کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
ویب سائٹ پر سامان کی فروخت او راپنی ویب سائٹ پر دوسروں کے اشتہار چلانے کا حکم
سوال…1..کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں یوٹیوب کے طرز کی ویب سائٹ چلاتا ہوں جس میں فلمیں او رگانے ہوتے ہیں، اسی طرح میر ی ایک اور ویب سائٹ ہے جس پر میں موبائل، لیپ ٹاپ او رمختلف الیکٹرونک اشیاء فروخت کرتا ہوں، اس دوسری ویب سائٹ کا اشتہار میری پہلی ویب سائٹ پر چلتا ہے ،تاکہ جو آدمی اس والی ویب سائٹ پر آئے وہ اشتہار دیکھ کر دوسری والی ویب سائٹ پر آجائے اور وہاں سے خریداری کرے۔
2..میرا معاہدہ(www.amazon.com) ( جو کہ امریکا کی ای کامرس کی بڑی ویب سائٹ ہے) سے بھی ہے، میں اپنی ویب سائٹ پرامیزان کے…حلال پروڈکٹس کی تشہیر کرتا ہوں، مثال کے طور پر گھریلو سامان وغیرہ، اور گاہگ جب یہ چیزیں خریدتا ہے تو میں ان سے طے شدہ کمیشن لیتا ہوں۔
3..میں اپنی ویب سائٹ پر حلال کاروبار کرنے والوں کا اشتہار بغیر تصویر کے چلاتا ہوں اور اس پر پیسے لیتا ہوں، اب بتائیں شریعت کے پیش نظر میری آمدنی کا کیا حکم ہے؟
جواب…فلمیں او رگانوں کی ویب سائٹ چلانا حرام ہے اور اس ویب سائٹ پر اپنی دوسری ویب سائٹ کا اشتہار دینا بالکل مناسب نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنا کر اس پر سامان فروخت کرنا درست ہے، بشرطیکہ کوئی غیر شرعی چیزیں نہ فروخت کی جائیں اور خرید وفروخت کے تمام شرعی لوازمات کو ملحوظ رکھا جائے، ویب سائٹ پر بھی شرعی حدود کا خیال رکھا جائے کہ اس پر کوئی غیر اخلاقی اور خلاف شریعت مواد نہ ہو، اسی طرح اپنی ویب سائٹ پر کسی دوسرے کا اشتہار چلانا بھی درج بالا شرائط کے ساتھ درست ہے اور اس پر ملنے والی آمدنی جائز ہے۔
Amazon، ای کامرس ویب سائٹ کی چیزوں کی تشہیر اپنی ویب سائٹ پر کرنے کی ضروری تفصیلات موجود نہیں، مثلاً :اس سے کس قسم کی تشہیر مراد ہے؟ آیا گاہک اس دوسری ویب سائٹ کی چیزیں آپ کی ویب سائٹ سے ہی خریدے گا؟ یا پھر آپ کی ویب سائٹ پر موجود لنک سے وہ اس دوسری ویب سائٹ پر چلا جائے گا واور وہاں سے خود خریداری کرے گا؟ یا اس کے علاوہ کوئی اور صورت ہے ؟ لہٰذا اس بارے میں اصولی جواب دیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر گاہک آپ کی ویب سائٹ سے ہی اس دوسری ویب سائٹ کی چیزیں خریدتا ہے، یا پھر آپ کی ویب سائٹ سے وہ دوسری ویب سائٹ پر چلا جاتا ہے اور آپ کی ویب سائٹ اس دوسری ویب سائٹ پر جانے کا ذریعہ بنتی ہے، تو ان دونوں صورتوں میں آپ کا اس دوسری ویب سائٹ سے طے شدہ کمیشن لینا جائز اور درست ہے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ کمیشن کی کئی فاسد صورتیں انٹرنیٹ پر مروج ہیں، کئی ویب سائٹ اپنا ممبر بنانے پر کمیشن دیتی ہیں او رملٹی لیول مارکیٹنگ کی بنیاد پر کام کرتی ہیں، اس طرح کی کمپنیوں کے طریقہ کار پر دارالافتاء سے عدِم جواز کے فتاوی جاری ہوچکے ہیں۔
مروجہ گڑیوں کے استعمال اور گڑیوں یا تصاویر والے کمرے میں نماز پڑھنے کا حکم
سوال…1..کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ گڑیوں کے جواز پر اماں عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا گڑیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، جب پیغمبر صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے ان گڑیوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے ساتھ تشبیہ دی، بعض لوگ مذکورہ حدیث کو دلیل بنا کر گڑیوں کے جواز کے قائل ہیں، تو برائے مہربانی مذکورہ حدیث میں جو تلاویلات ہیں اور اس کا جو مطلب ہے اس کوو اضح فرمائیں۔
2..جس کمرے میں گڑیاں یا تصاویر ہوں ذی روح چیزوں کی تو کیا وہاں پر نماز فاسد ہوتی ہے، یعنی نماز واجب الاعادہ ہے؟
جواب…واضح رہے کہ تصویر کی طرح ذی روح کا مجسمہ بنانا بھی شرعاً ناجائز ہے، اور چوں کہ آج کل کی مروجہ گڑیاں بھی بالکل مجسمہ کی مانند ہوتی ہیں، لہٰذا ان کا استعمال شرعاً درست نہیں، جہاں تک تعلق ہے اس حدیث کا جس میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گڑیاں ہوتی تھیں اور وہ ان سے کھیلتی تھیں، تو اس کے متعلق بعض محدثین نے یہ فرمایاہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے ،جب تصویروں کے بارے میں حرمت نہیں آئی تھی اور بعض محدثین یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو جن گڑیوں کے متعلق رخصت دی گئی تھی وہ مکمل تصویریں نہ تھیں، لہٰذا اس حدیث سے آج کل کی مروجہ گڑیوں کے استعمال کے جواز پر استدلال درست نہیں۔
2..اگر کمرے میں اتنی بڑی تصویر یا مجسمہ ہو جو نمایاں نظر آتا ہو اور وہ نماز پڑھنے والے کے آگے، دائیں، بائیں، پیچھے یا اوپر کی طرف ہو تو اس کمرے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے او راسی طرح اگر تصویر فرش پر اس جگہ ہو جہاں سجدہ کیا جاتا ہو تو یہ بھی مکروہ ہے، البتہ اگر تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ وہ اگر زمین پر رکھی ہو اور کوئی متوسط بینائی والا آدمی کھڑا ہو کر دیکھے تو تصویر کے اعضاء کی تفصیل دکھائی نہ دے یا تصویر بڑی ہو لیکن فرش پر سجدہ کی جگہ میں نہ ہو تو اس صورت میں اس جگہ بلاکراہت نماز درست ہے، اور آج کل کی مروجہ گڑیاں بھی چوں کہ بالکل تصویر کی مانند ہوتی ہیں، لہٰذا ان کا بھی وہی حکم ہے جو تصویر کا ہے۔
گری ہوئی بڑی رقم مل جائے تو اس کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کو ایک دکان کے سامنے گری ہوئی بڑی رقم ملی ہے، اس نے اپنی والدہ سے ذکر کیا ،والدہ نے کہا کہ امام صاحب کے پاس یہ رقم رکھوا دیں وہ بہتر فیصلہ کریں گے اس رقم کے بارے میں، وہ رقم میں نے امام صاحب کو دے دی، اب اس رقم کو شرعی اعتبار سے کیا کرنا چاہیے؟ مزید یہ کہ وہ شخص جس کو رقم ملی ہے اس کے والد مقروض ہیں اور گھر کے حالات بھی بہتر نہیں ہیں، امام صاحب بخوبی جانتے ہیں، پوچھنایہ ہے کہ مذکورہ جو رقم ملی ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اور جس شخص کو یہ رقم ملی ہے اس کی دیانت داری کی بنا پر اس کے والد کی مدد کر سکتے ہیں یا نہیں؟ شرعی اعتبار سے مذکورہ رقم کی تقسیم اور مصرف کیا ہو گا؟ اس رقم کے مالک کا علم نہیں ہے، کتنا انتظار کرنا ہو گا؟
جواب…جس آدمی کو رقم ملی ہے وہ پوری کوشش کرکے مالک کو تلاش کرے، لوگوں سے پوچھ کر ، اعلان کرکے، اشتہار وغیرہ لگا کر، اگر مالک آجائے اور قم کی ٹھیک ٹھیک نشانیاں بتا دے تو رقم اس کے حوالے کر دے۔
لیکن اگر ایک سال تک مالک کا کچھ علم نہ ہو ، تو پھر یہ رقم مالک کی طرف سے مستحقِ زکوٰة کو دے دے اور اگر یہ آدمی خود محتاج ( مستحق) ہو تو اپنے استعمال میں بھی لاسکتا ہے اور والد صاحب کو بھی دے سکتا ہے۔
لیکن یہ بات واضح رہے کہ رقم خرچ کرنے کے بعد اگر مالک آگیا اور اس نے اپنی رقم کا مطالبہ کر لیا، تو رقم اس کو واپس دینا ہو گی۔
تعزیت کا مسنون طریقہ
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میت کے گھر پر جا کر دعا کرنا کیسا ہے؟ ہمارے علاقہ میں بہت زیادہ اختلاف چل رہا ہے، بعض حضرات کچھ نہیں کہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے گھر پر جاکر ایصال ثواب کے لیے دعا کرتے ہیں، او ربعض حضرات میت کو دفن کرنے کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دعا کے لیے آتا ہے تو وہ نہ آئے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ متنفر ہو جاتے ہیں او رکہتے ہیں یہ بدعت ہے؟ لہٰذا اس بارے میں مدلل او رمفصل تحریر فرماکر ممنون فرمائیں۔
جواب…تعزیت کا مقصد اقارب میت کے ساتھ غم خواری کرنا، ان کو صبر کی تلقین کرنااور تسلی دینا ہے، اس کے لیے حدیث شریف میں یہ دعا“:”أعظم الله أجرک وأحسن عزائک وغفرلمیتک“ ثابت ہے، اس موقع پر یہ دعا پڑھنا مسنون ہے، اس کے علاوہ اس طرح کا کوئی دوسرا مضمون بھی اختیار کیا جاسکتا ہے، جس سے اقاربِ میت کا غم ہلکا ہو، تسکین ہو اور فکر آخرت پیدا ہو، یہی تعزیت کی اصل حقیقت ہے، البتہ مروجہ طریقہ پر ہاتھ اٹھا کر اجتماعی طور پر دعا کرنا، یا میت کے ورثاء کا آنے والے لوگوں سے کہہ کر اس طرح دعا کروانا ثابت نہیں، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اس میں اختلاف نہ کیا جائے ایک دوسرے کو نرمی سے بتا دیں کہ ایسا نہ کریں، مروجہ طور طریقوں سے بچتے ہوئے اہلِ میت کے گھر پر جا کر تعزیت کی جاسکتی ہے۔
قرض پر منافع کی شرط لگانا سود ہے
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے موسی سے اپنے کام کے لیے دس لاکھ روپے لیے ہیں، (میں مرغی فارم کا مالک ہوں) اس رقم سے میں سامان، مثلاً: چوزہ، دانہ، دوائی، راشن، پانی وغیرہ لیتا ہوں اور جگہ بھی میری ذاتی ملکیت ہے، اس رقم کو میں اس طرح کام پر لگاتا ہوں کہ مجھے سو بوری دانہ کی ضرورت ہو تو انہی پیسوں سے خریدتا ہوں اور فی بوری دانہ پر موسی کو ڈیڑھ سو روپیہ دیتا ہوں، جب دو ماہ میں ہمارا مال بک جائے تو ہم اس کو اسی حساب سے، مثلاً :پانچ سو بوری دانہ پر 75000 روپے دیتے ہیں، اور موسی ہمارے نفع ونقصان میں شریک نہیں، بلکہ جب بھی وہ اپنے دس لاکھ روپوں کا تقاضا کرے مجھے دینے پڑیں گے، کیا یہ صورت جائز ہے؟ اگر نہیں تو متبادل جواز کا طریقہ کیا ہے؟
جواب… سوال میں مذکورہ معاملہ ( موسی کا آپ کو اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے رقم دینا) قرض ہے اور فی بوری پر ڈیڑھ سو روپے لینا قرض پر زیادتی ہے جو کہ صریح سود اور حرام ہے، لہٰذا اس معاملے کو جلد از جلد ختم کرنا ضروری ہے، جائز متبادل صورتیں یہ ہو سکتی ہیں:
1..دونوں آپس میں مضاربت کا معاملہ کر لیں ،جس کی صورت یہ ہے کہ پیسے ایک کے اور کام دوسرے کا ہو اور جس قدر نفع ہو گا اس میں دونوں شریک ہوں گے ، نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے، مثلاً :ایک کو نفع کا چالیس فیصد، دوسرے کو ساٹھ فیصد وغیرہ ، البتہ کسی کے لیے متعین رقم طے کرنا کہ فلاں کو اتنے ملیں گے، درست نہیں ہے ،اسی طرح نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے، پہلے نقصان کو نفع سے پورا کیا جائے گا اگر اس سے پورا نہ ہو تو پھر اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا اور مضارب (کام کرنے والا) اس نقصان کا ذمے دار نہ ہو گا۔
2..یا مشارکت کا معاملہ کر لیں، جس میں سرمایہ دونوں طرف سے ہو، نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے اور نقصان ہر شریک پر اس کے سرمایہ کے تناسب سے ہو گا، مضاربت ومشارکت کے اور بھی شرائط ومسائل ہیں جو بوقت ضرورت کسی عالم دین سے پوچھے جاسکتے ہیں۔
گارنٹی پر خریدوفروخت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل جو چیزیں گارنٹی پر فروخت کی جاتی ہے اور گارنٹی کی مدت کے دوران اگر وہ چیز خراب ہو جائے تو اس کے بدلے میں مشتری کو دوسری چیز دے دی جاتی ہے شرعاً یہ کیسا ہے؟
جواب… گارنٹی پر خریدنے اور بیچنے کی حقیقت یہ ہے کہ بائع اپنے اوپر اس بات کو لازم کر لیتا ہے کہ اتنی مدت کے دوران اگر اس چیز میں کوئی خرابی پائی گئی تو میں واپس لے لوں گا یا درست کروا دوں گا ، یہ بیع جائزہے ، کیوں کہ اگر بائع ایسے عیب کی وجہ سے بھی واپس لینے پر راضی ہو جو مشتری کے پاس جاکر پیدا ہوا، یااس کی اصلاح پر راضی ہو، تو یہ اس کی طرف سے اپنے اوپر رد اصلاح کا التزام ہے اور ایسا التزام درست ہوتا ہے۔