Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

6 - 17
سُود کی حُرمت

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿لِلْفُقَرَاء الَّذِیْنَ أُحصِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ ضَرْباً فِیْ الأَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ أَغْنِیَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُم بِسِیْمَاہُمْ لاَ یَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافاً وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَإِنَّ اللّہَ بِہِ عَلِیْمٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:273)
خیرات ان فقیروں کے لیے ہے جو رُکے ہوئے ہیں الله کی راہ میں، چل پھر نہیں سکتے مُلک میں، سمجھے ان کو ناواقف مال دار ان کے سوال نہ کرنے سے، توپہچانتاہے ان کو ان کے چہرے سے، نہیں سوال کرتے لوگوں سے لپٹ کر او رجو کچھ خرچ کرو گے کام کی چیز وہ بے شک الله کو معلوم ہے

ربط:صدقات بوقت ضرورت تو سب کو دینا جائز ہے، لیکن کن لوگوں کو دینے میں زیادہ ثواب ہے ؟ اور اصل استحقاق کون رکھتے ہیں؟ اس کا بیان ہو رہا ہے۔

تفسیر:راہ خدا کا سب سے بہترین مصرف، مجاہدین، طلبائے علم دین
صدقات کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جو کسی دینی مقصد میں مصروف ہونے کی وجہ سے کسب معاش کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کرسکتے اور ان کی خود داری کا عالم بھی یہ ہے کہ وہ کسی کے سامنے اپنی ذات کے لیے ہاتھ بھی نہیں پھیلاتے، ایسے لوگوں کو پہچاننابھی زیادہ مشکل نہیں ، چہرے بشرے کی ظاہری کیفیت ہی ان کے اندرونی احساسات کی عکاسی کرتی ہے، اس لیے اغنیاء کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان کی مالی اعانت کریں، یہ نشانیاں ، مجاہدین اور طلبائے دین پر ہر طرح صادق آتی ہیں ، مجاہدین جو راہ خدا میں مصروف قتال ہیں او ران کے اہل وعیال کی کفالت کا مستقل انتظام نہ ہو تو وہ اس کے بہترین مصداق ہیں، اسی طرح علماء وطلباء جو علم دین کی نشرواشاعت اور تعلیم وتعلم میں منہمک ہیں ، وہ بیک وقت کسب معاش اور خدمت دین کی ذمے داری صحیح طریقے سے انجام نہیں دے سکتے، علم دین مکمل توجہ چاہتا ہے، اس لیے علما وطلبا کے ساتھ تعاون کرنا فی نفسہ سب سے افضل درجہ رکھتا ہے، یہ درحقیقت علمِ دین کی اشاعت وتحفظ کا تعاون ہے۔

نیز آیت کریمہ میں استحقاقِ صدقہ کے لیے فقراء کا لفظ آیا ہے او رپھر بتایا گیا ہے کہ جاہل ان کی ظاہری حالت کو دیکھ کر انہیں مال دار سمجھے گا، پتہ چلا اچھا لباس فقر کے منافی نہیں ہے۔ اور نہ ہی کٹاپھٹا لباس فقر کا معیار ہے۔

﴿الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُم بِاللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ سِرّاً وَعَلاَنِیَةً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ ، الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لاَ یَقُومُونَ إِلاَّ کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاء ہ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانتَہَیَ فَلَہُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہُ إِلَی اللّہِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ ، یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ ، إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّکَاةَ لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ ، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:279-274)
جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی راہ میں رات کو اور دن کو چھپا کر اور ظاہر میں تو ان کے لیے ہے ثواب ان کا اپنے رب کے پاس اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گےoجو لوگ کھاتے ہیں سود نہیں اٹھیں گے قیامت کو، مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کے حواس کھو دیے ہوں جنّ نے لپٹ کر، یہ حالت ان کی اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے کہا کہ سودا گری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا، حالاں کہ الله نے حلال کیا ہے سوداگری کو اور حرام کیا ہے سود کو ،پھر جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے اور وہ باز آگیا تو اس کے واسطے ہے جو پہلے ہو چکا اور معاملہ ا س کا الله کے حوالے ہے اور جو کوئی پھرسود لیوے تو وہی لوگ ہیں دوزخ والے ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گےمٹاتا ہے الله سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور الله خوش نہیں کسی ناشکرگناہ گار سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کیے اور قائم رکھا نماز کو اور دیتے رہے زکوٰة ان کے لیے ہے ثواب ان کا اپنے رب کے پاس اور نہ ان کو خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گےاے ایمان والو! ڈرو الله سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سُود، اگر تم کو یقین ہے الله کے فرمانے کاo پس اگر نہیں چھوڑتے توتیار ہو جاؤ لڑنے کو الله سے اور اس کے رسول سے اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر

ربط:گزشتہ آیات میں انفاق فی سبیل الله کا ذکر تھا اور چوں کہ انفاق کا تعلق مال ہی سے ہے، لہٰذا آئندہ آیات میں انہی احکام کا تذکرہ ہے، جن کا تعلق مال کے ساتھ ہے، یعنی حرمت سود،ظاہر ہے یہ مال سے متعلق ہے، اسی طرح مدیون کو مہلت دینا ، دَین کے معاملات کو لکھوالینا، ان معاملات میں گواہ بنانا، رہن رکھوانا وغیرہ۔

تفسیر: انفاق فی سبیل الله ہر زمانے اور ہر وقت ہو سکتا ہے
الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُم یعنی جو شخص اپنا مال ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ دن ہو یا رات علانیہ ہو یا پوشیدہ طور سے تو ان لوگوں کو بروز قیامت اپنے رب کے ہاں اس کا اجر ضرور ملے گااور نہ تو ان پر کوئی خطرہ واقع ہو گا اور نہ ہی انہیں کوئی غم ہو گا۔

قیامت کے دن عام و خاص بندے بھی خوف وخطر کا شکار ہوں گے، لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہے کہ راہ الٰہی میں خرچ کرنے والے اگرچہ خوف کا شکار ہوں گے، لیکن انہیں قیامت کی دہشت سے خود پر کوئی ناپسندیدہ واقعہ ہونے کا خوف نہیں ہوگا۔ ( روح المعانی، آل عمران:170)

الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا
ربط:انفاق فی سبیل الله کا تعلق مال سے ہے اور سودی معاملات کا تعلق بھی مال سے ہے، اس لیے اسی مناسبت سے اب سود کے بارے میں احکام دیے جارہے ہیں۔

تفسیر: اسلام میں حرمتِ سود کے تدریجی احکام
آپ صلی الله علیہ وسلم جس زمانے میں مبعوث ہوئے اس میں اہل عرب سودی معاملات میں پوری طرح دھنسے ہوئے تھے ،سود خور سرمایہ داروں نے سودی لین دین کو خرید وفروخت کی طرح کا لین دین قرار دے کر اسے رائج کر رکھا تھا، الله تعالیٰ نے شراب کی طرح سود کے بارے میں بھی اپنی حکمت سے تدریجی احکام نازل فرماکر بالآخر مطلق حرام قرار دیا۔

پہلا حکم:
سود کے متعلق نفرت اجاگر کرنے کے لیے پہلے بتایا گیا کہ یہ یہودیوں کی عادت ہے، جو لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں: ﴿وَأَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُواْ عَنْہُ وَأَکْلِہِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِل﴾․ (النسا:161) ”اور اس وجہ سے سود لیتے تھے اور ان کو اس کی ممانعت ہو چکی تھی او راس وجہ سے کہ لوگوں کا مال کھاتے تھے ناحق۔“

دوسرا حکم:
سود کی شرح نہایت بلند ہوتی تھی، مثلاً100روپے کا سالانہ سود بھی 100 لیا جاتا ، یعنی ایک سال میں سود راس المال کے برابر ہو جاتا ، مقروض دینے پر قادر نہ ہوتا تو تیسرے سال مزید 100 روپے شرح سود میں بڑھا دیے جاتے، اب سود اصل رقم سے دو گنا ہو جاتا، اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ وہ دوگنا پر دوگنا ہوتا چلا جاتا۔ چناں چہ مسلمانوں کو اس قدر گراں شرح سود سے روکا گیا :﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․(اٰل عمران:130)”اے ایمان والو! مت کھاؤ سود دونے پردونا اور ڈرو الله سے، تاکہ تمہارا بھلا ہو ۔“

اس آیت کے بعد بھی مسلمانوں میں سودی کاروبار کچھ نہ کچھ باقی رہا تھا کیوں کہ سود در سود سے روکا گیا تھا، نفس سود معمولی شرح کے ساتھ ممنوع نہ تھا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے طائف کے باشندوں سے جو معاہدہ طے فرمایا تھا اس سے بھی یہی معلوم ہو تا ہے کہ سودی کاروبار کی محدوداجازت تھی۔ (کتاب الأمْوال لأبی عبید القاسم بن سلام: ص:206)

تیسرا حکم:
پھر سورہٴ بقرة کی مذکورہ آیت سے ہر طرح کے سود کو حرام قرار دیا گیا، پھر نبوت کے آخری سال اگلی والی آیت اتری، جس میں سودی لین دین کرنے والوں کو الله اور رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا، چناں چہ ابن عباس رضي الله عنه فرماتے ہیں آخر ی آیت جو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ آیت ربواتھی ۔ (جامع البیان، سورة البقرہ تحت آیة رقم:278)

یعنی جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن ایسے اٹھائے جائیں گے جیسے انہیں شیطان نے لپٹ کر بدحواس کر دیا ہو، ان کی دیگر سزاؤں کے ساتھ ساتھ سود خوری کی نحوست سے یہ خاص سزا انہیں اس لیے دی جائے گی کہ انہوں نے الله کے حکم حرمت سود پر”سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا“ کہہ کر قبول کرنے کے بجائے عقلی انداز میں کہا کہ خرید وفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، لہٰذا جس طرح خرید وفروخت جائز ہے، اسی طرح سود بھی جائز ہونا چاہیے، اس عقلی دلیل کی وجہ سے آخرت میں سزا بھی مخبوط الحواسی کی صورت میں ملے گی، نیز سود اور خرید وفروخت کا فرق سب جانتے ہیں او رجب آیت نازل ہوئی عرب ان دونوں کی حقیقت سے واقف تھے، لیکن شیطان نے سود خور سرمایہ داروں کو تسلی دی کہ خرید وفروخت بھی سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ دونوں میں مقصود نفع کمانا ہوتا ہے، حالاں کہ خریدوفروخت میں نفع او رنقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے ۔ تاجر نفع کے حصول اور نقصان سے بچاؤ کے لیے صبح وشام کی بھاگ دوڑ اور ذہنی تدابیر اختیار کرتا ہے، اس کے مقابلے میں سود خور سود پر رقم دے کر مطمئن ہو جاتا ہے ۔ لینے والے کا فائدہ ہویا نقصان، سود خور کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اس کا نفع ہر لمحہ بغیر کسی نقصان کے اندیشے کے بڑھتا ہی رہتا ہے، کیوں کہ شریعت میں سود کہتے ہیں اصل قرضہ پر بلامعاوضہ زیادتی کو ۔ (روح المعانی، البقرة، تحت آیة رقم:275)

پس جو شخص نصیحت الٰہیہ کے بعد سود کے لین دین سے رک گیا تو اس کا باطنی معاملہ الله کے سپرد ہے، اگر دل میں بھی سچا تھا تو اس کی توبہ عند الله مقبول اور اگر دل میں سچا نہ تھا تو اس کی جزا بھی الله ہی کے پاس ہے، لیکن تمہیں بدگمانی کا کوئی حق نہیں اور جو سود اس نے حکم حرمت سے قبل لیا تھا وہ سب اسی کا ہے اور جو شخص سود خوری پر قائم رہا ،یا چھوڑ کر پھر سے سود خوری شروع کی تو اس کی سزا یہ ہے کہ وہ جہنم میں جائے گا اور اگر وہ سود کو حلال سمجھ کر کھاتا تھا تو وہ کفر کا مرتکب ہوا، لہٰذا وہ جہنم میں ہمیشہ رہنے کا مستحق ہے۔

جن یا شیطان کا لپٹ جانا
اس آیت میں جو شیطان کے لپٹ کر بد حواس بنانے کا تذکرہ آیا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آسیب کا ہونا، یعنی جنّات کا انسانوں کو چمٹنا امر ممکن ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ نے سود خوروں کو مخبوط الحواسی میں آسیب زدہ شخص کی مخبوط الحواسی سے تشبیہ دی ہے۔

شیطان کا اذیت دینا تو احادیث سے ثابت ہے، چنا ں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہے کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو شیطان چٹکی مارتا ہے، جس کی وجہ سے بچہ چیخنے لگتا ہے۔ (مصنف لابن أبی شیبہ، کتاب الفرائض ،رقم الحدیث:32147)

لیکن بدحواسی اور جنونی پن کی دائمی علّت آسیب نہیں ہوتی اور بھی کئی طبی وجوہات سے یہ مرض ہو سکتا ہے۔

آسیب زدگی پر ایک شبہ اور اس کا جواب
قرآن کریم میں شیطان کا ایک قول حکایت کیا گیا ہے وَماَ کَانَ لِیْ عَلَیْکم مِنْ سُلطٰنٍ (ابراہیم:22) ( اور میری تم پر کچھ حکومت نہ تھی) اس سے معلوم ہوتا ہے شیطان انسان پرمسلط ہونے کی دست رس نہیں رکھتا ،پھر وہ کیسے انسان کو چمٹ جاتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ شیطان انسان سے جبراً گناہ نہیں کراسکتا، صرف وسوسے سے گناہ پر آمادہ کرتا ہے، جہاں تک انسان کو چمٹ کر اسے اذّیت دینے کی بات ہے اس کا مذکورہ آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ نیز ان واقعات کا بداہتہ ہونا اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے ۔ البتہ بعض لوگ شیطانی حرکات او رافعال کو روح کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ فلاں کی روح ستانے کے لیے آئی یا مدد کے لیے آئی، یاد رکھیں روح اگر نیک کاروں کی ہے تو اسے”عِلّیِیْن“ جیسے مقام کو چھوڑ کر دنیا میں کسی کو ستانے کی غرض سے آنے کی کیا ضرورت ؟ او راگر بدبختوں میں سے ہے تو اسے اتنی مہلت کہاں کہ ”سِجِّیِّنْ“ سے نکل سکے؟؟

صرف اصل رقم لینے کی اجازت ہے
﴿فَمَن جَاء ہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانتَہَیَ فَلَہُ مَا سَلَف﴾ اس آیت میں اصل رقم لینے کی اجازت مرحمت فرمائی اور جوسود لیا جاچکا ہے اسے واپس لوٹانے کے بجائے معاف فرما دیا، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس آیت کے نزول سے پہلے سود لے رہے تھے ۔ اب اگر کسی نے سود لیا ہے تو واپس کرنا ضروری ہے ۔ ﴿وَمَنْ عَادَ﴾ اگر کوئی اس حکم کے بعد بھی سودی لین دین میں مبتلا رہا تو اس کے لیے جہنم کی وعید ہے اور اگر حلال سمجھ کر سودی معاملہ کیا تو ارتداد کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ۔

سود کی نحوست اور صدقے کی برکت
﴿یَمْحَقُ اللّہُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقٰت﴾یعنی الله تعالیٰ آخرت میں سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، سود خور چند روزہ عیش فانی میں دیکھتا ہے کہ وہ دن دوگنی اورر ات چوگنی ترقی کرتا جارہا ہے اور خدا کی راہ میں صدقہ دینے والا دیکھتا ہے بظاہر دنیا میں اس کا مال کم ہوتا جارہا ہے ،لیکن جب ان کی آنکھیں کل دائمی زندگی کے لیے کھلیں گی تو سود خوراپنی آمدنی میں خسارہ ہی خسارہ پائے گااور صدقہ دینے والا شخص اپنی آمدنی کو الله کے وعدے کے مطابق کئی گناہ زیادہ پائے گا۔ تب یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ سود حقیقت میں خسارہ اور صدقہ حقیقت میں آمدنی ہے۔بلکہ اسی چند روزہ زندگانی ہی میں ذرا ملاحظہ کیجیے کہ مال کس کا بڑھ رہا ہے اور کس کا گھٹ رہا ہے۔اس دور کی جتنی بھی ایجادات ہیں یا جو بھی مال ہے اس کے حاصل کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ راحت حاصل کرنا ہے، اب سوچنے کی بات ہے کیا سود خور زیادہ مال کما کر یہ نعمت حاصل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے؟

الغرض دلی سکون وراحت سود خور کو کبھی نصیب نہیں ہوتی، اس کے برعکس صدقہ دینے والا شخص نہ صرف یہ کہ دلی سکون کا حامل ہوتا ہے، بلکہ اس کی آمدنی میں بھی الله کی طرف سے بے انتہا برکت ہوتی ہے، کئی بلائیں ٹلتی ہیں، رحمت الہٰی متوجہ ہوتی ہے، آخرت میں اجر کا ذخیرہ بنتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے دنیاوی معاملات بخوبی انجام پاتے ہیں۔ پس الله تعالیٰ سود خور جیسے ناشکرے اورگناہ گار کو پسند نہیں کرتا۔

﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّلِحٰت﴾عجیب اور عمدہ پیرایہ میں سود خور کی مذمت کے برعکس مومنین کی مدح کی گئی کہ سود خور تو ﴿ إِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبَا﴾کہہ کر کفر کا مرتکب ہوا او رمومن ایمان لایا ،وہ سود کھا کر دنیا کا حریص ہوا اور یہ نیک اعمال کرکے رضائے الٰہی کا حریص ہوا۔ وہ حرام طریقے سے مال کما کر جہنم کا مستحق اور یہ خدا کی راہ میں مال لٹا کر اجر اور رضائے الہی کا مستحق بنا۔

سود مفرد ہو یا مرکّب، مطلقاً حرام ہے
بعض متجددین ،جو بینکوں اور سودی معاشی نظام کو ملک کی اقتصادی ترقی کا بنیادی زینہ سمجھتے ہیں، انہوں نے قرآن کریم کی آیت ﴿لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَة﴾ (اٰل عمران:130)( مت کھاؤ سود دونے پر دونا) میں﴿أَضْعَافاً مُّضَاعَفَة﴾ کو ”لاَ تَأْکُلُواْ“ کی قید قرار دے کر یہ حکم اخذ کیا ہے۔ کہ دگنا ( مرکب) سود حرام ہے اور مفرد سود درست ہے۔

اولا: تو یہ تفسیر اور یہ مفردومر کّب کی تقسیم اصطلاح قرآنی، توضیحات نبوی، أئمہ وفقہاء کی تصریحات کے بالکل مخالف ہے ۔ یہ قید ربوا کی قبیح ترین صورت دکھانے کے لیے لائی گئی ہے، نہ کہ قید احترازی ہے۔ (تفسیر مظہری، البقرہ تحت آیة رقم: اٰل عمران:130)

ثانیا: قرآن کریم کی آیت :﴿وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا﴾ میں حکم دیا جارہا ہے کہ بقایا سود چھوڑ دو ، ” مَا بَقِیَ “ میں ”مَا“ موصولہ ہے اور عام ہے،جو ہر طرح کے اور ہر مقدار کے سودی معاملے کو شامل ہے، متجددین کی یہ فرضی تقسیم سود مفرد بھی اس میں داخل ہے۔

ثالثاً: احادیث میں مطلق ربا کی حرمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے، چناں چہ حضرت عبدالله بن حنظلہ رضي الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم ربو جسے کوئی شخص جان بوجھ کر کھائے چھتیس زناؤں سے بدتر ہے۔ (مشکوٰة المصابیح، باب الربو:1/245)

﴿فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله﴾اور اگر تم باز نہ آؤ تو اعلان سن لو الله او راس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اور اگر تم باز آجاؤ تو تمہیں تمہارا اصل مال مل جائے گا ،نہ تم کسی سے زیادہ مال مانگ کر اس پر ظلم کرو گے اور نہ ہی کوئی تمہارا اصل مال کھا کر ظلم کرے گا۔

شان نزول: سود نہ چھوڑنے والوں کے خلاف جہاد کی وعید
زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ثقیف کے کچھ لوگ بنو مغیرہ کو سود پر رقم دیا کرتے تھے، جب بنو ثقیف نے بنو مغیرہ سے اپنی رقم کے سود کا مطالبہ کیا (جو بہت بڑی رقم تھی) اس پر بنو مغیرہ نے کہا کہ الله کی قسم! ہم زمانہ اسلا م میں سود نہیں دیں گے، کیوں کہ الله اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر سے سود ختم فرما دیا ہے ۔ان کا یہ معاملہ مکہّ کے امیر حضرت معاذ بن جبل ( جنہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نام زد فرمایا تھا) کے پاس پیش ہوا، انہوں نے اس کی اطلاع رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھجوا کر فیصلہ طلب فرمایا، اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضي الله عنه کو لکھ بھیجا کہ ان کے سامنے یہ آیت پیش کرو، اگر وہ ایسا کر جائیں یعنی مان لیں تو انہیں صرف اپنا اصل مال لینے کا حق ہے اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں الله اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سنا دیں۔(تفسیر ابن کثیر، البقرة:278)

اس سے معلوم ہوا کہ نئے پرانے ہر قسم کے سود کو ختم کرنے کا حکم صرف مسلمانوں ہی پر نہیں، بلکہ ان غیر مسلم عوام پر بھی لاگو تھا جو بطور صلح یا معاہدہ اسلامی قانون کو قبول کر چکے تھے۔

سود خوروں کے متعلق شرعی حکم
سود خور (چاہے وہ ایک فرد ہو یا ادارہ) اگر سود سے توبہ نہ کرے، اگرچہ اسے حرام سمجھتا ہو تو اس پر سود چھڑوانے کے لیے جبر کیا جائے گا اوراگر یہ شخص جبر کے مقابلہ میں کسی گروہ یا جتھے کو اپنے ساتھ ملا کر لڑائی کرتا ہے تو اس صورت میں یہ باغی شمار ہو گا او راس سے قتال کیا جائے گا۔ ((البغاة) شرعاً ہم الخارجون عن الامام الحق بغیر حق․ درالمختار مع الرد، کتاب الجہاد، باب البغاة،4/261، دارالفکر بیروت)

او راگر کوئی شخص سود کو حرام نہیں سمجھتا تو ایسی حالت میں یہ شخص مرتد ہے، اگر اسلام قبول کر لے تو فبھا، نہ کرے تو اسے ارتداد کے جرم میں قتل کر دیا جائے گا ا ور اس کا تمام مال اس کی ملک سے زائل ہو جائے گا ،پھر جتنا مال اس نے مرتد ہونے سے قبل حاصل کیا تھا وہ مسلمان ورثاء کوملے گا اور جتنا مال ارتداد کے بعد حاصل کیا تھا وہ بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔(بدائع الصنائع، السیر، فصل فی بیان حکم المرتدین،15/431)

جو باغی قتل سے بچ کر فرار ہو جائے اس کا مال اس کی ملک سے زائل تو نہیں ہوگا ،بلکہ چھین کر اپنے قبضہٴ امانت میں رکھ لیا جائے گا۔ توبہ کرنے کے بعد لوٹا دیا جائے گا۔ (وتحبس اموالھم الیٰ ظھور توبتھم،درمع الرد، الجہاد، البغاة،16/389)

مسئلہ سود
سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سود کو تجارت کا اہم ستون کہا جاتا ہے۔لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ربوا کی حقیقت اور اس کی خرابیوں سے متعلق تحریر کریں۔

عربی زبان میں ربا کے لغوی معنی ”زیادتی“ کے ہیں اور آیت میں اس سے مراد مال کی وہ زیادتی ہے جو کسی چیز کے عوض میں نہ ہو، امام رازی رحمہ الله فرماتے ہیں :

”ربا کی دو قسمیں ہیں، ایک بیع وشراء کے اندر ربا اور دوسرے ادھار میں ربا اور جاہلیت عرب میں ربا کی یہ دوسری قسم زیادہ رائج ومعروف تھی کہ وہ اپنا مال کسی کو معین میعاد کے لیے دیتے تھے اور ہر مہینہ اس کا نفع لیتے تھے اور اگرمیعاد معین پر ادائیگی نہ کر سکا تو میعاد اور بڑھا دی جاتی تھی، اس شرط پر کہ سود کی رقم اور بڑھا دی جائے۔“(التفسیر الکبیر، البقرة: ذیل آیت278)

قرآن نے خرید وفروخت کے اندر سود اور ادھار میں سود دونوں کو حرام قرار دیا ہے، البتہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بیع وشراء کی چند مخصوص صورتوں کو بھی سود قرار دیا، جنہیں عرب سود نہ سمجھتے تھے۔

وہ یہ کہ چھ چیزوں کا آپس میں تبادلہ کمی وزیادتی یا ادھار پر نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ان چیزوں کا اگر آپس میں تبادلہ کیا جائے تو دو باتوں کا خیال رکھا جائے کہ دونوں چیزیں برابر سرابر ہوں اور نقد یعنی دست بدست بھی ہوں، کمی زیادتی یا ادھار ہوا تو یہ ربا ہے، وہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں، جو،کھجور اورانگور ہیں۔(حدیث سنن ترمذی میں ملاحظہ فرمائیں، سنن الترمذی، باب ماجاء أن الحنطة بالحنطة الخ 3/540، رقم:1240، داراحیاء التراث العربی)

پس بیع مزابنہ ( درخت پر لگے ہوئے پھلوں کو ٹوٹے ہوئے پھلوں کے بدلے میں اندازے سے فروخت کرنا) اور بیع محاقلہ (کھیت میں لگے ہوئے اناج وغیرہ کو صاف کیے ہوئے اناج کے بدلے فروخت کیا جائے) کو اسی اصول کے تحت سود قرار دے کر ان سے منع فرمادیا۔ (صحیح البخاری، رقم:2178 دارالشعب، القاھرة) کیوں کہ اس میں کمی وزیادتی کا احتمال رہتا ہے۔

لیکن اس میں یہ اشکال تھا کہ کیا یہ حکم انہی چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا ان چھ چیزوں پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جائے گا اور اگر قیاس کیا جائے تو علت کیا ہو گی؟ اور مزید کون کون سے صورت ربا قرار پائے گی؟جناب سیدنا فاروق اعظم رضي الله عنه کو یہی اشکال پیش آیا، اسی لیے فرمایا:
” آیت ربوا قرآن کی آخری آیتوں میں سے ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی پوری تفصیلات بتانے سے قبل ہی وفات پاگئے، لہٰذا ربا کو بھی چھوڑ دو اور ایسے معاملہ کو بھی چھوڑ دو جس میں ربا کا شبہ ہو۔“ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،3/380، رقم:2276)

یعنی فاروق اعظم رضي الله عنه کی مراد تو یہ تھی کہ معاملات کی اور کون کون سی صورتیں ایسی ہیں جو ربا میں داخل ہیں ،اس بارے میں پورا بیان نہیں ہوا، لہٰذا اب ہر وہ معاملہ چھوڑ دو جس میں ربا کا شبہ ہو، یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرآن میں ذکر کردہ ربا کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں فرمائی، کیوں کہ وہ تو عرب میں رائج تھا اور اسے علی الاعلان چھوڑا گیا ہے ، فاروق اعظم رضي الله عنه کو اس میں کیااشکال پیش آسکتا تھا؟

کمال بیوقوفی ہے ان لوگوں کی جو یہ کہتے ہیں کہ ربا کی آیت مجمل ہے اور اس پر سیدنا عمر فاروق کے مذکورہ قول کاحوالہ دیتے ہیں اور سود کے شبہ کے ساتھ ساتھ سود کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔

اس کا سبب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان کی آنکھوں کو یورپ کی ظاہری چمک دمک نے خیرہ کر دیا اور وہ صرف مغرب کی ظاہری ترقی اور نظام معیشت کو دیکھ کر مرعوبیت کے سبب سے ان کی اتنی حوصلہ افزائی اور وکالت کرتے ہیں، جیسا کہ ان کے زرخرید غلام۔

ابن عربی احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

”ان من زعم ان ھذہ الأیة مجملة فلم یفھم مقاطع الشریعة، فان الله تعالیٰ ارسل رسولہ الیٰ قوم ھو منھم بلغتھم، وانزل علیہ کتاب تیسیراً عنہ بلسانہ، ولسانہم، والربا فی اللغة الربا والمراد بہ فی الاٰیة:کل زیادة لا یقابلھا عوض․“(احکام القرآن لابن العربی: مسئلہ: کل زیادة لایقابلھا عوض1/485)

یعنی جس کا یہ گمان ہے کہ یہ آیت مجمل ہے اس نے شریعت کی تصریحات کو نہیں سمجھا، کیوں کہ الله تعالیٰ نے اپنے رسول کو ایسی قوم کی طرف بھیجا جو خود اسی قوم اور انہی کا ہم زبان تھا اور انہی کی زبان میں اپنے رسول پر کتاب نازل فرمائی اور ان کی زبان میں ”سود“ اس زیادتی مال کو کہتے ہیں جو کسی عوض کے مقابلے میں نہ ہو۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ زمانہٴ جاہلیت میں جو ربا متعارف تھا وہ یہ تھا کہ ایک شخص کسی کو قرض دیتا اوراس پر نفع اس طرح سے وصول کرتا کہ قرض کی ادائیگی میں جتنی تاخیر ہوتی اسی کے بقدر رقم قرض خواہ پر بڑھا دیتا تھا اور قرآن میں اسی ربوا کو حرام قرار دیا گیا او رمسلمانوں نے قرآنی حکم کے بعد سارے ربا اسی طرح چھوڑ دیے تھے ،جس طرح کہ شراب کو چھوڑ دیا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیوع کی کچھ مزید صورتوں کو سود قرار دیا، جنہیں عرب سود نہیں سمجھتے تھے۔

اب سمجھیے کہ زمانہ جاہلیت میں رائج شدہ ربا کو ربوا القرض یا ربوا القرآن کہا جاتا ہے اور حدیث میں ذکر کردہ صورتوں کو ربوا الحدیث کہا جاتا ہے۔ اور فاروق اعظم رضي الله عنه کا قول اور فقہاء کے تمام تر اختلافات اسی ربوا الحدیث کے بارے میں ہیں۔

جب کہ ربوا القرض یا ربوا القرآن کے بارے میں محدثین اور فقہاء مجتہدین میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں نہ اس کی تعیین میں کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی اس کی حرمت میں کوئی اختلاف ہے۔

اور افسوس صد افسوس! آج ہمارے معاشی نظام کی آبیاری جس چیز سے کی جارہی ہے وہ یہی ربوا القرض ہے، جس کی حرمت منصوص علیہ فی القرآن والاحادیث اور متفق علیہ ومجمع علیہ عند الفقہا والمحدثین ہے۔ (جاری)

Flag Counter