Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 17
اگر یہ مدارس نہ رہے تو!

مولانا عارف محمود
	
ایک مسلمان کے لیے یہ بات باعث افتخار ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صورت میں ایک مکمل اور زندہ جاوید دستور حیات مرحمت فرمایا ہے ،مسلمانوں کا چودہ صدیوں پر محیط ایک شان دار اور درخشاں ماضی ہے ،ان کے پاس ایک عظیم الشان تہذیب و ثقافت ہے ،قرآن و سنت کی شکل میں ان کے پاس خدائی راہ نمائی موجود ہے ، قران اول سے لے کر عصر حاضر تک علمائے اسلام کی جہد مسلسل کے نتیجے میں فقہ اسلامی کی عظیم علمی میراث اور بے مثال دستور حیات کا ذخیرہ انہیں میسر ہے ،یہ مسلمان ہی تھے اور ہیں کہ جنہوں نے دنیا کو خدائی ہدایت اور راہ نمائی سے روشناس کروایا ،انہیں شرک،کفر اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ایمان و ایقان اور علم کی روشنیوں سے مالا مال کیا ،دنیائے انسانیت کو دستور حیات دیا ،تہذیب دی ،امن دیا ،مظلوموں اور ناداروں سمیت تمام طبقات انسانی کو حقوق دیے ،غرض انسانیت کو جینے کا سلیقہ اور قرینہ عطا کیا۔

مسلمانوں کے عروج سے انسانی دنیا اور ان کی زندگیوں پر جو مثبت اور زوال سے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تاریخ انسانی سے واقف ایک ادنی طالب علم بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا ،لیکن انسانوں میں ہمیشہ سے ایک ایسا استعماری طبقہ چلا آرہا ہے جو اپنے سینو ں میں موجود کینہ ،بغض اور حسد کی بنا پر انسانیت کو آسمانی ہدایت وراہ نمائی سے محروم کر کے ان کا استحصال کرنا چاہتا ہے، اسی غرض سے اس استعماری طبقہ نے ہردور میں خدائی ہدایت وراہ نمائی کے علم بردار مسلمانوں سے مختلف میدانوں میں جنگیں لڑیں ،مسلمانوں کی اجتماعیت جب تک وحی الہٰی کی راہ نمائی میں زندگی گزارتی رہی نصرت خداوندی ان کے شامل حال رہی ،لیکن جب مسلمانوں کی اجتماعیت اور معاشرہ خدائی تعلیمات کو چھوڑ کر نفس پرستی اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہوگیا تو استعماری طبقہ کو اپنی سازشوں میں کام یاب ہونے کا موقع ملا،چناں چہ مذہبی بنیادوں پر استوار مغربی استعمار کو جب دنیا میں غلبہ حاصل ہوا تو اس نے باقاعدہ استعماری و تبشیری مشن کے تحت مسلمانوں کی عظیم الشان تاریخ ،تہذیب و تمدن اور بے مثال علمی ورثہ اور سرمایہ پر قدغن لگانے اور اس کی حقیقت کو مسخ کرنے کی خاطر ایک استشراقی تحریک چلائی،جس کے پس پردہ متعدد سیاسی ،دینی، تبشیری اور استعماری محرکات تھے ،جن کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کو اسلام و مسلمانوں کے پاس موجود لاریب خدائی وحی کی رہنمائی سے محروم کرنا تھا۔

ان مخصوص اہداف کی تکمیل کے لیے ان کی تمام تر دلچسپی اور کوشش یہ رہی کہ اسلام اور اس کے محاسن میں عیب جوئی کی جائے ،نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اور آپ کی نبوت پر زبان طعن دراز کی جائے ،مغرب و یورپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں گستاخی کرتے ہوئے خاکے شائع کرنا ہر گز بھی اتفاقی بات نہیں ،بلکہ یہ اسی حقد و کینہ کا اظہار ہے، جو زمانہ قدیم سے ان کے سینوں کو جلائے ہوئے ہے، غرض اسلام اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا یہ مذموم گستاخانہ رویہ اس لیے ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین و تہذیب سے ہٹا کر فکری ،اعتقادی اور عملی ارتداد کا شکار کیا جاسکے اور باقی تمام انسانیت کو یہ باور کروایا جاسکے کہ اسلام کے ماننے والے مسلمان ایک وحشی وسفاک ،خون ریز اور دہشت گرد قوم ہے ،اہل مغرب نے ”دہشت گردی“کی مخصوص اصطلاح انہی مقاصد کی تکمیل لیے ایجاد کی ہے، یہ بات پورے شرح صدر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مغربی استعماری تسلط سے پہلے دنیا میں اس اصطلاح کا کوئی وجود نہ تھا ،بلکہ نائن الیون سے قبل دنیا کی اکثریت کے لیے یہ اصطلاح نامانوس تھی ۔ان لوگوں نے اسی پر بس نہیں کیا ،بلکہ اپنے ان استعماری و تبشیری مقاصد کے حصول کے لیے کچھ نام کے مسلمان بھی تیار کیے ،جن کی باقاعدہ بالواسطہ یا بلا واسطہ انہیں استعماری خطوط پر پرورش ،تعلیم و تربیت کر کے ان کے دل و دماغ میں ایسا زہر بھر دیا کہ وہ اپنے مغربی آقاؤں سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں ،ان لوگوں نے اس ذہن سازی کے نتیجہ میں اب اسلام کے خلاف کفری و قلمی ہتھیار خود تلاشنے شروع کردیے ہیں ،تبشیری مستشرقین کے تربیت یافتہ و فیض یافتہ ان نام نہاد مسلم مفکرین ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ اینکر پرسن اور قلم کاروں نے اپنی ہی نسل نو کے سامنے اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اقدار کے امین ”مدارس“کی ایسی جھوٹی منظر کشی کی ہے کہ جس کا حقیقت کے ساتھ ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ،پھر کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو دیدہ دانستہ یا انجانے میں اپنی سادگی یا ان کے پروپیگنڈہ کی شدت سے متاثر ہو کر انہی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عصر حاضر میں انہیں اسلام پر اپنے ناپاک حملہ میں مزید شدت لانے کی اس لیے بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ تہذیب جدید نے اہل مغرب کے عقائد سے لے کر معاشرتی نظام تک کی بنیادوں کو ہلا ڈالا ہے اور وہ اب اپنے اندر کی بے چینی سے مجبور ہو کر اسلام کی حقانیت میں سکون تلاش کرنے لگے ہیں ۔تو اس استعمار نے اہل مغرب کو اپنے عقیدہ اور مقدس کتاب میں موجود تحریفات پر غور و نقد سے روکنے اور دنیا کو اسلام کی حقانیت سے دور رکھنے کے لیے اسلام اور مسلمانوں پر سیاسی ،معاشی ،فکری اور استعماری و عسکری میدانوں میں ہلہ بول دیا ،مغربی استعمار چوں کہ قرونِ اولیٰ کی اسلامی فتوحات ،صلیبی جنگوں اور عثمانی خلفاء کی یورپ میں حاصل کی گئی فتوحات کے نتیجہ میں اہل مغرب میں پیدا ہونے والے خوف اور اسلام کی شان و شوکت سے اچھی طرح واقف ہے ،اس پر نائن الیون جیسے مجہول الحال واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ،چناں چہ انہوں نے خوف و ہراس کے اس نفسیاتی ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس ماحول میں مزید اضافہ کے اقدامات کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی تشخص کو مٹانے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت متصلب مسلمانوں کو ”دہشت گرد“اور ان کی دینی، فکری اور عملی تربیت کرنے والے اداروں، خاص طور سے مدارس کو ”دہشت گردی کے مراکز اور فکری آماج گاہیں“قرار دینے کا ایک ناختم ہونے والا مسلسل پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے ،اس زہریلے پروپیگنڈے میں ان کے دیسی نمک خوار بھی ان کے شانہ بشانہ مصروف کار دکھائی دیتے ہیں۔

مدارس دینیہ چوں کہ اسلام ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور امت مسلمہ کی چودہ صدیوں کے عظیم الشان دینی اور علمی ورثہ کے امین ہیں ،مدارس کی شبانہ روزمحنتوں سے اسلام اپنے حقیقی روح و عمل کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہے ،یہ مدارس ہی ہیں جن کی جہد پیہم کی وجہ سے آج بر صغیر پاک و ہند استعمار کی شدید ترین کوششوں کے باوجود ”اندلس“نہیں بن سکا ہے ،مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ساٹھ سے زائد مسلمان ممالک اپنے تمام تر وسائل ہونے کے باوجود بھی ان استعماری سازشوں کا مقابلہ نہیں کر سکے ،بلکہ اس پر مستزاد دکھ دینے والی صورت حال یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک استعماری سازشوں کا شکار ہو کر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں ،چوں کہ مغربی استعماری قوتوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ان کے منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں آخری رکاوٹ ”دینی مدارس“ہیں ،اس لیے ان کا سا راز و راس پر ہے کہ کسی بھی طرح سے مدارس کو موجودہ”دہشت گردی“کے ساتھ نتھی کر کے انہیں راہ سے ہٹا دیا جائے ،اگر ایسا نہ ہو سکا(اور یقینا نہیں ہوگا ان شا ء اللہ )تو ان کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کروائی جائیں کہ مدارس سے بھی ”لارڈ میکالے“کے دیے ہوئے نظام تعلیم کی طرح انہیں کہ پروردہ لوگ نکلیں ،جن میں دنیا کو حقیقی اسلام سے متعارف کروانے کی صلاحیت مفقود ہو،جو ہر طرح کے جذبہ حریت سے خالی ہوں۔

اہل مغرب کی طرف سے ”مدارس دینیہ “کے بارے میں آئے روز جو نت نئے پرپیگنڈے کیے اور پنے دیسی نمک خواروں کے ذریعے کروائے جارہے ہیں ،ان میں جس طرح نائن الیون کے بعد شدت لائی گئی تھی، ٹھیک اسی طرح کچھ عرصة قبل رونما کروائے جانے والے سانحہ پشاور کے بعد بھی حکومتی سطح سے لے کر پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں بھی ایک شور وغل بپا ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے مدارس ، نصاب تعلیم اور ان کے اساتذہ کی فکری و عملی تربیت کا ر فرما ہے ،اس بارے میں ہمیں مغرب سے کوئی گلہ نہیں، چوں کہ اپنی راہ کی اس آخری رکاوٹ کو ہٹانے اور اپنے استعماری و تبشیری مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ ”مدارس“کو دہشت گردی کے اڈے بھی باور کروائیں گے،ان کے نصاب تعلیم پر بھی قد غن لگائیں گے اور جہاں تک ممکن ہو ان پر طرح طرح کے الزامات لگا کر انہیں مشکلات سے بھی دو چار کرنے کی کوشش کریں گے ،لیکن ہمیں گلہ اور شکوہ ہے تو ان نام نہاد مسلم دانش وروں اور ان کے فیض یافتہ شاگردوں سے ، جو خود کو مسلمان اور اسلام کا خیر خواہ بھی ظاہر کرتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ یہ کہہ کر مدارس کو موجودہ”دہشت گردی“ سے نتھی کرنے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں کہ ماؤ نے کہا تھا ::”کہ تم لوگوں کو ذہنی طور سے مسلح کردو، ہتھیار وہ خود تلاش کرلیں گے “۔

ان بے چاروں کا قصور نہیں ،یہ درحقیقت سیکولرازم کے داعی اساتذہ کی طرف سے ان کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے تمام تیروں کا رخ دینی مدارس کی طرف کردیا ہے ،ہم ان سے اور مدارس کے خلاف پرو پیگنڈے کرنے والے دیگر تمام حضرات سے بصد احترام یہ کہیں گے کہ یہ ہر بات ذی شعور پاکستانی اچھی طرح جانتا ہے کہ موجودہ عسکریت پسندی اسی (80) کی دہائی میں عالمی امن کے ٹھیکیدار،صاحب بہادر امریکہ کی آشیرباد پر بنائی جانے والی ہماری اپنی حکومتوں کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ،نہ کہ دینی مدارس ،ان کا نصاب تعلیم اور ان کے اساتذہ کی تربیت؛اس لیے کہ دینی مدارس کم و بیش اپنے اسی نصاب تعلیم اور اساتذہ کے اسی اندازِ فکر و تربیت کے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اس خطے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ،بقول کسے :”کہ مدارس کا تعلیمی ماحول اور تربیتی فضاہی عسکریت کا باعث ہیں“۔تو انہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ اگر واقعی ایسا ہی ہے جیسا آپ باور کروانا چاہتے ہیں تو پھر قیام پاکستان کے ساتھ ہی عسکریت پسندی کیوں شروع نہ ہوئی؟اس نے اس (80) کی دہائی کاہی کیوں انتظار کیا؟!یہ کسے معلوم نہیں کہ جب صاحب بہادر کی ضرورت تھی تو اس وقت ”سرخ عفریت“کو شکست دینے کے لیے ہمارے حکم رانوں نے خود ان کی ہم نوائی میں سویلینز کو عسکریت کے فضائل سنائے ،انہیں مسلح کیا اور انہیں ہر طرح سے پروموٹ کر کے ان کے تمام تر اقدامات کو ریاستی سطح پر جہاد کا درجہ دیا،آج جب سوویت یونین کو شکست و ریخت سے دو چار ہوئے عرصہ گزر گیا اور صاحب بہادر امریکہ اپنے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے سے سرخ انقلاب کی طرح زوال پذیر ہونے جارہا ہے تووہ ان کے ہم نواکل جنہیں خود مجاہدین باور کروارہے تھے آج خود انہیں خوارج قرار دینا چاہتے ہیں #جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ،یہ کوئی سوچ ہے یا بازیچہٴ اطفال؟!…قطع نظر اس سے کہ ہمیں یا کسی کو بھی کل اور آج کی پالیسیوں سے اتفاق رہا یا نہیں ،اتنی بات تو طے شدہ ہے کہ آج خون ریزی اور عسکریت پسندی کی شکل میں پوری قوم جس فصل کو کاٹ رہی ہے وہ گزشتہ دہائیوں ہی کی کاشت کردہ ایک زمینی حقیقت ہے،خروج و عدم خروج کی فکری بحث کے لیے صرف اخباری کالم نہیں، علمی وسعتوں ،حزم و احتیاط اور زمینی حقائق کے ساتھ اس کا واویلا کرنے والوں کے کل اور آج کے کردار و گفتار کو بھی ضرور پیش نظر رکھنا پڑے گا ،کیا یہ بات قرین انصاف ہوگی کہ خود اسلام سے عملی روگردانی کر کے دوسروں پر خروج کے فتوے لگائے جائیں؟دل چاہتا ہے کہ ان سے یہ پوچھا جائے کہ کیا زبردستی اور من مانی کر کے کسی پر خروج کے فتوے چسپاں کرنے سے وطن عزیز کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے؟ کوئی بھی صاحب عقل و شعور اسے موجودہ تمام مسائل کا حل وحید ہر گز بھی قرار نہیں دے گا ،تو پھر کیوں بعض نا عاقبت اندیش ان ”امپورٹڈ فتووں“سے ملک کو مزید آگ و خون ریزی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ؟

طرفتہ تماشہ دیکھیے کہ یہ لوگ اسی پر بس نہیں کرتے ،بلکہ استعماری مقاصد کی تکمیل کی راہ ہم وار کرنے کے لیے مدارس کو بھی عسکریت پسندی سے نتھی کر کے ان کو اور عسکریت پسندوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں، حالاں کہ اہل مدارس ،خاص طور سے وفاق المدارس العربیہ نے کچھ عرصہ قبل لاہور کے ملک گیر علماء کنونشن میں یہ بات واضح کردی تھی کہ وہ پاکستان کے اندر کسی بھی طرح کی عسکریت پسندی کے قائل نہیں ،عالمی اور ملکی میڈیا اس کا شاہد رہا ہے ،پھر بڑے وسیع پیمانے پر اس کانفرنس کا اعلامیہ شائع کروا کے ملک بھر میں باقاعدہ تقسیم بھی کیا گیا ۔مزید برآں مدارس کے خلاف زہر اگلنے والوں کو بھی اعتراف ہے کہ مدارس والے عسکریت پسندوں کے اس طرز عمل سے متفق نہیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اہل مدارس اس طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہیں اور آپ کو بھی اس کااعتراف ہے تو پھر کیوں مدارس کو زبردستی عسکریت سے جوڑنے کی سعی نامسعود کی جارہی ہے ؟اگر حقائق کے برخلاف مدارس کو یوں ہی زبردستی اس آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جائے گی کہ جس میں نہ ملک و قوم کا مفاد ہو اور نہ ہی حکومت کا ،تو پھر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب ضروریہ کہنے میں حق بجا نب ہو ں گے کہ”مدارس کے خلاف یہ یلغار امریکہ اور لادینی قوتوں کے کہنے پر کی جارہی ہے“،لیکن مولانا صاحب کے اس بیان سے نظم اجتماعیت کے ہونے یا نہ ہونے کا لفظی چکر چلا کر اسے عسکریت پسندی کے جواز پر محمول کرنا زبردستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سستی شہرت کے حصول لیے آپ کسی اور میدان کا انتخاب کیجیے ،دنیا میں ریٹ بڑھانے کے تو اور بھی ذرائع ہیں ،کیا اس کے لیے مدارس کو ہی دوش دینا ضروری ہے ؟خدارا!اس مذموم پروپیگنڈے سے باز آجائیں، وگرنہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ،جس دن خدا کی لاٹھی حرکت میں آگئی تو پھر ان بوریہ نشینوں اور مدارس کے خلاف زہر اگلنے والی یہ زبانیں گنگ اور قلم کی سیاہی خشک ہوجائے گی۔

کوئی اور اگر آپ کی پیش کی ہوئی ”ماؤ“والی اس ”نرالی منطق“کا سہارا لے گا تو یقینا یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ گزشتہ ستر سالوں سے وطن عزیز میں جتنی بھتہ خوری ،ٹارگٹ ،کرپشن ،حقوق کی پامالی، منتخب حکومتوں پر آمریت کے شب خون ،ملک کو دولخت کرنے ،ملک و قوم کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر سوئس بینکوں میں بھرنے ،علاقائیت، صوبائیت، قومیت اور لسانیت کے نام پر کشت و خون اور دہشت گردی ،پولیس گردی کے ذریعہ سینکڑوں معصوم شہریوں کو جان سے مارنے ،لاپتہ افراد کیس کے مطابق متعدد قوم کے فرزندوں کو تاحال غائب کرنے اور قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو چند ڈالروں کے عوض فروخت کرنے کے پیچھے کالجز اور یونیورسٹیوں میں رائج لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ،وہاں کا نصاب اور وہاں پڑھانے والوں کی فکری اور ذہنی تربیت اور ماحول کارفرماہے ،یا پھر ملک کا اجتماعی نظام؟ اس لیے کہ مذکورہ کاموں میں یقینا کوئی ایک بھی مدارس کا فیض یافتہ یا وہاں کے اساتذہ سے فکری تربیت پانے والا نہیں ۔گزشتہ کل کے اخبار میں …خبر…کہ لاہور میں اغوا برائے تاوان اور بردہ فروشی کی وارداتیں کرنے والے مردو عورت دونوں یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں …؛لہٰذا مدارس سے زیادہ ان اداروں کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔

میں اپنی تحریر ختم کرنے سے پہلے وطن عزیز کے حکم رانوں ،قومی اداروں کے پالیسی ساز ذمہ داروں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی خدمت میں مدارس کے بارے میں شاعر مشرق ،مفکر و محسن پاکستان جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کے اس قول کو پیش کرنا ضروری خیال کرتا ہو ں ،جو یقینا آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ،تم ہماری نہیں مانتے تو نہ مانو ،اگر تم اس ملک قوم کے خیر خواہ اور وفادار ہو تو اپنے محسن اور مفکر وطن کی تو مانو…، علامہ صاحب نے فرمایا :

”ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو ،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ،اگر ہندوستانی مسلمان(اور اب پاکستانی مسلمان بھی)ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، برصغیر پاک وہند میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لا ل قلعہ (لاہور کے شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد)کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا “۔

Flag Counter