سال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے، مگر ان چار مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے، حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔

رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم  الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے” اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان، وبلغنا رمضان“ اے الله! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہ رمضان تک ہمیں پہنچا۔ ( مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) لہٰذا ماہ رجب کے شروع ہونے پر ہم یہ دعایا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان سے دو ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرما دیتے تھے۔ ماہ رجب کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعائے برکت حاصل ہوئی، جس سے ماہِ رجب کا کسی حد تک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔

ماہ رجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یا کسی معین دن کے روزے رکھنے کی خاص فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا ہے۔ نماز وروزہ کے اعتبار سے یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے۔ البتہ رمضان کے پورے ماہ کے روزے رکھنا ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں او رماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔

ماہ رجب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ادا کیا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء ومؤرخین کی رائے مختلف ہیں۔ البتہ دیگر مہینوں کی طرح ماہ رجب میں بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسلاف سے بھی اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کے ثبوت ملتے ہیں۔ البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں موجود نہیں ہے۔

واقعہ معراج النبی ﷺ
اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق مؤرخین او راہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27/رجب کو51 سال5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی، جیسا کہ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب ”مہر نبوت“ میں تحریر فرمایا ہے۔

اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام( مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر ،جس کا تذکرہ سورہٴ بنی اسرائیل﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی﴾ میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں ۔ اور یہاں سے و ہ سفر آسمانوں کی طرف ہوا، اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے، جس کے معنی چڑھنے کے ہیں۔حدیث میں ” عرج بی“ یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے اس سفر کا نام معراج ہو گیا۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء او رمعراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس واقعہ کا ذکر سورہٴ نجم کی آیات میں بھی ہے:﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی،فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی ، فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی﴾ پھر وہ قریب آیا او رجھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح الله کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمائی تھی، وہ نازل فرمائی۔

سورہ النجم کی آیات18-13 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں:﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی، عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی، عِندَہَا جَنَّةُ الْمَأْوَی ، ِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی ، مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی ، لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی﴾ اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس ( فرشتے) کو ایک او رمرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس، جس کا نام سدرة المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔

احادیث متواترہ سے ثابت ہے، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعدا سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔

انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر
قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں ،بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزر کر اتنا بڑا سفر، الله تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کر دیا۔ الله تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، کیوں کہ وہ تو قادر مطلق ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہو جاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کو دعوت دے کر، اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے او رنہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔

واقعہٴ معراج کا مقصد
واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر او رعظیم بات قرآن کریم ( سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ( الله تعالیٰ) نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں… اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی الله علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر، حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے او رنہ ملے گا نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کااعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر، بلند واعلیٰ مقام پر، معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت ں کے ذریعہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تک نہیں پہنچا ،بلکہ الله تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذات خود اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز الله جل شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں الله تبارک وتعالی سے مناجات ہوتی ہے۔

واقعہٴ معراج کی مختصر تفصیل
اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا، جو حکمت او رایمان سے پُر تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اورایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا، جو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا، جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیائے کرام نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کر دیا گیا، جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے الله کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں، جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو سدرة المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں او راس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرة المنتہی کو الله کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، الله کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کر سکے۔ سدرة المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں( فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔

نماز کی فرضیت
اس وقت الله تبارک وتعالی نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانی تھی اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضو راکرم صلی االله علیہ وسلم چند مرتبہ الله تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے او رنماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں، یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں الله کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر الله تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی:﴿ لا یبدل القول لدی․﴾ کہ میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کر دیتا ہوں۔ غرض کہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔

نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام
اس موقعہ پر حضور اکرم صلی الله علیہ سلم کو الله تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ ،یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اپنی امت کی فکر اور الله کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔

سورة البقرہ کی آخری دو آیات ﴿ آمن الرسولُ﴾ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔

اس قانون کا اعلان کیا گیاکہ حضور صلی الله علیہ و سلم کے امتیوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے، بلکہ توبہ سے معاف ہو جائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر او رمشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

معراج میں دیدار الھی
زمانہٴ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں؟ او راگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی؟ البتہ ہمارے لیے اتنا مان لینا ان شاء الله کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔

قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا
رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام کی امامت کرنا، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیائے کرام سے ملاقات او رپھر الله جل شانہکے دربار میں حاضری، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا، جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔ جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے او رجھٹلانے لگے او رحضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کیے گئے تو الله تبارک نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے روشن فرما دیا، اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم جواب دیتے جارہے تھے۔

سفر معراج کے بعض مشاہدات
اس اہم وعظیم سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہ گاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے بعض گناہ گاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کر رہا ہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔

کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخون تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اورسینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں ( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) او ران کے بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد)

سود خوروں کی بدحالی
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے ( انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ،ان میں سانپ تھے ،جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ ( مشکوٰة المصابیح)

کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے
آپ صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے، جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، شیخ مفتی عاشق الہٰی)

زکوٰة نہ دینے والوں کی بدحالی
آپ صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرم گاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں او راونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں او رکانٹے دار وخبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰة ادا نہیں کرتے ہیں۔( انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، شیخ مفتی عاشق الہٰی)

سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ
آپ صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں او رپکا ہوا گوشت نہیں کھا رہے ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے، مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بد کار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السرج فی ذکر الاسراء والمعراج، شیخ مفتی عاشق الہٰی)

سدرة المنتہی کیا ہے؟
احادیث میں سدرة المنتہی اور السدرة المنتہی دونوں طرح استعمال ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں سدرة المنتہی استعمال ہوا ہے ۔ سدرة کے معنی بیر کے ہیں او رمنتہی کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہو جاتے ہیں اور جو بندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں، پھر وہاں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہرجاتے ہیں پھر اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔

واقعہٴ معراج النبی صلی الله علیہ وسلم سے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لیے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم اُن گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر امت کو بیان فرمایا۔

الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور دونوں جہاں کی کام یابی وکام رانی عطا فرمائے۔ آمین!

Flag Counter