”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ : اہمیت، مقصد اور گزارشات
مفتی محمد حنیف احمد
متخصص جامعہ فاروقیہ کراچی، ورفیق دارالافتاء تجوید القرآن ، کوئٹہ
قواعد فقہیہ کو مد نظر رکھنا
مطالعہ کے مقاصد کے حصول میں مدد گا ر ثابت ہونے والے امور میں سے دوسرا یہ ہے کہ قواعد فقہیہ بھی زیرِ مطالعہ رہیں، وہ اس طرح کہ باب کے مسائل کے مطالعہ کے دوران ہر جزئیہ کے متعلق یہ بھی معلوم کیا جا ئے کہ یہ جزئیہ فقہاء کے بیان کردہ قواعد فقہ میں سے کس قاعدہ کے تحت آتا ہے،اس سے ایک تو باب کی موجودہ جزئیات کا احاطہ ہوسکتا ہے۔دوسرا یہ کہ اس سے علمِ فقہ متعدی ہوتا ہے، جزئیات کی عبارتوں کی صورتوں میں جامد نہیں ر ہتا، مطلب یہ کہ اس قاعدہ کی مدد سے مذکورہ جزئیات کا حکم دیگر جدید پیش آنے والی جزئیات کی طرف بھی متعدی ہوسکتا ہے اور خود اسی جزئیہ کا حکم بھی اس سے ضبط کیا جا سکتا ہے۔
قواعد کے ضبط کے ان اہم فوائد کی بنا پر ہی فقہاء کے دو قول مشہور ہیں:
1..کل فقہٍ لم یخرج علی القواعد، لیس بشیٴ․
2..من حفظ الفقہ بقواعدہ، استغنیٰ عن حفظ أکثر الجزئیات، لاندراجھا في الکلیات ۔
پھر جزئیات کو قواعدِ فقہ کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں:
ایک یہ کہ جن کتبِ فقہ میں جزئیات کے دلائل کا خاص اہتمام کیا گیا ہے اور ان میں ہر جزئی کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں ان کا مطالعہ کیا جائے، جیسے: بدائع الصنائع، الہدایہ، البنایہ، کفایہ، عنایہ، نہایة، (یاہدایہ کی دیگر شروحات) تبیین الحقائق، مبسوط وغیرہ۔
ان کتب میں اثباتِ جزئیات کے لیے نقلی دلائل سمیت عقلی دلائل بھی بیان کیے گئے ہیں اور ہر دلیل عقلی کسی قاعدہ کلی پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں اکثر یہی فقہی قاعدے ہوتے ہیں، اس طرح ان جیسی کتب کا مطالعہ کرنے سے ایک توفرعی جزئیہ کی دلیل معلوم ہوگی اور ساتھ میں یہ بھی واضح ہوجائے گاکہ یہ جزئیہ کس قاعدہ فقہیہ کے تحت آتا ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ قواعدفقہیہ پر مستقل تصنیف کردہ کتب کو زیر ِمطالعہ رکھا جائے۔پھر دوران مطالعہ جزئیات پر قواعد کا انطباق کیا جاتارہے، ان کتب سے قواعد کو یاد کرنا بھی آسان ہوتا ہے ، بنسبت ان کتب سے کہ جن میں قواعد دلائل کے ضمن میں ذکر ہوتے ہیں۔
دوران مطالعہ مسائل کے احکام کی علتوں کو مد نظر رکھنا
آدمی کی فقاہت میں جن امورسے اضافہ ہوتاہے،ان میں سے ایک اہم چیز یہ ہے کہ مسائل کے احکامات کی علتوں اور وجوہات پر نظر رہے،کیوں کہ مسائل کے جواحکامات ہوتے ہیں ان کی بنیاد یہی علتیں ہوتی ہیں، علت موجود رہی تو حکم بھی رہے گا ، علت نہ رہی تو حکم بھی نہ رہے گا۔ اگر کسی مسئلہ میں حلت کا حکم ہے تو وجودِ علت تک حکمِ حلت رہے گا، اگر علت نہ رہی تو حکم؛ حلت کے بجائے حرمت میں بدل سکتا ہے اور اگر حکم حرمت کا تھاتو حرمت کی وجہ اور علت جب تک موجود ہوگی، حکم بھی حرمت کا رہے گا اور اگر علت نہ رہی تو حکم؛ حرمت کا حلت سے بدل سکتا ہے۔
مسائل کو علل وحِکَم کی روشنی میں مطالعہ کرنا ایسا ہے جیسا کہ کسی شے کو اس کے خواص ،عوارض یا فصول کے ذریعہ پہچاننا، جیسا کہ ان سے اس شے کی پوری یا کافی حد تک پہچان ہو جاتی ہے۔ اور دوسری چیزوں سے علیٰحدہ اور مستقل ہوجاتی ہے،ایساہی کوئی مسئلہ دوسرے مسائل سے احکام کے اعتبار سے علتوں کے ذریعہ الگ ہوجاتاہے اور دونوں کا حکم مختلف ہوتا ہے۔ان کا صحیح اندازہ ان مسائل میں ہوسکتا ہے جو اشباہ اور نظائر میں سے ہیں، یعنی: جو آپس میں صورت کے اعتبار سے متشابہ ہیں۔ جیسا کہ اس جیسے مسائل ان کتب میں بکثرت ہیں جوالأشباہ والنظائر اور مسائل فقہیہ کے فروق کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
مسائل کی علتوں کو مد نظر رکھنے سے آدمی کا علم متعدی ہوتا ہے،جامد نہیں رہتا،کیوں کہ انہی علتوں کی بنا پر ہی کوئی حکم جدیدپیش آمدہ مسئلہ کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور جدید مسائل کا حکم معلوم کیا جا سکتا ہے۔
معاصر علمائے اکابر کی فقہی تحریرات کا مطالعہ کرنا
متاخرین اور معاصر علما کرام میں سے جن حضرات نے فقہ کے باب میں جو جدید خدمات انجام دی ہیں،ان سے اس شخص کو کوئی چارہ نہیں جو علم فقہ سے تعلق رکھتا ہو۔فقہ کے کسی عالم کو جتنی ضرورت قدیم کتب فقہ کے مطالعہ کرنے کی ہے،اتنی ہی ضرورت معاصر محققین علماء کی تحریرات کے مطالعہ کی بھی ہے،جوکہ بعض فتاویٰ کی شکل میں ہیں اور بعض تحقیقی رسائل کی صورت میں ہیں ۔یقینا ”کم ترک الاوَّلون للآخرین“ کا مصداق ہو کر ان میں اچھا خاصا وہ مواد دست یاب ہے کہ جو متقدمین کی کتب میں نہیں ہے۔
کسی بھی فن میں مہارت حاصل کرنے میں جو امور کار آمد ثابت ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم امر یہ ہے کہ اس فن کے ماہرین کے زیر تربیت رہا جائے اور ان کے عملی کام کا مشاہدہ کیا جائے،خصوصاََ علم فقہ میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ فقہی ذوق کے لیے کسی لمبی مدت تک کسی ماہر فقہ کے زیر تربیت رہنا ضروری ہے،ان جدید تحقیقات کا مطالعہ کرنا بعینہ علماء کے زیر تربیت رہنا اگر چہ نہیں، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس کے مطالعہ سے وہ نفع حاصل ہوگا اور وہ استفادہ کیا جا سکتا ہے جو نفع اور استفادہ خود ان کی تربیت میں رہنے سے حاصل ہوتا ہے،کیوں کہ ان تحریرات سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اکابر نے قدیم کتب فقہ کا کس طور پر مطالعہ کیا ،کتنی گہری نظر رکھتے تھے،جدید مسائل کے احکامات قرآن ،حدیث یا قدیم عبارات فقہیہ سے کیسے اخذ کیے، ضرورت، عرف اورمصلحت کی بنا پر کیسے مسائل کے احکامات میں تبدیلی کی، جدید مسائل کو حل کرنے کے لیے قدیم کتب فقہ میں مصرح جزئیہ کیسے منطبق کیا۔
نئے پیش آمدہ مسائل کی بہت بڑی تعداد انہی جدید تحریرات میں ذکر ہے۔خصوصاً معاشی مسائل سے آگاہ ہونے کے لیے ان کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ان جدید معاشی مسائل کا ماخذ اگر چہ متقدمین فقہاء کی کتب ہیں، لیکن ان کا عصری اسلوب اور عصری زبان واصطلاحات میں بیان انہی رسائل وتحریرات میں موجود ہے۔
اس طرح مختلف وجوہات کی بنا پر متخصص کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ان جدید رسائل، مقالہ جات اور تحریرات کا مطالعہ بھی اپنی اہم معلومات تخصص میں سے بنائیں۔ پھر خواہ یہ تحریرات کسی بھی زبان میں ہوں؛ اردو میں ہوں یا عربی میں، معیشت کے موضوع پر ہوں یا فقہ کے کسی اور موضوع پر۔
کتب کا تعارف
ایک اہم بات جس کی طرف کم حضرات توجہ کرتے ہیں، حالاں کہ تحقیق میں کافی دخل ہونے کی بنا پر خاصی اہمیت کی حامل ہے۔وہ ہے کتب کا تعارف اور ان کی پہچان۔یقینا اگر کوئی شخص کسی موضوع پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کا کام اسی وقت محقق ہوسکتا ہے کہ جب وہ اس موضوع سے متعلق مواد سے واقف بھی ہو۔اس موضوع کی چھوٹی بڑی کتب پر مطلع ہو۔اس لیے کہ تحقیق کے مراحل میں سے کسی بھی مرحلہ میں متعلقہ کتب کی ضرورت پڑسکتی ہے،اور کسی بھی مشکل عقدہ کے حل کے لیے موضوع سے متعلق مصادر کی مراجعت کی حاجت پیش آسکتی ہے۔اب ان کتب سے ضرورت تب ہی پوری کی جا سکتی ہے کہ ان کا علم ہو،پہلے ہی سے ان کا تعارف ہو،جب تعارف ہی نہ ہو تو تعارف کے بغیر مصادر سے اخذ نہ ہو سکے گا،اگر ہو بھی تو غیر معیاری ہوگااوراس کے نتیجے میں غیر معیاری تحقیق بھی ہوگی ۔
تو کہ چراغ نہ بینی، بچراغ چہ بینی
علامہ زاہد الکوثری(جوکہ عصر حاضر کے محقق عالم تھے)لکھتے ہیں:
”من أھم العلوم علم أحوال الموٴلفات، فإنہ أول مرحلة من مراحل البحث لمن لم یتعود الاقتناع في العلم بما حضر وأراد التعمق في علم الذي یعانیہ بکل ما أمکن، ومن لا یعلم ما ألف من الکتب في موضوع بحثہ یطول علیہ أمد فحصہ بدون أن یحصل منہ علی طائل“ ۔ (مقالات الکوثري، ص:353)
علم فقہ خالص تحقیق کا علم ہے، آئے دن پیش آنے والے مسائل کے حکم کی تلاش اور تحقیق کی جاتی ہے۔کتب میں تلاش کرنا پڑتاہے، ان کی مراجعت کی جاتی ہے۔مختلف کتب کے اوراق پلٹنے پڑتے ہیں، عبارت کی باریکیوں اور نکتوں کو سوچا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد حکم ہاتھ آتا ہے،لیکن ان تمام مراحل کی سب سے پہلی سیڑھی یہ ہے کہ باحث کو موضوع سے متعلق کتب سے واقفیت ہو، اگر موضوع سے متعلق کتابوں کا ہی علم نہ ہو تو ان میں سے محقَّق حکم کیسے تلاش کرکے نکالا جا سکتا ہے؟!
تعارف کتب میں تمام وہ امور شامل ہیں جو کسی بھی حوالہ سے کتاب کی پہچان اور کتاب سے مانوس ہونے میں اضافہ کرتے ہوں۔ مثلاً:کتاب کے مصنف کا علم ہونا، ایک مصنف کے ہاتھ پر کتاب مکمل ہو گئی تھی یا پھر کسی اور نے تکملہ لکھ دیا، مصنف کا کتاب میں انداز بیان کا علم ہونا ،کتاب متن ہے یا شرح یا حاشیہ،اگر متن ہے تو اس کی کون کو ن سی شروحات ہیں اور ان شروحات کی خصوصیات کا علم، کتاب پر کس کس نے تحقیق یا تعلیق کی ہے اور کس کی تحقیق یا تعلیق معیا ری ہے ،خصوصاً کتاب کی ان تمام امتیازی وجوہات کا علم ہونا جس کی بنا پر وہ اپنی ہم موضوع کتب میں خاص امتیاز رکھتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن افسوس!اتنی اہمیت کے باوجود بہت سارے ”متخصصین“ و ہ ہیں جن کو یہ معلوم نہیں کہ فتاویٰ شامی میں وہ کیا امتیازات ہیں کہ ان کے علاوہ دیگر کتب فقہ کی اتنی مراجعت نہیں کی جاتی جتنی اس فتاویٰ کی ،کی جا تی ہے۔حالاں کہ وہ کتابیں فی نفسہ معتمد بھی ہیں اور خود علامہ شامی نے ہی اپنا حاشیہ”رد المحتار“تیار کرتے وقت انہی کتب سے اخذ کیا ہے ۔اسی طرح بہت سارے وہ ہیں کہ بیسیوں مسائل حل کرتے ہیں،لیکن عدم تعارف کی بنا پر”فتح القدیر“ جیسے صاحب ِاجتہاد شارح کی کتاب کی مراجعت کا موقع نہیںآ تا۔اگر جانتے ہیں تو صرف چند کتب مثلاً :فتاویٰ ھندیہ، بحر الرائق، فتاویٰ الشامی، تاتارخانیہ، بدائع الصنائع کو جانتے ہیں ،لیکن وہ بھی صرف نام کی حد تک ،نہ کہ امتیازات کے اعتبار سے۔
یہ مرحلہ اولیٰ کے دوحصوں اور مطالعہ سے متعلق کچھ امور تھے ، جن کو مد نظر رکھ کر مرحلہ اولیٰ گزار دیا جائے تو امید ہے کہ بہت مفید ثابت ہوں گے،لیکن ان کا ذکر بطور انحصار نہیں،بلکہ یقینااس کے علاوہ ماہرین کی تحریرات اور ملفوظات میں وہ مواد ملے گاجو اس سے کئی گنا زیادہ مفید ہوں۔البتہ کسی قدر مفید ثابت ہونے والے جو امور مستحضر تھے وہ ذکر کیے جا چکے۔
مرحلہ ثانیہ،حل مسئلہ
”تخصص فی الفقہ الاسلامی“ کا دوسرا مرحلہ تمرینی مسائل کا حل کرنا ہے۔مرحلہ اولیٰ میں نصابی مطالعہ کرلینے اور مختلف کتب فقہ کی ورق گردانی کرلینے کے بعد اب اسی مطالعہ کی روشنی میں مسائل حل کرنے ہوتے ہیں۔ بظاہریہ لگتا ہے کہ کوئی مسئلہ کتب سے نکالنا آسان ہوگاکہ اس کا حکم انہیں عبارات اور فرعیات میں موجود ہوگا جس کا مطالعہ کیا ہے اور مسئلہ سے متعلق عبارت ملتے ہی مسئلہ کے نیچے نقل کرکے مسئلہ تیار ہوجائے گا،حالاں کہ ایسا نہیں،بلکہ محقَّق مسئلہ تیار کرنے کے لیے کئی مراحل طے کرنے ہوتے ہیں، جس میں خطا سے حفاظت کے لیے کافی تمرین کرنی پڑتی ہے۔
اس دوسرے مرحلہ میں کام یابی گزشتہ مرحلہ یعنی:گہرائی سے مطالعہ، کتب کی خوب واقفیت، جدید مسائل پر عمیق نظر میں کام یابی پر موقوف ہے۔
استفتا کے حل کے ذیل میں کچھ امور ذکر کیے جاتے ہیں جو محقق اور درست مسئلہ تیار کرنے میں ممد ثابت ہوسکتے ہیں۔
مسئلہ حل کرنے کا طریقہ
حل مسئلہ کے لیے مندرجہ ذیل چار کام کرنے ضروری ہیں:
1..مسئلہ کی شرعی تکییف
2..عربی کتب میں تلاش
3..اردو فتاویٰ اور تحقیقات سے تائید
4..عدم جواز کی صورت میں مستفتی کے لیے شرعی حل نکالنے پر غور۔
مسئلہ کی شرعی تکییف
مسئلہ کے حل کے لیے مذکورہ چار مراحل میں سے یہ پہلا مرحلہ ہے، جو حل مسئلہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اَبوابِ فقہیہ میں سے کسی باب سے صورت مسئلہ جوڑنا مسئلہ کی شرعی تکییف کہلاتا ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ استفتا کے حل کے لیے اولاً ضروری ہے کہ اس کو خوب غور سے پڑھا جائے، تاکہ مسئلہ کی صحیح صورت، جو مستفتی کو مقصود ہے ،واضح ہوکر سامنے آجائے۔ اس کے بعد مسئلہ کی اسی صورت کے متعلق اس حیثیت سے سوچنا کہ یہ مسئلہ عبادات میں سے ہے، یا معاملات وغیرہ میں سے۔اگر معاملات میں سے ہے تو یہ بیع کا مسئلہ ہے، شرکة کاہے، حوالہ کا ہے، یا وکالہ وغیرہ کا، اگر بیع سے تعلق ہے ،تو بیع الصرف ہے،بیع مقایضہ ہے،یا بیع سلم وغیرہ ہے۔اس طور پر غور وفکر کرکے اخیر میں یہ فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ فلاں باب کا ہے،مسئلہ کی شرعی تکییف اور شرعی حیثیت ہے۔
مسئلہ کا صحیح حکم معلوم کرنے کے لیے اس مسئلہ کی صحیح شرعی تکییف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،یعنی کہ مسئلہ کی درست شرعی تکییف کے بعد ہی مسئلہ کا مظان اور اس میں سے مسئلہ کا حکم تلاش کیا جاسکتا ہے اور درست حکم معلوم کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر مستفتی نے استفتاء کے الفاظ یہ لکھ دیے:
زید نے 1,00,000روپے عمر کو دیے کہ آپ ان سے تجارت کریں،جب کہ عمر کی کوئی ذاتی رقم نہیں۔ کچھ عرصہ بعد نقصان ہوا۔ اب زید کا دعویٰ ہے کہ یہ نقصان دونوں کا ہوا ہے، جب کہ عمر منکر ہے کہ نہیں اس نقصان میں شریک نہیں۔اب کیا ہمارا یہ عقد شرکت درست ہے یا نہیں اور نقصان کے متعلق حکم کیا ہے؟
اب مستفتی کے لفظ”عقد شرکت“کو دیکھ کر اس مسئلہ کو شرکت ِملک اور شرکت ِعقد کے باب میں تلاش کیا جائے تو اولاً یہ مسئلہ ملے گا نہیں، اگر کسی نے کوئی عبارت اپنی فہم کے مطابق منطبق بھی کرلی تو حکم غلط ہی ہوگا۔کیوں کہ مسئلہ کو شرکت ِملک یا شرکت ِعقد سے سمجھ کر مسئلہ کی شرعی تکییف ہی غلط کی گئی (جوکہ صحیح حکم نکالنے کے لیے بنیادی امر ہے)۔ جب کہ یہ مسئلہ باب المضاربہ سے متعلق ہے اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس کی حیثیت مضاربہ کی ہے۔
مسئلہ کی درست شرعی تکییف کیسے معلوم کی جائے؟
اس مثال سے واضح ہوگیا کہ حل مسئلہ میں شرعی تکییف کو کس قدر بنیادی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اب یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چا ہیے کہ خود شرعی تکییف کی درستگی کیسے ہوگی؟
درست شرعی تکییف نکالنے کے لیے تمام ابواب فقہیہ کی تعریفات اور حقائق اور اس کے فوائد قیود ازبر ہونے ضروری ہیں۔ صورت مسئلہ سمجھنے کے بعد اس کی صحیح شرعی تکییف تب ہوسکتی ہے،جب ابواب فقہیہ کی تعریفات، اس کی تمام فصلوں اور قیود کے فوائد حاضر فی الذہن ہوں، کیوں کہ انہیں تعریفات اور قیودکی بنا پر کوئی باب اپنے ہم مثل فقہی باب سے ممیز اور قابل ِحل مسئلہ میں کسی باب کے قیودات پائے جانے سے یہ مسئلہ متعلقہ باب سے منسلک ہوجاتا ہے اور اس کے بارے میں شرعی تکییف کی حیثیت سے کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر ایک بندے کی فوتگی کے بعد ورثاء میں سے ایک کو تہائی ملا،لیکن بوقت تقسیم اس نے بجائے تہائی کے چوتھائی لے لیا، یعنی اپنے حصہ سے کم لے کر باقی ورثہ کو دے دیا،اب اس صورت مسئلہ کوہبہ سے بھی بظاہر مشابہت ہے کہ یہ ہبہ ہے اور اس نے اپنے حصہ سے کم لے کرباقی دیگر ورثاء کو ہبہ کردیا۔اور اس کو تخارج سے بھی مشابہت ہے کہ حصہ کچھ لے کر باقی سے دیگر ورثاء کے حق میں دست بردار ہوگیا۔اگر اس کو ہبہ قرار دیا جائے تو ناجائز ہو گا، کیوں کہ احناف کے ہاں ایک شخص کا متعدد کو کوئی شے ہبہ کرنا نا جائز ہے اور اس کو تخارج تسلیم کیا جائے تو جائز ہوگا۔حکم مختلف ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ مسئلہ کی اس صورت کو ہبہ اور تخارج میں سے کسی ایک سے قرار دیا جائے۔اب تخارج کے بجائے اس کو ہبہ کہنا یا ہبہ کے بجائے اس کو تخارج کہنا اسی وقت ممکن ہے کہ ان دونوں کی حقیقتیں اور تعریفیں آدمی پر خوب واضح ہوں اور تب ہی اس مسئلہ کے بارے میں ہبہ یا تخارج کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے،جس کے نتیجہ میں یہ صورت یاتوجائز ہوگی یاناجائز۔تعریفیں معلوم نہ ہونے کی صورت میں کوئی درست فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
لہٰذامعلوم ہوا کہ شرعی تکییف (جوکہ حل مسئلہ کی پہلی اور اہم سیڑھی ہے)نکالنا تب ہی ممکن ہے کہ تمام ابواب فقہیہ کے حقائق اور تعریفات پر خوب گرفت ہو اور اس سے گہری واقفیت ہو۔ (جاری)