Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

11 - 17
ریل گاڑی، بس، کشتی اور ہوائی جہاز میں وضو اور نماز

مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

کشتی اور بحری جہاز میں نماز کا حکم
کشتی اور بحری جہاز کا تلا (نیچے والا حصہ)زمین پر ٹکا ہوا ہو، تو اس میں نماز صحیح ہے اور زمین پر مستقرنہیں تو بعض نے امکان خروج کے باوجود نماز کی صحت کا قول کیا ہے، مگر راجح یہ ہے کہ اس صورت میں کشتی اور جہاز کے اندر نماز صحیح نہیں، باہر نکل کر پڑھے، بلکہ چلتی کشتی کو بھی کنارے لگا کر نکلنا ممکن ہو تو قول راجح کی بنا پر اس میں بھی نماز درست نہیں، اگر ملاح کشتی کنارے لگانے پر راضی نہ ہو یا بندرگاہ پر جہاز کا عملہ باہر نکلنے کی اجازت نہ دے تو اندر ہی نماز پڑھ لے، مگر بعد میں اس کا اعادہ واجب ہے: فقط واللہ تعالیٰ أعلم․ (احسن الفتاوی، کتاب الصلوٰة، باب صلوٰة المسافر، کشتی اور بحری جہاز میں نماز: 4/89)

چلتی ہوئی کشتی میں اگر کھڑے ہو کر نماز کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تب تو بالاتفاق بیٹھ کر نماز ادا کی جائے گی اور اگر قدرت کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں کراہت کے ساتھ جائز ہے اور کشتی ساحل سے بندھی ہو، نیزوہ ہوا کے دباوٴوغیرہ کی وجہ سے حرکت میں نہ ہو تو بھی بلا عذر بیٹھ کر نمازر درست نہیں، اس پر سبھوں کا اتفاق ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہو کہ سر میں چکر آتا ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کی جاسکتی ہے، اگر کشتی سے نکل کر نماز کی ادائیگی ممکن ہو تو مستحب ہے کہ ساحل پر اتر کر نماز پڑھے، جو شخص رکوع اور سجدے پر قادر ہو اس کے لیے کشتی میں اشارہ سے نماز ادا کرنا درست نہیں۔

کشتی میں نماز کے دوران بھی سمتِ قبلہ کا استقبال ضروری ہے، نماز کی ابتدا اسی طرح کرے، پھر جوں جوں کشتی گھومتی جائے، اپنا رُخ قبلہ کی طرف بدلتا جائے، کشتی میں اقامت کی نیت معتبر نہیں ، بلکہ جب تک خشکی پر نہ آ جائے، مسافر ہے، ان تمام احکام میں جو حکم کشتی کا ہے، وہی بحری جہازوں کا ہے۔ (منقول از قاموس الفقہ: 2/290)

بحری جنگی مشقوں میں حکم قصر
سوال: پاک بحریہ کے جہاز جب جنگی مشقوں کے لیے سمندر میں گشت کرتے ہیں تو ان کا عملہ نماز پوری پڑھے یا کہ قصر کرے؟ ایک عالِمِ دین نے خود جہاز پر جا کر موقع دیکھ کر اور حالات سن کر قصر پڑھنے کا فتوی دیا، مگر دار الافتا مدرسہ عربیہ نیو ٹاوٴن سے استفتا کیا گیا تو انہوں نے پوری نماز پڑھنے کا فتوی لکھا، یہ فتوی ارسال خدمت ہے، ملاحظہ فرما کر تحریر فرما دیں کہ کون سا فتویٰ صحیح ہے؟ بینوا توجروا

سوال: پاک بحریہ (پاکستان نیوی) کے جہاز جب سمندر میں مختلف جنگی مشقوں کے لیے جاتے ہیں تو آیا ان میں نماز قصر پڑھنی ہو گی یا پوری؟ جب کہ ان جہازوں کے تفصیلی حالات حسب ذیل ہیں:
1..کھانے پینے رہائش اور دیگر تمام ضروریات زندگی جو ویسے گھر میں مقیم ایک آدمی کے لیے ہوتی ہیں، سب مہیا ہیں، جہاز اکثردو دنوں سے لے کر ہفتہ عشرہ تک مسلسل سمندر میں چلتے رہتے ہیں، بعض اوقات کراچی سے صرف تیس چالیس میل پر ہوتے ہیں، لیکن کل حساب سے وہ سینکڑوں میل ایک ہی دن میں طے کر جاتے ہیں، مثلا: کبھی ان مشقوں کے دوران مشرق کو، کبھی مغرب وشمال وجنوب کو20 سے 25 یا 30 میل قطر کے دائرہ کے اندر گھومتے رہتے ہیں، تو کیا یہاں کل سفر کا حساب ہو گایا کراچی سے فاصلہ کا؟
2..ایک بار مثلاً: انہوں نے شرعی تین منزل (48 میل) کراچی سے فاصلہ طے کر لیا، پھر دو یا تین دن اس سے کم فاصلہ پر رہے اور مختلف اَطراف کو چلتے رہے، تو یہاں قصر ہو گی یا نہیں؟
3..جہاز صرف چند گھنٹوں کے لیے سمندر میں گیا، کراچی بندرگاہ سے پورے اڑتالیس یا پچاس میل سیدھا ایک طرف گیا اور پھر سیدھا واپس بندر گاہ آگیا، تو کیا حکم ہے؟
4..جہاز چند گھنٹوں کے لیے کراچی سے روانہ ہوا، پھر سیدھا ایک طرف نہیں، بلکہ مختلف اَطراف کو مڑتا ہوا اس نے پچاس سے زائد میل سفر کیا اور اسی طرح واپس ہوتے ہوئے پچاس میل سے زائد سفر ہوا، لیکن اس دوران کبھی بھی اور کسی جگہ پر بھی کراچی سے48 میل پر نہ تھا، تو کیا حکم ہے؟
5..بندرگاہ سے جہاز بیس، پچیس میل کے فاصلہ پر جا کر پھر واپس آ گیا، تو آیا بعد میں سب نمازیں واپسی بندرگاہ تک پوری ہوں گی یا قصر؟
6..کراچی سے جہاز چلا، پچاس سے زیادہ میل فاصلہ تک جانے کا ارادہ تھا، پھر راستہ میں خراب ہو گیا، یا کسی مصلحت کی بنا پر واپس آ گیا، تو نماز پوری ہو گی یا قصر؟
7..بعض اوقات جنگی مشقوں کی مصلحتوں کی بنا پر کسی کو بھی نہیں بتایا جاتا، سوائے چند خصوصی افراد کے ، جو اس کام (یعنی: سمتوں اور فاصلوں کا معلوم کرنا) پر مامور ہوتے ہیں کہ جہاز بندرگاہ سے اتنے فاصلے پر ہے، تو کیا معلوم کرنا فرض ہے؟ جب کہ ان افراد کو جن کو معلوم ہو، سختی سے منع کر دیا ہو کہ کسی کو نہ بتائیں، تو کیا وہاں اپنے اندازہ پر قصر یا پوری نماز پڑھیں گے؟

علاوہ ازیں بحری سفر کے بارے میں شرعی احکام سے متعلق آگاہ فرمادیں کہ کتنے میل کی مسافت پر قصر کاحکم ہے؟ بینوا توجروا

جواب از مدرسہ نیو ٹاوٴن
1..دورانِ مشق اگر جہاز 48 میل سے کم فاصلہ کے قطر میں مشرق ومغرب، جنوب وشمال چکر لگاتے ہیں تو نماز پوری پڑھی جائے، اگرچہ کُل سفر کے حساب سے سینکڑوں میل طے کر جائیں، جب تک ساحل کراچی سے 48 میل فاصلہ نہ ہو جائے، قصر نہ کیا جائے۔
2..جب ایک بار ساحل کراچی سے 48 میل سفر کیا اور سفر شروع کرتے وقت 48 میل یااس سے زیادہ کا ارادہ بھی تھا، تو اس صورت میں روانگی کے بعد واپسی تک قصر کیا جائے۔
3..قصر کیا جائے۔
4..نماز پوری پڑھی جائے۔
5..اگر سفر شروع کرتے وقت 48 میل یا س سے زیادہ کا ارادہ تھا تو شروع سے قصر کیا جائے، اگر شروع سے 48 میل کا ارادہ نہیں تھا تو48 میل ہو جانے کے بعد بندرگاہ واپسی تک قصر کیا جائے۔
6..جس وقت ارادہ تبدیل ہوا، اس وقت سے نماز پوری پڑھی جائے، اس سے قبل قصر کیا جائے۔
7..ظاہر ہے کہ جہاز کے عام ملازمین کمانڈر کے تابع ہیں اور اس سلسلہ میں متبوع، یعنی: کمانڈر کی نیت کا اعتبار ہو گا اور جب نیت معلوم نہ ہو سکے ، جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے کہ نیت اور ارادہ معلوم کرنا مشکل کام ہے، تو اگر آفیسران نمازی ہیں، تو ان کو دیکھ لیا جائے کہ کس طرح نمازپڑھتے ہیں؟ قصر کے ساتھ یا پوری نماز پڑھتے ہیں، ورنہ تابع، یعنی: جہاز کے باقی حضرات اپنی حالت کا اعتبار کریں، 48 میل کے بعد قصر کریں اور اس سے پہلے اتمام یعنی: پوری نماز پڑھیں، فقط واللہ تعالی اعلم

الجواب باسم ملہم الصواب:
جس عالم نے وجوب قصر کا فتویٰ دیا ہے، ان کو غالباً اس مسئلہ سے اشتباہ ہوا ہے کہ جب کسی مقام تک پہنچنے کے دو راستے ہوں، قریب کے راستے سے مسافت قصر نہ ہو اور بعید راستہ سے مسافت قصر ہو، تو براہِ بعید سفر کرنے والے پر قصر واجب ہے، مگر صورتِ سوال کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے مسئلہ مذکورہ اس صورت میں ہے کہ منزلِ مقصود تک پہنچنے کے راستے متعین ہوں، جیسا کہ بالعموم برّی سفرمیں ہوتا ہے، مسافر کا اصل مقصد ایک مخصوص مقام ہوتا ہے اور اس کا دائیں بائیں مڑنا انحرافِ طریق کی وجہ سے ہوتا ہے، پس انحرافِ طریق کی وجہ سے اگر مسافتِ سفر متحقق ہو جائے تو قصر واجب ہے، اگرچہ خطِ مستقیم یا طریقِ قریب مسافت سے کم ہو، اگر قید ِ طریق سے قطع نظر مطلقاً یمین ویسار ِ انحراف کی مسافت کا اعتبار کیا جائے تو اس پر لازم آئے گا کہ اگر کوئی شخص اپنے شہر سے باہر نکل کر شہر سے متصل ہی چکر کاٹتا رہے، یا ہل جوت لے، یا کچھ لوگ شہر سے باہر نکل کر کبڈی کھیلنا شروع کر دیں اور مجموعہ مسافت مسافتِ سفر کے برابر ہو جائے تو ان پر قصر واجب ہو جائے اور یہ بدیہی البطلان ہے، والقول المستلزم للباطل باطل، غرضیکہ صورتِ مسئولہ میں وجوب کا قول صحیح نہیں، مدرسہ نیو ٹاوٴن کا جواب صحیح ہے، مگر اس میں بھی سوال اول کے جواب میں چند اشتباہ واقع ہوئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
1..اس میں برّی اور بحری میل کا فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا، برّی میل : 1760/گز اور بحری میل: 67․2026/گز ہوتا ہے۔
2..مسافت ِ سفربصورت ِ قطر کی قید صحیح نہیں، بلکہ ساحل سے بُعد کا اعتبار ہے، خواہ بصورتِ قطر ہو یا نہ ہو۔
3..بحری سفر کو بھی برّی پر قیاس کر کے اڑتالیس میل کو مسافت قصر قرار دینا صحیح نہیں، مذہب میں اصل اعتبار میلوں کی بجائے تین روز کی مسافت کا ہے، برّی سفر میں اس کا تخمینہ 48 میل شرعی سے کیا گیا ہے، مگر یہ فیصلہ بحری سفر پر جاری نہیں ہو سکتا، بحری جہاز کے کپتان سے تحقیق ہوئی کہ عام معمولی کشتی معتدل ہوا میں پانچ چھ میل بحری فی گھنٹہ طے کرتی ہے، ماہرینِ فن ملاحوں اور پاک بحریہ کے افسروں سے بھی اس کی تصدیق ہوئی، مجموعہ پانچ شہادتوں سے ثابت ہوا کہ معتدل ہوا میں کشتی کی اوسط رفتار ساڑھے پانچ میل بحری فی گھنٹہ ہے، لہٰذا بحری سفر میں مسافتِ قصر کا حساب یوں ہو گا، تین دن برابر ہے بہتر گھنٹے ضرب ساڑھے پانچ، یہ بن گئے تین سو چھیانوے بحری میل۔

کشتی چوں کہ رات دن مسلسل چلتی ہے، اس لیے بحری سفر کی صورت میں تین دن رات مسلسل چلنے کی مسافت کو مسافتِ قصر قرار دیا جائے گا، اس سے کم مسافت کے قصد پر قصر کرنا جائز نہیں۔

(فائدہ) میل انگریزی: 1760/گز، میل شرعی: 2000/گز، میل بحری: 67․2026/گز، برّی سفر میں 48 میل انگریزی مسافتِ سفر نہیں، بلکہ 48 میل شرعی ہیں، بلکہ مفتی بہ قول کے مطابق 54 /میلِ شرعی ، یا 61 /میل انگریزی مسافتِ سفر ہے، تفصیل بندہ کے رسالہ ”القول الأظھر في مسئلة السفر“ میں ہے، فقط واللہ تعالیٰ اعلم(احسن الفتاوی، کتاب الصلوٰة، باب صلوٰة المسافر، بحری جنگی مشقوں میں حکمِ قصر:7/86-83)

بس میں نماز پڑھنے کا حکم
چوں کہ عام طور پر بس میں قیام کرنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے بس میں نماز ادا کرنا صحیح نہیں ہے، البتہ ! اگر چلتی ہوئی بس کا رُخ قبلہ کی طرف ہو اور بس میں دونوں طرف والی سیٹوں کے درمیان کھڑے ہو کر نماز ادا کی جائے تو درست ہے، نماز ہو جائے گی۔

موٹر (کار، بس وغیرہ)میں وضو سے نماز ممکن نہ ہو تو جیسے ہو اشارہ سے پڑھ لے ، بعد میں اعادہ کرے
”سواری کے چلتے ہوئے اگر نماز کا وقت ہو جائے اور ڈرائیور موٹر نہ روکے اور نما ز کا وقت ختم ہونے کے قریب ہوتو نماز قضا کر دے اور بعد اترنے کے قضا پڑھے، موٹر میں بیٹھ کر نہ پڑھے، نماز نہ ہو گی، یہ عذر نہیں چلتا“۔ یہ (بات) ”زید “نامی کہتا ہے اور دلیل اس پر یہ ”ایک شخص موٹر سے اس وقت اترتا ہے کہ سورج ڈوبنے کو ہوتا ہے اور اس نے نماز پڑھنی ہوتی ہے اور پانی قریب بھی ہوتا ہے اور اسے معلوم بھی ہوتا ہے، تو اگر پانی کی طرف جاتا ہے تو نماز قضا ہوتی ہے، تو کیااب پانی کے قریب ہونے کی وجہ سے تیمم نہ کرے، نماز قضا کرے، پانی تک پہنچ کر وضو کر کے نماز قضا کرے، اب یہی نماز ِ موٹر کا مسئلہ ہے، مثلا: ایک عورت ہے، نماز اس نے پڑھنی ہے، ڈرائیور موٹر نہیں روکتا، اب وہ عورت مردوں میں کس طرح نماز پڑھے، قیام بھی نماز میں فرض ہے، موٹر میں قیام نہیں ہو سکتا“۔تو زید کی اس دلیل کا کیا جواب ہے؟

الجواب:… بحر میں ہے: کمایفھم من فتاوی قاضي خان والخلاصة: الأسیر في یدي العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … إلی قولہ…کالمحبوس، لأن الطہارة لم تظہر في منع وجوب الإعادة، ثم قال: فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللہ تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة․ البحر الرائق: 1/149

روایت بالا سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں نماز کو قضا نہ کرنا چاہیے، البتہ ایسی صورت میں نماز اشارہ کے ساتھ ادا کر لینی چاہیے، دوبارہ بوقت فرصت اعادہ واجب ہو گا، کیوں کہ اشارہ کیا تھا، ادا کردہ نماز پر اکتفا صحیح نہیں؛ اور یہی حکم ہے جب کہ مذکورہ وجہ کی بنا پر گاڑی یا موٹر میں نماز ادا کی گئی ہو، پس سائل کے کلام سے یہ جو مترشح ہوتا ہے کہ موٹر میں اشارہ سے یا بیٹھ کر نماز نہ پڑھے ، بعد میں قضا ضروری ہے (یہ غلط ہے) بلکہ بعد از اترنے موٹر کے اس نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم
(خیر الفتاوی، کتاب الصلاة، موٹر (کار، بس وغیرہ)میں وضو سے نماز ممکن نہ ہوتو جیسے ہو اشارہ سے پڑھ لے ، بعد میں اعادہ کرے: 2/285)

بَس کی دیوار وغیرہ پر تیمم کرنے کا حکم
سوال: …ایک شخص بَس میں سفر کر رہا ہے اور نماز کا وقت ہو گیا، بَس میں وضو کا انتظام نہیں ہے اور نہ ہی بَس رکتی ہے، تو یہ شخص بَس کی دیوار پر تیمم کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب:… بَس کی دیوار وغیرہ پر اگر گردوغبار ہے تو تیمم کر سکتا ہے، ورنہ نہیں کر سکتا۔ ہدایہ میں ہے: ویجوز التیمم عند أبي حنیفة ومحمد بکل ما کان من جنس الأرض من التراب والرمل والحجر والجص ……، وکذا یجوز بالغبار․ (ھدایہ، باب التیمم: 1/51)

جدید فقہی مسائل میں ہے:
ٹرین، بَس وغیرہ کی دیواریں عموماً لوہے یا لکڑی یا پلاسٹک کی ہوتی ہیں، ان پر تیمم کرنا درست نہیں ہے، البتہ عموماً سفر کے دوران ان پر گرد وغبار جم جاتا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں گردوغبار پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔ (جدید فقہی مسائل: 1/98) ۔ واللہ اعلم (فتاوی دارالعلوم زکریا، کتا ب الطہارة، بَس کی دیوار وغیرہ پر تیمم کرنے کا حکم: 1/522)

فرض نماز سواری پر پڑھنے کا حکم
فرض نماز کی صحت کے جو شرائط ہیں اگر سواری کی حالت میں بھی ان شرائط کا پورا کیا جانا ممکن ہو تو سواری پر فرض نماز کی ادائیگی درست ہو گی اور اگر تمام شرائط کے ساتھ فرائض کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو اس فریضے کی ادائیگی سواری پر درست نہیں ہو گی۔

نفل نماز سواری پر پڑھنے کا حکم
شہر کے اندر مقیم شخص کے لیے جانور پر سوار ہو کر نفل نماز ادا کرنا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک شہر میں بھی بلا کراہت جائز ہے اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے۔

شہر سے باہر نکلنے کے بعدمسافر (شرعی )کے لیے تما م فقہائے کرام کے نزدیک اور غیر مسافر کے لیے اکثر فقہائے کرام کے نزدیک (یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اپنے کھیتوں وغیرہ کی طرف یا شہر کے گردو نواح میں گیا ہوا ہو، اس کے لیے بھی )سواری پر سوار ہوکرنفل پڑھنا جائز ہے، شہرسے باہرنکلنے کی حد سے مراد وہ جگہ ہے جہاں سے مسافر کے لیے قصر کرنا جائز ہوتا ہے، اسی جگہ سے سواری پر نفل پڑھنا جائز ہو جاتا ہے۔

سنت موٴکدہ اور غیر موٴکدہ سب نفل کے حکم میں ہیں، سوائے سنتِ فجرکے کہ یہ امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک سواری پر بیٹھ کرادا کرنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ ان (سنتِ فجر)کی تاکید بہت زیادہ آئی ہے۔

یہی حکم ہر قسم کی سواری کا ہے، چاہے وہ قدیم زمانے کی ہو(جیسے: اونٹ، گھوڑا، خچر اور گدھا وغیرہ)، چاہے موجودہ زمانہ کی(جیسے: جہاز، ریل گاڑی، بس، کار وغیرہ)۔ (الموسوعة الفقھیة الکویتیة، مادة: الصلاة، الصلاة علی الراحلة: 27/229)

Flag Counter