Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

7 - 17
اپریل فول کی تاریخی وشرعی حیثیت

مولانا مرغوب الرحمن مظاہری
	
اسلام ایک فطری مذہب ہے، اس نے ہر اس چیزکا پوراپورا خیال رکھا ہے جس کی ضرورت انسانی فطرت کو ہوتی ہے اور ہر اس شے سے رکنے اور باز رہنے کی تلقین کی ہے جس سے دینی یا دنیوی نقصان ہوتا ہو اور دوسری قوموں کی نقالی کرنے اور ان کی اندھی تقلید کرنے سے قطعاً منع کیا ہے، آج ہماری قوم پر مغربیت کا ایسا جنون طاری ہے کہ ہر ہر معاملہ میں بے سوچے سمجھے اغیارکی اندھی تقلید کو اپنے لیے ذریعہ نجات و معراج سمجھتی ہے، حالاں کہ محسن انسانیت، رحمة للعالمین، ہمارے آقا و مولی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جگہ جگہ اور قدم قدم پر مکمل راہ نمائی فرمائی ہے اور ہمیں کسی طرح بھی تشنہ کام نہیں چھوڑا اور کہیں بھی ایسا موقع نہیں دیا کہ ہم کو راہ نمائی و راہ بری کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت پڑے۔

مغرب کی اندھی تقلید میں آج ہم نے ” اپریل فول“ کو اپنی تہذیب کا ایک حصہ بنا لیا ہے ،ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کے پیچھے کیا کیا خرابیاں کار فرما ہیں، بس بے سوچے سمجھے غیر مہذب قوم کی پیروی میں لگ گئے، آئیے ان خرابیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور مورخین کی مختلف آرا کا جائزہ لیتے ہیں۔

بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سولہویں صدی عیسوی تک سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا اور اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس (Venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے، وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں Aphrodite کیا جاتا ہے، شاید اسی یونانی نام سے مشتق کرکے اپریل مہینے کا نام رکھا گیا (برٹانیکا)۔

بعضوں کا خیال یہ ہے کہ یکم اپریل کو سال کی پہلی تاریخ ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا اس لیے لوگ اس دن کو جشن مسرت کے طور پر مناتے تھے اور ہنسی مذاق اور کھیل کود کرتے، رفتہ رفتہ اسی نے ”اپریل فول “ کی شکل لے لی۔

ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ21/مارچ سے موسم میں تبدیلی آنی شروع ہوتی ہے، بعض لوگوں نے اس تبدیلی کو اس طرح تعبیر کیا کہ اوپر والا ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے، کیوں نہ ہم بھی ایک دوسرے کو بیوقوف بنائیں، اس طرح انہوں نے ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا۔ (برٹانیکا)

ایک وجہ انسائیکلو پیڈیا لاروس نے بڑے وثوق کے ساتھ پیش کی ہے اور اس کے صحیح ہونے پر دلائل و شواہد پیش کیے ہیں، یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مذاق و استہزاکیا، اور رخسار مبارک پر چپت لگائے، آنکھیں بند کراکر پوچھتے کہ الہام کے ذریعہ بتا کہ کس نے مارا؟ آپ پر طعن و تشنیع کرتے اور آپ کو ذلیل کرتے،لو قاکی انجیل میں اس کو یوں بیان کیا:

”اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے اس کو ٹھٹھوں میں اڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس سے پوچھتے تھے کہ نبوت (الہام) سے بتا تجھے کس نے مارا؟ اور انہوں نے طعنہ اور بھی بہت سی باتیں اس کے خلاف کہیں۔“ (22:65-63)

آگے یہ بھی مذکور ہے کہ پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کو سرداران یہود اورقوم کے بزرگوں کی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا، پھر ان کو پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ ان کا فیصلہ وہاں ہوگا، پھر پیلاطس نے ان کو ہیرودیس کی عدالت میں بھیج دیا، ہیرودیس نے پھر ان کو پیلاطس کی عدالت میں بھیج دیا۔

لاروس لکھتے ہیں کہ عیسیٰ کی ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقلی بھی ان کا ٹھٹھہ اور مذاق اڑانے کے لیے تھی۔

روم میں اسے (اپریل کو)فیسٹول آف ہیلاریا (Festival of Hilaria) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ہیلاریا، رومی قصے کہانیوں میں ہنسی مذاق کی علامت تھی، جب کہ اس کو رومن لافنگ ڈے کہتے ہیں،پرتگالی لوگ اس کو ”فول ڈے“ کے نام سے جانتے ہیں اور اسپین میں اپریل کو ”کویل کا مہینہ“ مانا جاتا ہے، اس لیے اپریل فول بننے والے شخص کو ”کوککو“ کہا جاتا ہے، جب کہ دنیا کی دیگر جگہوں میں اس کو ”اپریل فول“ کے نام سے پکارتے ہیں۔

بہر حال ”اپریل فول“ کا جو بھی پس منظر رہا ہو، بہر صورت کسی نہ کسی صورت انسانیت دشمنی کے واقعہ سے جڑا ہوا ہے، مسلمانوں کے لیے یہ قبیح رسم اس لیے بھی مزید بری ہے کہ یہ بہت سے بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے :
1..گم راہ اور بے دین قوموں کی مشابہت اختیار کرنا .2.. صریح جھوٹ بولنا.3.. گناہ کبیرہ کو حلال اور جائز سمجھنا. 4..خیانت کرنا.5.. دھوکہ دینا .6..دوسروں کو اذیت پہنچانا.7.. ایک ایسے واقعہ کی یادگار منانا جس کی اصل بت پرستی یا توہم پرستی یا کسی پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق ہے۔

آئیے! دیکھتے ہیں کہ ”اسلام“ نے ہماری اس سلسلہ میں کیا راہ نمائی فرمائی ہے۔

معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر قوم کے رسم ورواج، جشن و تہوار، عادات و اطوار کو اپنانے والے کو اپنے مذہب سے نکل کر انہیں کے مذہب میں داخل ہونے کے مترادف قرار دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ”من تشبہ بقوم فہو منہ“ (ابو داؤد ، مسند احمد ) جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے، ایک دوسری حدیث پاک میں فرمایا: ”لیس منا من تشبہ بغیرنا، لا تشبہوا بالیہود ولابالنصاری․“ (ترمذی 2/99، باب السلام) وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے علاوہ (دیگر اقوام) کے طریقہ کی مشابہت اختیار کرے، تم یہود و نصاری کی مشابہت اختیار مت کرو۔

پس جو شخص زندہ ضمیر رکھتا ہے ،آقائے نام دار، حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں شمار ہونا چاہتا ہے تو یقینا ایسی باتوں سے بالکلیہ پرہیز کرنا چاہیے، نہیں تو کل انجام بد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

علامہ ابن تیمیہ نے اپنی تصنیف ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں غیروں کی مشابہت اختیار کرنے کے ممنوع ہونے میں متعدد وجوہات بیان فرمائی ہیں، چند ایک کو ذکر کیا جاتا ہے:

کفار کی نقل اور پیروی کرنے سے آدمی خود بخود صراط مستقیم کی پیروی سے ہٹ جاتا ہے۔

ان کی پیروی کرنے سے ان کے قول وعمل سے ہم آہنگی اور قلبی موانست پیدا ہوجاتی ہے، جو سراسر ایمان کے منافی ہے۔

کفار کی مشابہت پر جمے رہنے سے خود شریعت مطہرہ سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور ایمان کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور آوارگی، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی عام ہوجاتی ہے۔

مسلمانوں کی اس نقالی سے کفار دلی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے کفر پر مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔

لہٰذا عقائد و عبادات اور جشن و تہوار میں غیر مسلم اقوام کی نقالی ناجائز و حرام ہے۔

حضرت عمرفرمایا کرتے تھے ”اللہ کے دشمنوں کے تہواروں میں شرکت سے اجتناب کرو“۔(مسند احمد)

حضرت عبد اللہ بن عمرو  کا قول ہے جس نے مشرکین کے نوروز ومہرجان (تہواروں) کے جشن منائے اور اسی حالت میں موت آگئی تو قیامت کے روز انہیں میں سے اٹھایا جائے گا۔ (مسند احمد)

دوسرا گناہ اس میں یہ ہوتا ہے کہ جھوٹ کا ارتکاب کیا جاتا ہے، بلکہ صریح جھوٹ بولا جاتا ہے، قرآن و حدیث میں جھوٹ کی حد درجہ مذمت بیان کی گئی ہے، قرآن کریم میں دسیوں مقام پر جھوٹ کی قباحت بیان فرمائی گئی ہے، اللہ تعالیٰ شانہ نے جہاں شرک اور بت پرستی سے منع فرمایا ہے وہیں جھوٹ سے بھی بچنے کا حکم دیا، جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا۔ (منافقون:1) حدیث شریف میں اس طرح بیان کیا: آیة المنافق ثلاث، اذا حدث کذب، واذا وعد اخلف، واذا اوتمن خان (بخاری ، مسلم ) منافق کی تین (خاص) نشانیاں ہیں، جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اسے امین بنایا جائے تو اس میں خیانت کرے۔

رحمة للعالمین، حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کو ممنوع فرمایا، بلکہ ایسے شخص کے لیے تین مرتبہ بد دعا فرمائی۔ فرمایا ،ترمذی، ابو داؤد، مسند احمدمیں روایت موجود ہے کہ: بربادی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اس کے لیے بربادی ہے ،اس کے لیے بربادی ہے۔

تیسرا گناہ یہ ہے کہ اس دن جھوٹ بولنے اور کذب بیانی کو جائز سمجھا جاتا ہے، بلکہ لائق تحسین اور قابل فخر سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ العزیز نے تصریح فرمائی ہے کہ جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کر بولاجائے تو گناہ کبیرہ ہے اور اگر اس کو جائز و حلال سمجھ کر بولا جائے تب تو اندیشہ کفر ہے۔

چوتھا گناہ اس میں دھوکہ دینا بھی ہے، اس کو بھی فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے، دھوکہ دینے والے کے متعلق محسن انسانیت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کے الفاظ فرمائے ہیں، فرمایا: من غشنا فلیس منا․ (مسلم ) جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔

چھٹا گناہ ایسے واقعہ کی یادگار منانا جس کی اساس و بنیاد بت پرستی یا توہم پرستی یا کسی پیغمبر کی ذات مقدس کے ساتھ گستاخانہ مذاق پرہے، یہ تینوں ہی عظیم ترگناہ ہیں، بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے سے کفر وضلال کے گڑھے میں چلے جانے کا خوف ہے۔

اپریل فول تہذیب جدید کے عنوان سے آج مسلمانوں میں بھی منایا جانے لگا ہے ،جب کہ اس کے پیچھے وہی ذہنیت اور اسلام دشمنی کار فرما ہے، جو ازل سے اسلام کے دشمنوں کا شیوہ رہی ہے ۔

مغرب کی اندھی تقلید میں جدید تہذیب وتمدن اپنانے کی حرص میں کہیں ہمارا دین وایمان نہ غارت ہوجائے ،خدارا! اس پر غور کریں۔

Flag Counter