Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

13 - 17
نبی کریم ﷺ کی اطاعت

حکیم ا لامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
	
اب اس مثال پر وہ شبہ نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ سے تو بعض لوگ اُلجھتے ہیں تو الله تعالیٰ سے اُلجھنا بھی جائز ہو او رگورنمنٹ سے جو بعض لوگ اُلجھتے ہیں تو وجہ یہی ہے کہ گورنمنٹ کو تو معلوم نہیں ہے کہ اُن کی ضروریات کیا ہیں؟ اس وجہ سے کبھی قانون کے اندر اُن کی رعایت میں فروگذاشت ہو جاتی ہے، مثلاً پہلے سرکاری ملازموں کو جمعہ کے واسطے چھٹی نہیں ہوتی تھی، جب اس کے لیے درخواست دی گئی اور اہمیت ظاہر کی گئی تو گورنمنٹ نے کہا کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ یہ اتنی ضروری بات ہے۔ تو خدا تعالیٰ کی نسبت تو یہ احتمال نہیں کہ شاید اُن کو ہماری کسی ضرورت کی خبر نہ ہو ۔ پس یہ شبہ بھی جاتا رہا۔

سمع وطاعت اختیار کرو
خلاصہ یہ ہے کہ سوائے اس کے کچھ چارہ نہیں کہ سمعنا واطعنا (سنا ہم نے او راطاعت کی) کہیں مولانا فرماتے ہیں #
        فہم وخاطر تیز کردن نیست را
        جز شکستہ مے نگیر فضل شاہ
ترجمہ:”فہم وخاطر تیز کرنا یہ حق تک پہنچنے کی راہ نہیں ہے، بلکہ شکستگی کی ضرورت ہے۔ بجز شکستہ دلوں کے فضلِ خداوندی کسی کو قبول نہیں کرتا۔“
        ہر کجا پستی ست آب آنجا رود
        ہر کجا مشکل جواب آنجا رود
        ہر کجا دردے دوا آنجا رود
        ہر کجا نجے شفا آنجا رود
        سالہا تو سنگ بودی دل خراش
    آزموں را یک زمانے خاک باش
اب تک بہت مزاحمتیں کی ہیں اور دیکھا کیا ظلمت پیدا ہوئی؟ اب اطاعت کرکے دیکھو، کیا نور پیدا ہوتا ہے #
        در بہاراں کے شود سر سب سنگ
        خاک شو تا گل بروید رنگ برنگ
        چوں تو یوسف نیستی یعقوب باش
        ہمچو او با گریہ وآشوب باش
شاید کوئی کہے کہ ہم تو ناز کرتے ہیں۔ چناں چہ بعض کو یہ خبط ہوتا ہے تو فرماتے ہیں #
        ناز را روئے بباید ہمچو ورد
        چوں نداری گرد بدخوئے مگرد
ناز کے لیے گلاب جیسے چہرہ کی ضرورت ہے، جب ایسا چہرہ نہیں رکھتے بد خوئی کے نزدیک بھی نہ جاؤ۔ یعنی جب تم مخصوصین میں سے نہیں ہو تو تم کو ناز نہ کرنا چاہیے، بلکہ نیاز مند ہو کر رہو۔
        عیب باشد چشم نابیناؤ باز
        زشت باشد روئے نازیباؤ ناز
یعنی جس طرح کور چشم کا کھلا ہونا عیب ہے اور بد صورت ہو کر ناز کرنا برا ہے، اسی طرح ناقصین کو ناز کرنا نازیبا ہے۔

حکایت
ناز پر مجھے یاد آگیا کہ ایک شخص تھا گنوار، اُس نے ایک گھوڑے کو ناز کرتے ہوئے دیکھا او رمالک اُس کو پیار کر رہا تھا ،آپ نے کہا کہ آج سے ہم بھی ناز کریں گے۔ بس آپ گھر پہنچے اور بیوی سے کہا کہ ہمیں گھوڑا بناؤ، وہ بھی ایسی ہی تھی، کہنے لگی اچھی بات ہے اور انہیں رسی سے باندھ دیا اور ایک جھاڑ وپیچھے باندھ کر دم لگا دی۔ پھر آپ نے کہا کہ اب ہمیں دانہ کھلاؤ، اُس نے دانہ لا کر سامنے رکھا۔ بس آپ نے ناز کرنا شروع کیا ،کبھی اس طرف منھ پھر لیتے ہیں، کبھی اس طرف منھ پھیرلیتے ہیں، کبھی دولتی مارتے ہیں۔ اتفاق کی بات وہاں قریب ہی میں آگ بھی تھی، جب آپ نے بہت دولتیاں پھینکیں تو جھاڑو میں آگ لگ گئی، بیوی نے شور مچانا شروع کیا کہ ارے! دوڑو کہ میرا گھوڑا جلاجاتا ہے۔ لوگوں نے خیا ل کیا کہ اس کے یہاں گھوڑا کہاں ہے؟ یہ ویسے ہی ہنسی کرتی ہے !اس وجہ سے کوئی نہ گیا۔ بس آپ جل کر رہ گئے… تو حضرت بعض ناز ایسا بھی ہوتا ہے، اس لیے فرماتے ہیں #
        ناز را روئے بباید ہمچو ورد
        چوں نداری گرد بدخوی مگرد
یعنی ناز کے لیے خصوصیت وکمال کی ضرورت ہے، جب تم ناقص ہو تو ناز نہ کرنا چاہیے۔

مطلب یہ ہے کہ جب آپ مخصوص نہیں تو نیاز مند ہو کر رہنا چاہیے، گستاخی نہ کرنا چاہیے، والله! یہ کھلی ہوئی بغاوت ہے کہ خدا کا حکم سن کر کہیں کہ یہ کیوں ہوا؟

شبہ کا جواب
اب اگر کوئی کہے کہ ہم جو اعتراض کرتے ہیں تو مولویوں پر کرتے ہیں، خدا تعالیٰ پر نہیں کرتے، کیوں کہ ہمارا گمان یہ ہے کہ مولویوں نے یہ مسئلے گھڑلیے ہیں تو سنیے کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ہائی کورٹ سے فیصلہ ہوا او رامین آکر قرقی کر دے اور آپ اس سے الجھیں اورکہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہوا ہے، مجھے تسلیم نہیں۔ جب اس کی وجہ سے آپ پر مقدمہ قائم ہوتو آپ عدالت میں جائیں اور یہ کہیں کہ میں نے پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ میں نے ہائی کورٹ کے ججوں پر اعتراض کیا ہے کہ وہ قانون کو سمجھے نہیں تو کیا یہ عذر آپ کا مسموع ہو گا؟ ہر گز نہیں۔ ضرور آپ کو یہی جواب ملے گا کہ یہ اعتراض حقیقت میں پارلیمنٹ ہی پر ہے، کیوں کہ پارلیمنٹ ہی نے یہ تجویز کر دیا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج قانون کو دوسروں سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ پس جو مطلب قانون کا وہ سمجھیں پارلیمنٹ کا وہی حکم ہے تو اسی طرح علماء ورثة الانبیاء ہیں، الله اور رسول کے قانون کو وہ زیادہ سمجھتے ہیں، اگر ان کے ساتھ آپ اُلجھتے ہیں، تو وہی نتیجہ ہو گا جو کہ ہائی کورٹ کے جج کے ساتھ اُلجھنے سے ہوتا ہے، کیوں کہ جب ہائی کورٹ کے جج کوئی حکم اپنی طرف سے نہیں دیتے تو یہ علماء کیا اپنے گھر سے لائے ہیں؟ #
        نیا وردم از خانہ چیزے نخست
        تو دادی ہمہ چیز من چیزتست
یعنی علماء اپنے گھر سے کوئی حکم نہیں لائے، جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں خدا ور رسول کا فرمودہ بیان کرتے ہیں۔

یہ بھی جو کہتے ہیں حدیث وقرآن سے کہتے ہیں، پھر ان سے کیوں اُلجھتے ہو؟ ہم لوگ مولوی کہلاتے ہیں، مگر ہم کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ ہم ملکی قوانین کو نہیں جانتے تو اوروں کو یہ کہتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے کہ ہم علوم شرعیہ میں ماہر نہیں؟! اور جیسا کہ جب ہمیں ضرورت ہوتی ہے بلاتکلف وکلاء سے دریافت کرکے عمل کر لیتے ہیں، ایسا ہی اور لوگ وقت ضرورت مسئلہ شرعیہ ہم سے پوچھ کر عمل کر لیا کریں اور جب ہم اُن سے نہیں اُلجھتے تو اور لوگ ہم سے کیوں اُلجھیں؟!

یہ اعتراض کہ مولوی کسی کام میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوتے؟!
آج کل لوگ کہتے ہیں کہ مل کر کام کرنا چاہیے، مولوی چوں کہ الگ الگ رہتے ہیں، اس لیے ترقی نہیں ہوتی۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ مولوی آپ کی بات میں تابع ہو کررہیں، سو اس طرح تو وہ آپ کے شریک ہو نہیں سکتے۔ مل کر اگر کام کرنا چاہتے ہو تو طریقہ سے کرو اور اس کا فیصلہ میں نے یہ کیا ہے کہ جو ہم کو معلوم نہ ہو وہ ہم آپ سے پوچھ کر کریں اور جو آپ کو معلوم نہ ہو وہ آپ ہم سے پوچھ کر کریں۔ طریقہ تو تمدن کا یہ ہو سکتا ہے، یہ نہیں کہ علوم شرعیہ میں بھی آپ ہی کی رائے کو مانا جاوے۔ کیوں کہ جیسا کہ قانون کے سمجھنے میں ہم غلطی کریں گے ایسا ہی علم شریعت میں آپ غلطی کریں گے۔ آپ ہی بتلائیے کہ جس نے پچیس برس دین کی خدمت کی ہو وہ دین کو زیادہ سمجھے گا یا جس نے دین کی خدمت ہی نہیں کی ،یا کی ہے مگر کم وہ زیادہ سمجھے گا؟ عجیب بات ہے کہ مقدمات تو سب صحیح اور نتیجہ غلط ۔ ہجے تو تبت اور رواں بطخ، ہمارے بھائی جیسے جب ہجے کرتے ہیں تو یوں کرتے ہیں تَابا زبر تب، بَا تَازَبر بت اور جب اس کو رواں پڑھتے ہیں تو بطخ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بھائی مقدمات تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان مقدمات کو ملانے سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ مقدمات تو سب مانتے ہیں، مگر نتیجہ مسلم نہیں۔ غرض یہ کہ علماء جو مسئلہ بتلائیں وہ خدا اور رسول ہی کا حکم ہے، اس پر اعتراض کرنا خدا اور رسول ہی کے حکم پر اعتراض کرنا ہے۔

عوام پر علماء کا اتباع لازم ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ علماء سے غلطی نہیں ہوتی، غلطی ہوتی ہے۔ مگر جب تک کہ وہ خود اپنی غلطی کو نہ سمجھیں آپ کو حق نہیں کہ اُس کو غلط سمجھ کر رد کر دیں۔ اگر علماء سے غلطی ہو گی تو علماء ہی اس کو سمجھیں گے اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہر مولوی کے معتقد ہو جاؤ، ہر بات کو مان لو، ہاں !جس پر بھروسہ ہو اور اطمینان ہو اس کا اتباع کرو ہاں! جو خود صاحب علم ہو اور کسی بات کو سمجھنا چاہے تو اس کو حق ہے سمجھنے کا، لیکن جن کو علوم دینیہ کی مہارت نہیں ہے، ان کو یہی چاہیے کہ علماء کا جو فتویٰ ہو اُس پر عمل کر لیا کریں اور سمجھ میں آوے، یا نہ آوے، چوں وچرانہ کریں۔ ہاں! اگر اسی بات میں شبہ ہو کہ یہ حکم شریعت کا ہے بھی یا نہیں تو اس کی تحقیق کر لیں، اگر ایک عالم سے تسلی نہ ہو دوسرے سے معلوم کر لیں ۔یہ ہے مضمون ۔اس لفظ داعی میں کوئی مضمون باہر سے نہیں لیا گیا۔

توحید کے ساتھ اقرار رسالت بھی ضروری ہے
اسی کو کہہ رہے ہیں ﴿یقومنا اجیبوا داعی الله وامنوا بہ﴾یعنی کہنا مانو الله کے منادی کا اور الله کے ساتھ ایمان لاؤ تو آمنوابہ تفسیر ہے اجیبوا کی کہ کہنا کیا مانو؟یہ مانو کہ الله کے ساتھ ایمان لاؤ اورآمنوا بہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ داعی پر ایمان لاؤ اور یہ معنی زیادہ چسپاں ہیں، کیوں کہ وہ جن یہودی تھے، حق تعالیٰ کے ساتھ پہلے ہی سے ایمان رکھتے تھے، صرف حضور صلی الله علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے تھے، اس لیے ان سے حضور پر ایمان لانے کو کہا گیا اور یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف توحید کا قائل ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق بھی ضروری ہے، مسلمانوں کے مجمع میں یہ مضمون بھی مستنبط کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کل مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جو رسالت کے ماننے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ اصل مقصود توحید ہے۔ اگر کوئی نبوت کا منکر ہو تو ناجی (نجات یافتہ) ہے۔ اس سے آگے اور ترقی کی ہے کہ بلکہ جو توحید کا منکر ہو وہ بھی ناجی ہے ،کیوں کہ توحید امر طبعی ہے اور امر طبعی کا کوئی منکر ہو نہیں سکتا، جو زبان سے اُس کا انکار کرتا ہے وہ بھی درحقیقت اُس کا قائل ہے، خیال تو کیجیے کہ کیا آفت نازل ہو رہی ہے؟!

منکر رسالت کا رد
ایک صاحب اس مسئلہ کے قائل مجھے ملے ہیں، میں نے اُن سے کہا کہ اس کے تو آپ قائل ہیں کہ بدون توحید کے نجات نہیں، محض نبوت کے مسئلے میں آپ کو کلام ہے تو سنیے! توحید بغیرنبوت کے مانے ہوئے ہو نہیں سکتی۔ پس نبوت کا انکار کرکے توحید بھی نہ رہے گی ،کیوں کہ تو حید کے معنی ہیں حق تعالیٰ کو جمیع صفات کمال کے ساتھ متصف ماننا اور ان میں سے ایک صفت صدق بھی ہے۔ تو جب خدا تعالیٰ نے فرمایا﴿ محمد رسول الله﴾ اور آپ نے انکار کیا نبوت کا، تو انکار کیا اس فرمان کا اور اس کا انکار صفت صدق کا انکار ہے، تو حید کا انکار ہو گیا۔ تو اگر اصل مقصود توحید ہی ہو تو تب بھی نبوت کا ماننا اس لیے ضروری ہو گا کہ بغیر اُس کے توحید ہو نہیں سکتی۔ میں نے کہا اس کا جواب آپ قیامت تک نہیں دے سکتے۔

آج کل وہ زمانہ ہے کہ ہر شخص مجتہدبن رہا ہے۔ گو علم دین سے ذرا بھی مس نہ ہو #
        تو ندیدی گہے سلماں را
        چہ شناسی زبان مرغاں
تم نے سلیمان علیہ السلام کو کبھی نہیں دیکھا تو پرندوں کی زبان کیسے سمجھ سکتے ہو؟ یعنی تم نے علم دین کبھی حاصل نہیں کیا تم شریعت کو کیا سمجھ سکتے ہو؟

اس لیے ضرورت ہے کہ اُن کا جہل ان پر ظاہر کیا جاوے، بلکہ مجھے تو اس کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ مولوی کبھی ایسا بیان بھی کر دیا کریں کہ کوئی نہ سمجھیں، تاکہ ان لوگوں کا اپنے فہم پر ناز تو ٹوٹے۔ ایک مرتبہ دیوبند سے ایک وفد علماء کا شملہ گیا تھا۔ میں بھی اُن کے ہم راہ تھا۔ وہاں ہم میں سے ایک صاحب کا وعظ ہوا وہ مضمون نہایت دقیق تھا۔ اس لیے کوئی نہیں سمجھ سکا۔ بعد کو مجھے معلوم ہوا کہ کوئی نہیں سمجھا اور لوگوں نے اعتراض بھی کیا کہ اس وعظ کی یہاں کیا ضرورت تھی؟ طلباء ہی کے مجمع میں بیٹھ کر تقریر کر دی ہوتی!! میں نے کہا کہ ہم کو تو دعویٰ توڑنا تھا کہ آپ سمجھ لیں کہ آپ ایسے محقق ہیں کہ سمجھانے سے بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے وہ لوگ بہت شگفتہ ہوئے اور کہنے لگے کہ واقعی ہمارے مرض کا علاج ہو گیا اور غیب سے علاج ہوا اور یہی بہتر ہے #
        باشد کہ از خزانہ غیبش ووا کندد
کبھی غیب سے بھی علاج ہو جاتا ہے۔

تو اس لیے ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ بیان میں ایک وعظ تو گٹھل(مشکل) کردیا کریں ،اب غریب علماء تو اپنے اوپر دقت اختیار کرکے آسان کرتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ علم دین ہے ہی آسان، اس لیے خود بھی مجتہد بننے لگتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وہ جن، چوں کہ بوجہ یہودی ہونے کے توحید کے پہلے ہی سے قائل تھے، صرف حضور صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے، اس لیے آمنوابہ کی یہ تفسیر بہت مناسب ہو گی کہ حضور صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لاؤ۔

عمل صالح ایمان کے لیے لازم ہے
اور ایک بات یہ بھی سمجھ لینے کی ہے کہ امنو ابہ کے ساتھ واعملوا صالحا کیوں نہیں فرمایا؟ یہاں سے تو گویا سہارا ملے گا بعض کو کہ ایمان کافی ہے، اعمال صالحہ کی کوئی ضرورت نہیں… تو سمجھو کہ اس کے ذکر نہ کرنے سے یہ بتلانا ہے کہ عمل صالح تو ایمان کے لیے لازم غیر منفک ہے کہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں۔ دیکھو! اگر حاکم کہے کہ رعیت نامہ داخل کر دو تو اس کے کہنے کی ضرورت نہیں کہ قانون پر عمل بھی کرنا۔ میں اس کی مثال یہ دیا کرتا ہوں کہ کسی شخص نے قاضی کے کہنے سے کہا کہ میں نے اس عورت کو قبول کیا۔ کچھ دنوں تک تو دعوتیں ہوتی رہیں، اس لیے کسی چیز کی ضرورت نہ ہوئی، لیکن دو چار روز کے بعد نمک لکڑی کی ضرورت ہوئی تو بیوی نے فرمائشیں کرنی شروع کیں۔ اب وہ گھبرایا اور پہلوتہی کرنی شروع کی، جب بیوی نے بہت دق کیا تو کہنے لگا کہ سنو بیوی! میں نے صرف تمہیں قبول کیا تھا، نمک لکڑی کو قبول نہیں کیا تھا۔ تو اگر آپ کے سامنے اس کا فیصلہ آوے تو آپ فیصلہ میں کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ بیوی کا قبول کرنا ان سب چیزوں کا قبول کرنا ہے تو اسی طرح ایمان لانا سب چیزوں کاقبول کرنا ہے، اس لیے آمنوا بہ کہنا کافی ہو گیا اور واعملوا صالحا کی ضرورت نہیں ہوئی، کیوں کہ جو خدا رسول کو مانے گا اس کو سب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔

ایمان وعمل صالح کا ثمرہ
آگے اس کا ثمرہ مرتب کرتے ہیں کہ﴿یغفرلکم من ذنوبکم﴾ اگر ایسا کرو گے توتمہارے گناہوں کو معاف کر دیں گے۔ اس آیت میں من یا تو ابتدائیہ ہے کہ گناہوں سے مغفرت شروع ہو گی اور اس میں اشارہ ہے کہ اتصال ہو گا ،یعنی ایک سرے سے گناہ معاف ہوتے چلے جائیں گے یامن تبعیضیہ ہو کہ جن گناہوں کا اب تدارک نہیں ہو سکتا، مثلاً شراب خوری وغیرہ، وہ معاف ہو جائیں گے۔ باقی جن کا تدارک ہو سکتا ہے وہ معاف نہیں ہوں گے، جیسے کہ مثلاً ایک شخص نے کسی سے ہزار روپے چھین لیے او راگلے دن ہو گئے مسلمان تو وہ روپیہ ادا کرنا پڑے گا، معاف نہیں ہو گا۔ اب میری تقریر سے یہ اشکال جاتا رہا کہ نرے ایمان پر گناہ معاف ہو جاویں گے، کیوں کہ معلوم ہو گیا کہ ایمان کے لیے عمل صالح لازم ہے اور یہ بھی ایک جواب ہے کہ صرف ایمان پر بھی کبھی نہ کبھی تو مغفرت ہو ،گو کہ دخول نار کے بعد ہی سہی، مگر یہ طالب علمانہ جواب ہے۔ آگے فرماتے ہیں﴿ویجرکم من عذاب ألیم﴾اگر ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی لیا جاوے تو عذاب الیم سے عذاب مطلق مراد ہو گا کہ ہر طرح کے عذاب سے پناہ دیں گے اور اگر نرا ایمان لیا جاوے اور اس کے ساتھ عمل صالح نہ ہو تو عذاب الیم سے مرادعذاب مخلد ہو گا کہ ہمیشہ عذاب نہیں ہونے کا۔ یہ تو آیت کی تفسیر ہو گئی۔

جنات کا وجود
اب اس آیت کے متعلق ایک مسئلہ بھی بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ یہاں جنوں کا مکالمہ ذکر کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جنوں کا وجود ہے، آج کل اس میں بھی اختلاف ہے اور اختلاف ایسا عام ہو گیا ہے کہ ہر چیز میں اختلاف ہے، جیسے ایک مولوی صاحب کے شاگرد بد استعداد تھے، جب وہ کتابیں ختم کرکے جانے لگے تو استاد سے کہنے لگے کہ مجھے کچھ آتا جاتا تو ہے نہیں، لوگ مجھ سے مسئلے پوچھیں گے تو میں کیا بتلاؤں گا؟ استاد نے کہا کہ تم یہ کہہ دیا کرنا کہ اس میں اختلاف ہے۔ غرض یہ کہ جب وہ وطن پہنچے تو انہوں نے یہی طرز اختیار کیا کہ جو شخص ان سے کوئی مسئلہ پوچھتا، وہ یہی کہہ دیتے کہ علماء کا اس میں اختلاف ہے، لوگ اُن کے بڑے معتقد ہوئے کہ یہ بہت وسیع النظر ہیں۔ آخر ایک شخص یہ راز سمجھ گیا، اس نے کہاکہ ”لا الہ الا الله“ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ انہیں تو وہی ایک جواب یاد تھا، کہنے لگے اس میں اختلاف ہے۔ بس لوگ سمجھ گئے کہ انہیں کچھ نہیں آتا ،سو اس وقت تو یہ بات ہنسی کی تھی، مگر آج سچی ہو گئی کہ ”لا الہ الا الله“ میں بھی اختلاف ہے، خدا تعالیٰ تو کہیں کہ جن ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ نہیں اور بنا انکار کی کیا ہے ؟ محض یہ کہ ہم نے نہیں دیکھے میں کہتا ہوں کہ جب تک امریکا نہیں دیکھا تھا کیا اس وقت امریکا معدوم تھا یا غیر معدوم تھا؟ سو معدوم تو نہ تھا تو اگر آدمی کسی چیز کو نہ دیکھے تو اس کا نہ دیکھنا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ موجود نہیں۔ تو اگر حق تعالیٰ جنوں کی خبر نہ دیتے تو بھی محض غیر مرئی ہونے پر انکار کی گنجائش نہ تھی۔ دیکھیے! مادہ کو کسی نے دیکھا نہیں او رپھر مانتے ہیں اور لطف یہ کہ مادہ کو خالی عن الصورة مان کر قدیم مانا ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس کو دیکھا ہے؟ ہر گز نہیں، بلکہ محض دلیل سے قائل ہوئے ہیں۔ گو وہ دلیل بھی لچر ہے تو اگر ہم خدا کے فرمانے سے کسی چیز کے قائل ہوں تو کیا حرج ہے؟

ہر بیماری کو جن کا اثر سمجھنا
ایک اور بات کہتاچلوں کہ جنوں کے ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ہر بیماری بھی جن ہیں، آج کل جہاں کوئی بیماری ہوتی ہے بس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن کا اثر ہے، اگر یہ خیال ہو کہ جن انسان کے دشمن ہیں ،اس کے اثر سے کیا تعجب ہے؟ تو سمجھ لو کہ اگر دشمن ہیں تو ہوا کریں، خدا تعالیٰ حافظ ہیں، فرماتے ہیں:﴿ لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر الله﴾ترجمہ:” واسطے اُن کے فرشتے ہیں یکے بعد دیگرے،حفاظت کرنے والے بندہ کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے حفاظت کرتے ہیں اس کی، الله تعالیٰ کے حکم سے۔“

پس اگر وہ ضرر پہنچانا بھی چاہیں تو خدا تعالیٰ حفاظت کرتے ہیں، ان کی حفاظت عبث نہیں۔ مگر عورتوں کے اندر اس کا بہت چرچا ہے کہ ہر مرض کو جن سمجھتی ہیں، مگر اکثر تو مکر ہوتا ہے۔

حکایت
مجھے مکر پر یاد آیا کہ ایک گاؤں سے خط آیا کہ فلاں شخص حج کرکے آیا ہے، اس پر جن ہے، رحمت الله نام بتلاتا ہے اور جدہ کا رہنے والا بتلاتا ہے، لوگوں سے مار مار کر نماز پڑھواتا ہے، میں نے سوچا کہ اگر یہ جن نیک ہے تو اس شخص کو کیوں ستاتا ہے؟ اور اگر نیک نہیں تو نماز پڑھنے کو کیوں کہتا ہے؟ میں نے لکھاکہ یہ جن نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی حرارت اور کچھ شرارت ہے، چناں چہ کچھ دنوں بعد وہاں سے خط آیا کہ واقعی اس پر جن نہ تھا، بلکہ نماز پڑھوانے کے لیے اُس نے یہ تدبیر کی تھی ،سو اس نے تو ایک مصلحت کے لیے مکر کیا تھا، بعض تو بالکل پریشان کرنے کو اور دھمکی دینے کو کہتے ہیں۔

حکایت
دھمکی پر یاد آیا کہ ایک بڈھے نے مولوی صاحب کے کہنے سے نماز شروع کر دی تھی، اتفاق کی بات کہ دو چار روز کے اندر اس کے یہاں کئی جانور مر گئے، بیٹوں نے کہا کہ بڈھے نے نماز شروع کی ہے، خدا خیر کرے، آخر سب مشورہ کرکے باپ کے پاس گئے او رکہنے لگے کہ بابا ! تونے جب سے نماز شروع کی ہے اس وقت سے گھر پر تباہی آرہی ہے تو نماز چھوڑ دے۔ بڈھے نے کہا کہ میں تو نہیں چھوڑتا۔ بیٹے خوشامد کرنے لگے۔ بڈھے نے کہا کہ اچھا! اگر میری خدمت خوب اچھی طرح کیا کرو تو چھوڑ دوں۔ بیٹوں نے منظور کر لیا۔ غرض بڈھے کی خوب خاطر ہونے لگی، اب جب کبھی بڈھے کی خدمت میں کمی ہوتی تو کہتا لائیو میرا کلھڑا! میں وضو کرکے نماز پڑھوں۔ بس یہ سنتے ہی بیٹے ڈر جاتے اور خوشامد کرکے راضی کر لیتے تو جیسے یہ نماز کی دھمکی دیتا تھا ایسے ہی بعض جنوں کی دھمکی نکالتے ہیں اور کہیں مرض ہوتا ہے۔

بھوت تو کوئی چیز نہیں لیکن جنوں کے اثر کا انکار نہیں کیا جاسکتا
اور کہیں واقعی جن بھی ہوتاہے، بعض جگہ تو ایسی قطعی دلیلیں ہیں کہ انکار ہو ہی نہیں سکتا ،ہمارے اطراف میں ایک الٰہ بخش ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بھوت ہو گیا ہے۔ خیریہ تو غلط خیال ہے، کیوں کہ بھوت کوئی چیز نہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں لا غول ولا صفریہ یعنی نہ آدمی مر کر بھوت ہوتا ہے، نہ صفر کی نحوست کوئی چیز ہے۔ مگر جنوں کا انکار نہیں۔ جنوں سے بے شک ایسے واقعات ہوتے ہیں ،گو بعض لوگوں نے اس کا بالکل انکار کیا ہے۔ مگر حدیث میں ہے ”إذا تغولت الغیلان نادیٰ بالأذان“ یعنی جب کہ جن کی شکل کے اندر ظاہر ہو تو اذان پکار کر کہہ دے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ بعض لوگ طاعون پر اذان کہتے ہیں اور استدلال یہ کرتے ہیں کہ طاعون ہے جن سے اور تغول جن کے لیے اذان کہنا آیا ہے تو یہ استدلال صحیح نہیں، کیوں کہ تغول دفعةً ہوتا ہے او راس سے دفعةً ہی ضرر پہنچتا ہے تو اگر اس کے لیے نماز کی اذان کا انتظار کریں تو اتنی دیر میں وہ تباہ کر دے گا اور طاعون کا ضرر دفعةً نہیں ہوتا، پس اُس میں جو جن ہیں وہ نماز مغرب کی اذان سے اور دوسرے اوقات کی نماز کی اذان سے بھاگ جائیں گے تو اس کے لیے مستقل اذان کی کیا ضرورت ہے؟ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب حدیث میں اذا تغولت الغیلان ہے تو لاغول کے معنی یہ ہیں کہ آدمی مر کر بھوت نہیں ہوتا، اب رہی یہ بات کہ وہ تو مرے ہوئے شخص کا نام بتلائے ہے کہ میں فلانا ہوں تو وہ جھوٹ اپنا نام بدل کر بتلا دیتے ہیں۔

ہمزاد کیا ہے؟
اور اگر کہیے کہ وہ اس کا ہمزاد ہے تو سنیے! ہمزاد کے معنی لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ انسان کے ساتھ اس کی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ سو یہ تو محض لغو بات ہے، حدیث میں اتنا آیا ہے کہ ہر ایک انسان کے ساتھ ایک شیطان ہے، سو اگر ہمزاد اس کو کہا جاوے تو خیر یہ بات صحیح ہو سکتی ہے اور ہمزاد اس کو اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی ماں سے اس کے ساتھ ایک وقت میں پیدا ہوا ہے تو اس کا ہمزاد ہو یا اور کوئی جن ہو، وہ کہہ دیتا ہے کہ میں فلاں ہوں تو وہ دراصل اس شخص کی روح نہیں ہوتی، بلکہ وہ جن ہوتا ہے ۔ کیوں کہ حدیث میں بھوت کا انکار آیا ہے، دوسرے وہ مرکر اما الی الجنة واما الی النار چلا جاتا ہے تو اس سے اس کو فرصت کہاں کہ لوگوں کو لپٹتا پھرے؟ پس وہ درحقیقت وہ شخص نہیں ہے جس کا نام بتلا رہا ہے ۔ بلکہ وہ جن ہے او را س کا نام بتلاتا ہے ۔ غرض یہ کہ وہ الہ بخش جاہلوں پر آتا ہے اور وہ جاہل قرآن پڑھنے لگتا ہے اور ایک عجیب قصہ ہے کہ ایک جاہل پر وہ آیا اور اس کے لیے ایک عامل نے تعویذ لکھا تو وہ کہنے لگا کہ یہ چال تو غلط ہے ،پھر غور کرکے دیکھا کہ وہ چال غلط تھی۔ (جاری)

Flag Counter