Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

15 - 17
امام ابوحنیفہ اہل حدیث علماء کی نظر میں

مفتی امانت علی قاسمی، حیدر آباد، دکن
	
مولانا سید نذیر حسین دہلوی(1220ھ/1805ء=1320ھ/1902ء)
مولانا سید نذیر حسین دہلوی اہل حدیث کے سرخیل اور شیخ الکل فی الکل ہیں ،آپ اپنی علمی ودینی خدمات کے بنا پر علمائے ہند میں خاص مقام رکھتے ہیں، حضرت شاہ اسحاق دہلوی کے شاگرد ہیں، ملک وبیرون ملک ان کے شاگردوں کی بہت بڑی تعداد ہے، اہل حدیث کی یہاں مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں، مولانا سید نذیر حسین صاحب امام صاحب کا تذکرہ بڑے عقیدت واحترام سے کیا کرتے تھے اور ان کی شان میں گستاخی کرنے سے بہت نالاں رہا کرتے تھے او رامام صاحب کی شان میں بے ادبی کرنے والوں کو چھوٹا رافضی قرار دیتے، مولانا ابراہیم سیالکوٹی تاریخ اہل حدیث میں مولانا سید نذیر حسین صاحب کا امام صاحب کے ساتھ عقیدت واحترام کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مولانا ثناء الله امرتسری نے مجھے بیان کیا کہ جس ایام میں میں کان پور میں مولانا احمد حسن صاحب کان پوری سے علم منطق تحصیل کرتا تھا، اختلاف مذاق ومشرب کے سبب احناف سے میری گفتگو رہتی تھی ،ان لوگوں نے مجھ پریہ الزام تھوپا کہ تم اہل حدیث لوگ ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرتے ہو!! میں نے اس کے متعلق حضرت میاں صاحب مرحوم یعنی شیخ الکل حضرت سید نذیر حسین صاحب سے دریافت کیا تو آپ نے جواب میں کہا ہم ایسے شخص کو جو ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں اور علاوہ بریں میاں صاحب مرحوم معیار الحق میں حضرت امام صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:”إمامنا وسیدنا أبو حنیفة النعمان أفاض الله شآبیب العفو والغفران“ نیز فرماتے ہیں کہ مجتہد ہونا اور متبع سنت اور متقی اور پرہیز گار ہونا کافی ہے ان کے فضائل میں اور آیت کریمہ﴿إن أکرمکم عندالله أتقکم﴾ زینت بخش مراتب ان کے لیے ہیں ۔ (تاریخ اہل حدیث،ص:97)

مولانا عبدالمنان وزیرآبادی (م1330ھ)
مولانا عبدالمنان کا شمار اہل حدیث کے بڑے لوگوں میں ہوتا ہے، آپ کو علم حدیث سے حد درجہ شغف تھا، مولانا ابراہیم سیالکوٹی نے لکھا ہے کہ علم حدیث کی اشاعت میں کوئی محاکمہ باقی نہیں چھوڑا، آپ بلا تردد تقریباً سارے پنجاب کے استاد ہیں، علم حدیث سے اسی شغف کی بنا پر آپ ائمہ دین، خصوصاً امام صاحب کا بڑا احترام کیا کرتے تھے اور امام صاحب کا تذکرہ بڑے عقیدت سے کیا کرتے تھے، تاریخ اہل حدیث میں ہے:

” آپ ائمہ دین کا بہت ادب کرتے تھے، چناں چہ آپ فرمایا کرتے تھے جو شخص ائمہ دین خصوصاً امام ابوحنیفہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا“۔ ( تاریخ اہل حدیث مصنفہ ابراہیم سیالکوٹی، ص:486)

مولانا اسماعیل سلفی
سابق امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان مولانا اسماعیل سلفی اپنے گہرے علم، باریک بینی اور توازن طبع کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں، انہوں نے بھی امام صاحب کا تذکرہ بڑے احترام سے کیا ہے اور آپ کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے، وہ اپنی کتاب فتاوی سلفیہ میں لکھتے ہیں:

جس قدریہ زمین (کوفہ) سنگلاخ تھی اسی قدر وہاں اعتقادی وعلمی اصلاح کے لیے ایک آئینی شخصیت حضرت امام ابوحنیفہ کی تھی، جن کی فقہی موشگافیوں نے اعتزال وتجمم کے ساتھ رفض وتشیع کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا، ” اللھم ارحمہ واجعل الجنة الفردوس ماواہ․“(فتاویٰ سلفیہ:143)

مولانا داؤد غزنوی
حلقہ اہل حدیث میں ایک محترم نام مولانا داؤد غزنوی کا ہے، جو اہل حدیث کے مقتدر علماء میں شمار ہوتے ہیں او راپنی متوازن طبیعت کی بنا پر علمائے اہل حدیث میں کافی مقبول ہیں، مولانا غزنوی کا طرز عمل امام صاحب کے تعلق سے کافی عقیدت مندانہ ہے اور جو لوگ امام صاحب کی شان میں بے ادبی کرتے تھے مولانا غزنوی ان سے بہت نالاں رہتے تھے اور اس کا اظہار افسوس کے ساتھ کیا کرتے تھے، مشہور مؤرخ اسحاق بھٹی مولانا داؤد غزنوی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:

ایک دن میں ان کی خدمات میں حاضر تھا کہ جماعت اہل حدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے دردناک لہجے میں فرمایا مولوی اسحاق! جماعت اہل حدیث کو حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کی روحانی بد دعا لے کر بیٹھ گئی، ہر شخص ابوحنیفہ کہہ رہا ہے، کوئی بہت عزت کرتا ہے تو امام ابوحنیفہ کہہ دیتا ہے ،پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے یا زیادہ سے زیادہ گیارہ۔ اگر کوئی بڑا احسان کرے تو وہ سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جو لوگ اتنے بڑے جلیل القدر امام کے بارے میں یہ نقطہ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد ویکجہتی کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے؟” یا غربة العلم، إنما أشکو بثي وحزني إلی الله“․(حدیث اہل حدیث، ص:27)

شیخ البانی
اہل حدیث میں ایک معروف نام شیخ البانی کا ہے، اہل حدیث کے یہاں ان کو بڑی مرجعیت او رمقبولیت حاصل ہے، ماضی قریب میں عرب کے بڑے اور محقق عالموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، انہوں نے اگرچہ امام صاحب کے علم حدیث میں مقام ومرتبہ پر کلام کیا ہے اور یہ وہ گفتگو ہے جس پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے ، غالبا شیخ البانی نے اپنے موقف کی عبارت کو تلاش کرکے اپنے زعم کی عمارت قائم کر دی ہے، اگر منصفانہ انداز میں وہ امام صاحب کی حدیث میں خدمات کا جائزہ لیتے تو شاید ان کا وہ نظریہ نہ ہوتا اس کے باوجود شیخ البانی نے امام صاحب کی دوسری تمام صلاحیتوں او ران کی خدمات کا بڑی وسیع ظرفی سے اعتراف کیا ہے، چناں چہ وہ اپنی کتاب السلسلة الضعیفة میں لکھتے ہیں:” وحسب ما أعطاہ الله من العلم والفھم الدقیق حتی قال الإمام الشافعي: الناس عیال في الفقہ علی أبي حنیفة، ولذلک ختم الإمام الذھبی ترجمة الإمام فی سیر النبلاء(:288/5) بقولہ: وبہ نختم قلت الإمامة في الفقہ ودقائقہ مسلمة إلی ھذا الإمام وھذا أمر لا شک فیہ“ #
        ولیس یصح فی الأذھان شیء
        إذا احتاج النھار إلی دلیل
(سلسلة الأحادیث الضعیفہ:661)

امام صاحب کے فضائل ومناقب کے لیے یہی کافی ہے کہ الله تعالیٰ نے آپ کو علم وفہم کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا، یہاں تک کہ امام شافعی نے کہا کہ لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے خوشہ چیں ہیں اور امام صاحب کی اسی عبقریت کی بنا پر امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں زبردست خراج عقیدت کے ساتھ اپنے کلام کو ختم کیا او راس پر میں بھی اپنی بات مکمل کرتا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں میں امام صاحب کی امامت مسلم تھی، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

شیخ عبدالله بن باز
ماضی قریب میں عرب کے مشہور اور متبحر لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، حدیث اور فقہ میں جو ان کا مقام ہے اور علمائے اہل حدیث کے نزدیک جوان کی اہمیت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، شیخ ابن باز عقیدہ سلف کے حامل تھے او رائمہ اربعہ کا ان کے یہاں بہت زیادہ احترام پایا جاتا ہے ، امام احمد کی کتاب میں امام صاحب کی طرف خلق قرآن کو منسوب کیا گیا ہے، اس سلسلے میں شیخ ابن باز سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے امام صاحب کی طرف سے مکمل دفاع کیا، حتی کہ اس حصے کو اس کتاب سے نکال کر ا سے حکومت کی طرف سے شائع کرایا گیا؛ لیکن بعد میں کسی مطبع نے اس حصے کے ساتھ بھی اسے شائع کر دیا، جس پر شیخ ابن باز نے بڑے درد مندانہ لہجے میں اپنے تأسف کا اظہار کیا، چناں چہ لکھتے ہیں:” زاد الأمر حتی صار ھناک تآلیف تطعن فی أبي حنیفة، وصار یقال”أبوحنیفة“، ونحو ذلک ھذا لا شک لیس من منھجنا، ولیس من طریقة علماء الدعوة، ولا علماء السلف، لأننا لانذکر العلماء إلا بالجمیل إذا اخطؤوا فلانتابعھم في أخطائھم، خاصة الأئمة ھؤلاء الأربعة، لأن لھم شأنا ومقاما لا ینکر“(منقول من شبکة سحاب السلفیة)

بات یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ کی طعن پر متعدد کتابیں تصنیف کی گئیں اور کہا جانے لگا”ابوحنیفہ“ اوراس طرح کے الفاظ، حالاں کہ یقینی طور پر ہمارے منہج او رہمارے علماء سلف کا یہ طریقہ نہیں ہے، اس لیے کہ ہم علماء کا تذکرہ صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں، اگر ان لوگوں سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ہم ان کی پیروی نہیں کرتے ہیں، خاص طور پر ہم ائمہ اربعہ کا تذکرہ ہمیشہ بھلائی اور اچھائی کے ساتھ کرتے ہیں، اس لیے کہ ان لوگوں کا وہ مقام ومرتبہ ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

نواب صدیق حسن خان صاحب
اہل حدیث کے مقتدا اور پیشواؤں میں آپ کا شمار ہوتا ہے، حدیث اور دیگر علوم وفنون میں گہری واقفیت تھی، اردو، عربی اور فارسی تینوں میں ان کی تصانیف ہیں، امام صاحب کے متعلق ان کی شہادتیں انتہائی اہم ہیں، انہوں نے اپنی مختلف تصانیف میں امام صاحب کا ذکر خیر کیا ہے، الحطة في ذکر الصحاح الستة میں انہوں نے طبقہ ثالثہ کے ائمہ کبار میں امام جعفر صادق، امام مالک، امام اوزاعی، امام ثوری، ابن جریج اور امام شافعی کا تذکرہ کیا ہے، اس میں امام جعفر صادق کے بعد امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔

اپنی ایک فارسی تصنیف میں نواب صاحب نے امام صاحب کو علم دین میں منصب امامت پر فائز ہونے کے ساتھ زہد وعبادت میں ائمہ سلوک کا امام بھی تسلیم کیا ہے، چناں چہ لکھتے ہیں: امام اعظم ابوحنیفہ کوفی ولے چنانکہ در علم دین منصب امامت داروہمچناں درزہد وعبادت امام سالکان است ۔ ( مقام ابوحنیفہ:81)

مولانا عبدالرحمن مبارکپوری
علم حدیث میں آپ کی شخصیت کااندازہ آپ کی تصنیف تحفةالاحوذی سے لگایا جاسکتا ہے جو ترمذی شریف کی انتہائی جامع او رمفید شرح ہے اور شرح احادیث میں بہت کام یاب بھی ہے، اگرچہ اہل حدیث ہونے کی وجہ سے دلائل میں بعض جگہوں پر احناف کا بے جاتعاقب بھی کیا ہے، لیکن امام صاحب کے مقام بلند کے معترف تھے اور حدیث میں امام صاحب کی خدمات کو سراہتے تھے، چناں چہ تحفة الاخوذی میں لکھتے ہیں: حدیث کی قیود وشرائط کے بارے میں جتنی شدید پابندی اور احتیاط امام ابوحنیفہ نے کی ہے اور کسی نے اس کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ (تحفة الاحوذی2/15)

خلاصہ
اہل حدیث کے چنندہ ، منتخب اور سرخیل سرکردہ حضرات کی یہ شہادتیں ہیں جس میں امام صاحب کی خدمات کا اعتراف، احترام ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، یہ حضرات نہ صرف خود امام صاحب کا احترام کیا کرتے تھے ؛ بلکہ انہوں نے ادب واحترام کی تلقین بھی کی ہے اور بے ادبی او رگستاخی کی صورت میں دنیا وآخرت کی ناکامی وخسران کا بھی احساس دلایا ہے، ہمیں امید ہے کہ علمائے اہل حدیث کی تحریر تمام اہل حدیث بھائیوں کی زندگی میں ہلچل پیدا کرے گی اور وہ اپنے غلط طرز عمل سے ان شاء الله باز آئیں گے، میں اپنی تحریر کو اسی شعر پر ختم کر رہاہوں جس پر مولانا ابراہیم سیالکوٹی نے اپنی بات ختم کی ہے #
        از خدا خواہم توفیق ادب
        بے ادب محروم گشت از فضل رب

Flag Counter