Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

16 - 17
اساتذہ کا ادب

محمد اسماعیل چنیوٹی، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس پاک ذات نے ہم پر بے شمار انعامات و احسانات فرمائے ہیں ۔ان انعامات و احسانات میں سے ایک بڑی قیمتی نعمت و احسان حصولِ علم میں لگنا ہے اور وہ علم بھی قرآن و سنت عطا فرمایا ہے ۔

اگر غور وفکر کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ علم ہمیں خود بخود اور گھر بیٹھے نہیں ملا، بلکہ اس علم کے ہم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ اساتذہ کرام ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ ”باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب“اس کے تحت ہم اپنے اساتذہ کرام کا جتنا ادب کریں گے اتنا ہی ہمارے علم میں برکت ،اضافہ اور نورانیت پیدا ہوگی۔

اور اگر خدانخواستہ ہم اساتذہ کرام کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب کرنے کے بجائے ان کو تکلیف دیتے ہیں ،ان کی بے ادبی کرتے ہیں،اور وہ ہماری عادات و اخلاق سے ناراض ہوتے ہیں یا ان کی دل شکنی ہوتی ہے تو پھر ہمں اپنے انجام سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے اور انجام برا ہونے میں شک نہیں کرنا چاہیے ۔کیوں کہ اس صورت میں ہمارا ہی نقصان ہوگا ،نہ کہ اساتذہ کا۔

ایک مقولہ مشہور ہے ”پتھر کو گھڑے پر مارو یا گھڑے کو پتھر پر مارو، دونوں صورتوں میں نقصان گھڑے کا ہی ہوگا“۔یہی حال طلباء کا ہے کہ طلباء اساتذہ کرام کو ناراض کریں یاخود طلباء اساتذہ کرام سے ناراض ہوں اور دل میں ان کے بارے میں بغض عداوت رکھیں اور غیبت کریں، دونوں صورتوں میں نقصان و خسارہ طلباء ہی کا ہوگا ۔اسی طرح مستقبل بھی طلباء ہی کا خراب ہو گا۔ اس لیے اپنے اساتذہ کو کبھی بھی ناراض نہیں کرنا چاہیے ۔ویسے بھی قدرتی بات ہے کہ اگر اساتذہ راضی ہوں تو دل کو قدرتی طور پر سکون و راحت و آرام ملتا ہے اور سبق پڑھنے کا مزہ بھی آتا ہے اور سبق یاد کرنے کو بھی دل چاہتا ہے، جس کے نتیجے میں اساتذہ راضی ہوتے ہیں اور دلی دعائیں دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کام یابی انسان کے قدم چومنے لگتی ہے تو اگر انسان یہ ساری کام یابیاں چاہتا ہے اور اپنے مستقبل کو سنوارنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ کبھی اساتذہ کو ناراض نہ کرے ان کا دل نہ دکھائے، بلکہ ہمیشہ ان کو خوش رکھے اور ادب کر کے دعائیں لے ۔آج کل اکثر طلباء اساتذہ کرام کو دعا کی درخواست کرتے ہیں لیکن وہ بھی خوش نصیب ہیں جن کے لیے اساتذہ کرام دعا کریں اگر چہ درخواست کے بعد، لیکن کس قدر خوش نصیب ہیں وہ طلباء کرام جو اساتذہ کرا م کی ایسی خدمت کرتے ہیں کہ اساتذہ خود دعا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنا نام ان طلباء میں شامل کریں جن کے لیے اساتذہ کرام خود دعا کرتے ہیں ۔

یہ اس وقت ہو سکتاہے جب ہم اساتذہ کرام کا دل وجان سے ادب کریں گے اور ادب میں درج ذیل امور کا لحاظ کیا جائے :
1..اساتذہ کرام کی عزت و احترام کرتے ہوئے ان کے سامنے اونچی آواز میں نہ بولا جائے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کی جائے، کیوں کہ یہ بھی بے ادبی ہے ۔

2..اساتذہ کرام کے ساتھ جب بھی بیٹھیں تو ان کے برابر میں نہ بیٹھیں، بلکہ تھوڑا سا ہٹ کر پیچھے بیٹھیں، خاص کر نمازوں میں کہ نماز کے بعد جب اساتذہ ساتھ بیٹھے ہوں تو تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر بیٹھیں، تا کہ اساتذہ اگر کھل کر بیٹھنا چاہیں تو ان کو آسانی ہو۔

3..اساتذہ کرام کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے جوتوں کو سیدھا کر کے رکھا جائے، خاص کر جب جوتے اٹھانے کا موقع ہو، جیسے کسی پروگرام کے موقع پر یا مسجد میں نماز کے وقت اساتذہ خود جوتے اٹھاتے ہیں وہ تو کسی کو کہہ بھی نہیں سکتے، لیکن طلباء کو چاہیے کہ اساتذہ کو جوتے نہ اٹھانے دیں، بلکہ خود اٹھائیں اور جوتے سیدھے کر کے رکھیں۔

4..اساتذہ کرام کے سامنے پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھیں، کیوں کہ یہ بھی بے ادبی ہے۔

5..اگر کوئی استاذ ایسے ہیں جن کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا یہ بھی اساتذہ کرام کا حق ہے ۔چناں چہ امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا کہ جب سے میرے استاذ حضرت حماد کا انتقال ہوا ہے اس وقت سے میں ہر نماز کے بعد ان کے لیے استغفار کرتا ہوں اور اپنے والد کے لیے بھی ۔اور مزید فرمایا کہ میں نے کبھی ان کی طرف تو دور کی بات، ان کے گھر کی طرف بھی پاؤں نہیں کیے ۔حالاں کہ میرے او ران کے گھر کے درمیان سات گلیاں ہیں۔یہ ہے ادب !!

6..اساتذہ کے ادب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اساتذہ کو ان کے نام سے نہ پکارا جائے، بلکہ کسی باادب و مہذب نام سے پکارا جائے ۔

حضرت امام احمد بن حنبل ادب کی وجہ سے استاذ کا نام نہیں لیتے تھے، بلکہ ہمیشہ ان کا ذکر ان کی کنیت سے کیا کرتے تھے ۔

7..اساتذہ کرام کی غیبت نہ کی جائے، اگر ان کی کوئی بات دل میں آئے تو اس کو اچھالنے کے بجائے بھلا دیا جائے، دل میں نہ رکھا جائے، کیوں کہ اس سے بغض پیدا ہوگا، جس کی وجہ سے علم میں نورانیت پیدا نہ ہوگی ۔

اس کے علاوہ اور بھی آداب ہیں جن کی رعایت کرنا ضروری ہے۔یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، اگر ان کا اہتمام کیاجائے تو انسان علم کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔لیکن اگر ان چیزوں پر عمل نہ کیا جائے تو انسان کی محرورمی کا سبب یہی چیزیں بن جاتی ہے ۔

ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا!
        رأیت أحق الحق حق المعلم
        واجبہ حفظا علی کل مسلم
        لقد حق ان یھدی إلیہ کرامة
        لتعلیم حرف واحد ألف درھم
ترجمہ: سب سے بڑا حق تو معلم ہی کا ہے اور اس کی رعایت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
واقعی وہ شخص جو ایک حرف سکھائے وہ زیادہ لائق ہے کہ اس کو ہزار روپے ہدیہ میں دیے جائے ۔

حضرت علی المرتضیٰ  کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جس سے میں نے ایک حرف بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں، چاہے تو وہ مجھے بیچ دے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑوں کو اللہ پاک نے جو اتنے بڑے بڑے رتبے اور مقام دیے ہیں یہ اساتذہ کی بے ادبی کی وجہ سے نہیں ملے، بلکہ انہوں نے اپنے اساتذہ کی انتہائی قدر کی، جس کی بنا پر اللہ پاک نے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔

حضرت مولانا زکریا کاندھلوی  فرماتے ہیں کہ یہ طے شدہ امر ہے اور عادة اللہ ہمیشہ سے یہی ہے کہ اساتذہ کا ادب و احترام نہ کرنے والا کبھی بھی اپنے علم سے نفع نہیں اٹھا سکتا۔

حضرت مولانا زکریا کاندھلوی  کا واقعہ ہے کہ جب انہوں نے حدیث پڑھنے کی ابتدا کی تو والد صاحب نے فرمایا کہ علم حدیث میں ہی تجھے پڑھاؤں گا، کیوں کہ اگر تو نے حدیث پاک کے کسی استاذ کی ذرا بھی بے ادبی و گستاخی کی تو مجھے یہ گوارا نہیں کہ تو حدیث پاک کی برکات سے محروم ہوجاوے ۔اگر میں خود پڑھاؤں گا، کیوں کہ میرا ادب تو جوتے کے زور سے کرنا ہے ۔اس لیے کسی اور سے آپ علم حدیث نہیں پڑھیں گے ۔

تو ان واقعات کو صرف کانوں کی لذت کے لیے نہیں سننا چاہیے، بلکہ ان کو پڑھ کر ہمارے اندر بھی جذبہ و ہمت اور یہ ارادہ ہونا چاہیے کہ اگر ہم اپنے علم میں نورانیت اور اس سے مستفید ہونا اور اپنے مستقبل کو چار چاند لگانا چاہتے ہیں تو اساتذہ کا دل وجان سے احترام و عزت کریں اور ان کے ادب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اساتذہ کرام کا اگر ہم ادب و احترام نہیں کریں گے تو اس سے ان کی عزت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ ذلت ہمارا مقدر بن جائے گی۔

فلہذا ہمیں اپنی اور اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے، آج ہم جتنا اپنے اساتذہ کرام کا ادب کریں گے اتنا ہی کل ہمارا ادب و احترام ہوگا، اگر نہیں کریں گے تو پھر ہمیں مستقبل میں اچھی امید نہیں رکھنی چاہیے، کیوں کہ مقولہ مشہور ہے ”جیسا کرو گے ویسا بھرو گے“۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور اساتذہ کرام کا انتہائی اخلاص سے ادب و احترام اور ان کی خدمت کرنے کی تو فیق عطا فرمائیں ۔
        انداز بیاں اگر چہ کچھ شوخ نہیں ہے
        شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات

Flag Counter