سیرت نبوی علی صاحبھا الصلوٰة والسلام میں انسانی زندگی کے اصلاح و فلاح کا بہترین نمونہ
مولانا سیّد رابع حسنی ندوی
مغربی دنیا لطیف انسانی جذبات سے عاری ہونے کی بناء پر خالص مادی و ملحدانہ زندگی کے بے رحم اثرات سے اکتا گئی ہے ۔”دین مسیح“سے اس کا تعلق چوں کہ صرف نام کا ہے،لہٰذا اس سے اس کو دینی اور روحانی خلا کو پر کرنے کا فائدہ حاصل نہیں ہوا ،ایسے کسی فائدہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہا ہے، جس کے ذریعہ وہ ناکامی ونامرادی کو دور کر سکے اور ضلالت و گم راہی سے نکل کر روشنی کی طرف آسکے ،اس جان کنی کے عالم میں اگر کوئی دین اس کی ضرورت کو پورا اور اس کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکتا ہے ،تو وہ ہے ”دین اسلام“۔
لیکن اسلام مخالف اہل سیاست اسلام کو خراب شبیہ میں پیش کرنے کے سلسلہ میں دنیا کے سامنے اسلام کی ایسی تصویر پیش کر رہے ہیں جو دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا تصور پیش کرتی ہے،حالاں کہ اسلام امن وسلامتی، اخوت ومحبت اور انسانیت کا مذہب ہے،اگر مغرب کے اہل فکر و اہل سیاست دنیا کے سامنے اسلام کی یہی تصویر پیش کرتے رہے تو دنیا اسلام سے اور دور ہوتی چلی جائے گی اور اس میں اسلام سے بدگمانی اور اعراض بڑھتا چلا جائے گا۔
ایسے حالات میں ہم مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مغرب کے سامنے اسلام کو اس طور پر پیش کریں کہ اسلام مغرب کا نجات دہندہ ہے ،جو اسے اخلاقی و معاشرتی تباہیوں پر مبنی زندگی سے نجات دلانے والا ہے، جس سے آج اہل مغرب عاجز آچکے ہیں اور اس سے بھاگ کر مشرق و مغرب میں صلاح و فلاح کے کسی حل کی تلاش میں ہیں ،اب اگر ایسی حالت میں اسلام کے صاف ستھرے چہرہ اور اس کے ہم دردانہ و خیر خواہانہ پہلو کو نہیں پیش کیا گیا تو اسلام ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل نہیں کر پائے گا،اور پراگندہ خاطرانسان کو سکون نہ مل سکے گا،اس وقت کا انسان ایسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہے جہاں اسے اپنے کرب و الم سے راحت و سکون میسر ہو ،اس سلسلہ میں متعدد مثالیں دنیا کے سامنے آرہی ہیں ،ایسے حالات میں داعیان اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسلام کے تعارف کا صحیح ،موثر اور دل کش طریقہ اختیار کریں ،اس لیے کہ انسانوں کی ہدایت اور انسانیت کی رہبری کی ذمہ داری انہی پر ڈالی گئی ہے ،ارشاد ربانی ہے :﴿کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر﴾کہ تم بہترین امت ہو ،تم کو اس لیے برپا کیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو۔
دعوت اسلام کے میدان میں کام کرنے والوں کی اس وقت کئی قسمیں ہیں ،ان ہی میں ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام کے نظام خیر و صلاح کو طاقت و شدت سے اختیار کر کے جبر و قہر کا تصور پیش کررہے ہیں اور اسی طریقہ کو اسلام کو غالب کرنے کے مقصد کے لیے اس کی اساسیات میں شمارکراتے ہیں ،حالاں کہ یہ عمل سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سراسر خلاف ہے،اس لیے کہ آپ کا طریقہ کار تو یہ تھا کہ آپ تو منافق کو قتل سے بھی احتراز کرتے تھے ،حالاں کہ آپ کو بخوبی علم تھا کہ منافق کافر سے زیادہ مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے ،لیکن آپ ایسا اس لیے کرتے تھے، تا کہ لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد تو اپنے ہی ساتھیوں کا قتل کردیتے ہیں ،یعنی محمد یہ سب سختی اقتدار کے حصول کے لیے کر رہے ہیں ،حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنی کوششوں کا یہ مقصد دیا تھا کہ :”ابتعثنا اللہ لنخرج الناس من عبادة العباد اِلی عبادة اللہ وحدہ ومن جور الأدیان اِلی عدل الاِسلام، ومن ضیق الدنیا اِلی سعتھا“(اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس لیے برپا کیا ہے کہ لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی کی طرف لائیں، مذاہب کے ظلم و جور سے نکال کر دین اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لائیں اور دنیا کی تنگی سے نکال کر اس کی وسعت کی طرف لائیں)۔
دوسرا طبقہ وہ ہے جو اسلام کے تعارف میں صرف نظریاتی چیزوں کو پیش کرتا ہے اور اسلامی نظریات کو مغربی نظریات کے مروجہ سانچہ میں ڈھال کر لوگوں کے سامنے رکھتا ہے ،لیکن افسوس کہ اسے یہ نہیں معلوم کہ مغربی افکارو نظریات مرور وقت کے ساتھ بالکل فرسودہ ہو چکے ہیں کہ خود اہل مغرب اب انہیں پس پشت ڈال رہے ہیں ،کیوں کہ نہ تو اس میں زندگی کے لیے کچھ راحت و سکون ہے اور نہ دل و دماغ کے لیے ایک پَل کاقرار ہے،اسی وجہ سے اہل مغرب اس طرح کے نظریات پر مبنی زندگی کو چھوڑ کر بھا گ رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی کی تمام تر ضرورت کو خیرباد کہہ کر ہرطرح کے قید و بند سے آزاد زندگی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب نے خوب ترقی کی ،اس نے شہری ترقیات ،معاشی وسائل ،فوجی،اقتصادی وسیاسی نظام کو بہتر بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ،اس نے ذہنی الجھنوں کو ختم کرنے اور انسان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ممکنہ حد تک تمام کوششیں کرڈالیں، لیکن اس کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں ،ان کا کوئی ثمرہ نظر نہیں آیا،آج مغرب کے نوجوانوں کی حالت ایسی بدتر ہوگئی ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے دردر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ،اس کا سبب صرف اخلاقی گراوٹ اور ذہنی پراگندگی ہے،جس سے آج پورا مغربی معاشرہ دو چار ہے ،یہ در اصل ان کی دینی و اخلاقی پابندیوں سے آزاد تہذیب کا نتیجہ ہے اور یہی دو چیزیں ان کے ذہنی کرب اور نفسیاتی بے چینی و بے قراری کا سبب ،اور ان کی اخلاقی بیماریوں اور روحانی امراض کی وجہ ہے ،چناں چہ یہ امراض تبھی دور ہوں گے جب وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کو گلے لگائیں گے اور خاص طور سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا جزو لاینفک بنائیں گے ،کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مخلوق کو اپنے خالق سے تعلقات استوار رکھنے کا حکم دیا ہے اور اعتدال و میانہ روی کے ساتھ راحت وسکون کے ذرائع کو استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا ہے، صرف دنیاوی لذتوں کو اپنا مقصود نظر اور عیش و آرائش کے وسائل کوہی اپنا مقصد حیات بنانے سے منع فرمایا ہے ،ساتھ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ضروریات زندگی سے دست برداری اور رہبانیت کی مخالفت کی ہے اور ارشاد ربانی ہے کہ:﴿قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق قل ہی للذین امنوا فی الحیاة الدنیا خالصة یوم القیامة﴾․
دنیاوی زندگی کے تعلق سے صحیح نظریہ یہ ہے کہ اس کی تمام نعمتیں محدود اور ختم ہونے والی ہیں اور یہ دنیا دھوکے کا سامان ہے ،لہٰذا اس کے سلسلہ میں اعتدال پسندی کی راہ اختیار کی جائے اور دل کو اس سے اس طور پر منسلک کیا جائے کہ اس کے لیے اس کو چھوڑنا دشوار نہ ہو۔
آج مغرب اپنے خود غرضانہ اقتصادی نظام کو چھوڑ کر کسی نئے اقتصادی نظام کا محتاج نہیں ،وہ اپنی خود غرضانہ طبیعت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اختیار کردہ سیاسی نظام کو ترک کر کے کسی دوسرے سیاسی نظام کی ضرورت نہیں سمجھتا ،کیوں کہ اس نے اپنے اختیار کردہ نظام کے سایہ میں تما م تر دیگر ترقی یافتہ نظاموں کا تجربہ کر لیااور علوم وفنون کے تمام مدارج طے کر لیے ہیں ،تو اب وہ مزید کسی نئے نظام کا خواہاں نہیں ،اگر اسے کسی چیزکی ضرورت ہے تو صرف قلبی و ذہنی اطمینان و سکون کی ہے ،جسے اس کا اختیار کردہ سیاسی واقتصادی نظام نہیں پورا کر پارہا ہے ،اب اگر کوئی چیز قلبی اطمینان و راحت کا سبب بن سکتی ہے ،تو وہ صرف انبیا کرام علیہم السلام کی بتائی ہوئی تعلیمات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایات ہیں اور انسانی معاشروں میں اس کی کمی ہے۔
داعیان اسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معتدل انداز میں وسائل زیست سے لطف اندوزی کا زندہٴ جاوید نمونہ پیش کریں اور ان کے استعمال میں اسلام کی تعلیمات کو اختیار کریں اور یہ چیز علمی طریقہٴ کار کے بجائے عملی طریقہ کو اختیار کرنے سے حاصل ہوگی ،لیکن علمی طریقہٴ کار کو اس نظریہ کا معاون و مساعد ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔لہٰذا ضرورت ہے کہ اسلام کو سنت نبوی اور صحابہ کرام کے طریقہ کے مطابق پیش کیا جائے ،اس لیے کہ ان دونوں کے علاوہ کسی اور طریقہ میں انسانی مسائل و مشکلات کا علاج نہیں ہے۔