Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رجب المرجب 1437ھ

ہ رسالہ

5 - 17
عصرِ حاضر میں اشتغال بالحدیث کی ضرورت

مولانا عبدالماجد رفیق
رفیق شعبہ تخصص فی الحدیث واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

علم حدیث اور محدثین
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کو جو محبت تھی، اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت مبارکہ سے فیض یاب ہوتے رہے، ان میں اکثر حضرات تو وہ تھے جو اپنے کام کاج میں بھی مشغول رہتے اور وقتاً فوقتاً آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری بھی دیتے، جب کہ کچھ خوش قسمت حضرات وہ تھے جنہوں نے نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ او راپنے اوقات کا ہر ثانیہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں گزارنے کا عہد کر رکھا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کسی دنیاوی جاہ وجلال کے روایتی بادشاہ نہ تھے کہ یہ لوگ محض پیٹ پروری کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگے اور نہ ہی ان حضرات کی کوئی دنیاوی غرض ہوتی تھی، بلکہ یہ لوگ جانتے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم الله تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی برحق ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات قیامت تک کی اُمت کے لیے راہ نما اور کام یابی وکامرانی کا ذریعہ ہیں۔

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ سب سے پہلے جن حضرات نے اشتغال بالحدیث کی عملی بنیاد رکھی اور حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، ان لوگوں نے ایک طرف تو انتہائی بھوک وفقر کو برداشت کیا اور دوسری طرف اس علم کی خوب خدمت کی۔ حیرت ہوتی ہے ان کی قربانیوں پرکہ معیشت ومعاشرہ کے انتہائی سنگین ترین مسائل کا شکار ہو کر بھی دامن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو نہ چھوڑا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا تمام تر حصہ اگلی نسل میں منتقل کر دیا۔ یہ وہ چراغ تھے جو خود جل جل کر روشنی دیتے اور نور کی کرنیں بکھیرتے رہے اور پھر ان کی راہ پر چلنے والے ہر دور میں پیدا ہوتے رہے اور وہ بھی ٹھیک ان کی طرح دین میں کمی کرنے والوں اور زیادتی کرنے والوں کی پکڑ کر تے رہے۔

یہ وہ عاشقانِ رسول اور اساطین علم تھے جنہوں نے کذابین اور دجالین کے کذب وافترا اور دجل وفریب کا پردہ چاک کیا اور روایت حدیث کے لیے سند کو لازمی قرار دیا، ان اسانید ہی کی بدولت ان حضرات نے دشمنان دین کی طرف سے”وضع حدیث“ کی صورت میں اسلام کو مسخ کرنے کی ایک بہت بڑی چال کو کسی طرح سے بھی چلنے نہیں دیا۔

وضع حدیث ( یعنی اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا) اسلام دشمن فرقوں کی وہ خطرناک چال تھی جو اگر چل جاتی تو یہ دین اسلام کی مستحکم عمارت کو وہ نقصان پہنچاتی جو اسلام کا بڑے سے بڑا طاقت ور دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا، پھر اسلام کی وہ صاف اور ستھری صورت باقی نہ رہتی، جس پر الله تعالیٰ نے اس دین کو پسند کیا تھا، بلکہ اس کا حلیہ بدل جاتا اور یہ پچھلی قوموں کی طرح ایک ناقابل عمل داستان وچیستان بن جاتا، مگر الله تعالیٰ کی ذاتِ عالی کو فریب کاروں اور دجالوں کی حرکات کا خوب پتہ تھا، اس لیے قدرت کی طرف سے اس پسندیدہ دین کی حفاظت کے لیے ان بزگریدہ ہستیوں کا انتخاب کیا گیا، جنہیں دنیا ” محدثین“ کے عالی شان لقب سے یاد کرتی ہے۔

محدثین کی قسمیں
یہاں یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ ان حضراتِ محدثین کی جماعت مختلف قسم کے ذوق ورحجانات رکھنے والوں پر مشتمل تھی، کچھ لوگ ایسے تھے جو صرف متن واسناد کو بخوبی یاد کرنے اور اس کے لیے جستجو کرنے والے تھے، کچھ ایسے بھی تھے جو اس کے ساتھ ساتھ ان کے معانی اور مفاہیم کو بھی یاد کرتے تھے، بعض لوگوں کو راویانِ حدیث کے متعلق تفصیلی معلومات جمع کرنے کا زیادہ اہتمام تھا، جب کہ بعض کو صرف متن سند کی طرف توجہ تھی اور راویوں کے تفصیلی حالات کی طرف چنداں توجہ نہ تھی، کچھ لوگ ایسے تھے جو احادیث کو صرف حافظہ میں رکھتے تھے، اسی پر ان کو اعتماد تھا۔ جب کہ دوسرے لوگوں کو حافظہ کے ساتھ کتاب کی شکل میں بھی جمع کرنے کا اہتمام تھا، انہی محدثین میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مختلف احکام کی روایات کو جمع کرکے ان میں غور کرتے، اقوالِ صحابہ کی روشنی میں ان پر نظر ڈالتے اور اسی کے لیے وہ مجالس کا اہتمام کرتے اور لوگ ان کے پاس آکر زندگی کے نت نئے مسائل پوچھتے اور ان سے اس کا حل دریافت کرتے، محدثین میں ہر طرح کے ذوق ورحجانات رکھنے والے لوگ موجود تھے اور ذوق ورحجانات میں اختلاف کے باوجود سب نے اپنی اپنی جگہ حدیث کی بخوبی خدمت انجام دی۔

حفاظت حدیث کے سلسے میں محدثین کی فنی باریکیاں
حفاظت حدیث کے لیے محدثین کے ہاں رائج فنی باریکیاں، کڑی تنقید اور احتیاطی تدابیر ہر دور کے اندر علمی دنیا میں قابلِ ستائش رہی ہیں۔ حفاظت حدیث کے لیے اسی مبارک جماعت سے وابستہ لوگوں نے ہر نازک اور کڑے وقت میں اپنے آپ کو پیش کیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی طرف سے مدافعت کی، شہر بشہر، قریہ بقریہ گھوم پھر کر بڑی عرق ریزی کے ساتھ احادیث کوجمع کیا او ران کی روایت کرنے والوں کے حالات کو محفوظ کیا۔

قیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ مبارک ذخیرہ بحفاظت پہنچانے کے لیے اسانید کو رواج دیا اور روایانِ حدیث کی عدالت وضبط کو پرکھنے کے لیے زبردست اصول اختیار کیے، جس کی بدولت احادیث کا قیمتی ذخیرہ منافقین اور ملحدین کی شاطرانہ چالوں، روافض اور اہل بدعت کی خطرناک دسیسہ کاریوں سے محفوظ رہا۔

عربوں کی غیر معمولی فطری صلاحیتوں اور قومی روایات کے مطابق ابتدائی دور میں حدیث کی بھی حفاظت کے لیے بنیادی ذریعہ تحریر کے بجائے حافظہ ہی تھا، کتابتِ حدیث کو اس زمانے میں ثانوی حیثیت دی جاتی تھی، چناں چہ جو شخص حدیث کو صرف کتاب کی شکل میں محفوظ رکھنے پر اکتفا کرتا تھا، حلقہ محدثین میں اس کی قدر ومنزلت کم ہوتی تھی، اس کے برخلاف جوراویان حدیث اپنی خداداد صلاحیتوں سے بخوبی فائدہ اٹھاتے ہوتے احادیث کو سینے میں محفوظ رکھتے، اسی پر ان کو اعتماد ہوتا تھا، ان کی علمی حیثیت زیادہ تھی اور ان کا مقام بلند سمجھاجاتا تھا۔

الله تعالیٰ نے اس جماعت کے اندر ایسے ایسے لوگوں کو پیدا کیا جن کے حافظہ کے واقعات سن کر عقل دنگ رہ جاتی تھی، کیلکولیٹر اور کمپیوٹر کے دور کا انسان ان کے حافظے کے واقعات کو پڑھ کر ورطہٴ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ صنعنی ترقی او رانسانی پستی کے اس دور میں پیدا ہونے والا انسان اس بات پر نہایت ہی تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ ایک ایک محدیث کو ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں حدیثیں سندوں کے ساتھ کیوں کر یاد ہوا کرتی تھیں!! اس کو پتہ نہیں کہ جس طرح وہ لوگ حدیث کو سندوں کے ساتھ یاد کرتے اور اس کی بدولت محفوظ شکل میں جو حدیثیں ہم تک پہنچی ہیں، اسی طرح ان حضرات کے عجیب وغریب واقعات بھی نقد وجرح کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی ہم تک پہنچائے گئے ہیں، چناں چہ حدیث، راویانِ حدیث او راصولِ حدیث پر لکھی جانے والی تمام کتابوں اور ان کے قابلِ اعتماد نسخوں کی سندیں ہر پڑھنے والے کے دستخط اور تاریخی شہادتوں کے ساتھ آج بھی دنیابھر کے علمی کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔

عصرِ قریب کے بے مثال محقق، مشہور ناقد مولانا عبدالرشید نعمانی (متوفی1420ھ) نے بالکل بجا فرمایا ہے:”نظر کو بلند تر کیجیے، جس امت نے حفاظت حدیث کے حالات کو اس طرح محفوظ کیا ہو اس نے خود حدیث کے حفظ او راس کی یادداشت میں کیا کچھ اہتمام کیا ہو گا!! آج جب کہ موجودہ نسل نے اپنی قوت حافظہ کو معطل کرکے اسے بالکل بے کار او رمضحمل بنا دیا ہے اور مطابع کے عام وجود میں آجانے کے باعث جو علم اگلے علما کے دماغوں میں تھا وہ ہمارے کتب خانوں میں منتقل ہوچکا ہے، حفظِ حدیث کے واقعات کو کتنے ہی تعجب او رحیرت کی نظر سے کیوں نہ دیکھا جائے، مگر حقیقت بہرحال حقیقت ہے، سلف کا ایک دور تھا کہ جب کتاب کا مسلمانوں میں بالکل رواج نہ تھا اور لوگ اپنے نوِ شتوں کو عیب کی طرح چھپاتے تھے کہ مبادا ہم پرسوئے حفظ کی تہمت نہ لگ جائے، اس دور میں کاغذ وقلم کی مدد کو عار سمجھا جاتا تھا اور جو کچھ اساتذہ سے سنتے اسے صفحہٴ حافظہ پر ثبت کرنا پڑتا تھا، یہی وہ زمانہ تھا جب ” علم سینہ بہ از علم سفینہ“ پر صحیح معنوں میں عمل درآمد تھا۔( امام ابن ماجہ اور علم حدیث، ص:152، طبع میر محمد)

حافظہ چوں کہ ایک انسانی قُویٰ ہے ،جو دوسری صلاحیتوں کی طرح بیماری، عوارض اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ متاثر ہو جاتا ہے، محدثین نے اس کمزوری کا بھی بروقت تدارک کیاکہ مبادایہ کمزوری حدیث پر اثر انداز نہ ہو ۔ چناں چہ انہوں نے اس کے لیے بھی ایسے قوانین اور ضابطے بنائے جن کا خیال رکھتے ہوئے راویانِ حدیث کے حافظوں کو پرکھنا ان کے لیے ذرا بھی مشکل نہ رہا، ان قوانین کی روشنی میں انہوں نے ان تمام راویان حدیث کی نشان دہی کر دی تھی جن کے حافظے میں عمر کی زیادتی، بیماری یا کسی اور وجہ سے خلل پڑ گیا تھا اور خلل کی وجہ سے حدیث بیان کرتے وقت انہیں راویوں کے ناموں یا الفاظِ حدیث میں سہو ہو جاتا تھا، محدثین نے ان ناقص الضبط رواتِ احادیث کی اس کمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان تمام احادیث کو ناقابل احتجاج قرار دے دیا جو ان سے حافظ میں تغیر پذیری کے بعد مروی ہیں۔

یہ بات صرف محدثین ہی کے ساتھ خاص نہ تھی، بلکہ ان سے بھی پہلے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم روایت حدیث میں بے حد محتاط رہتے تھے، چناں چہ بعض صحابہ کرام صرف اس خوف سے کہ بیان کرنے میں کچھ کمی بیشی نہ ہو جائے، بہت کم حدیثیں بیان کرتے تھے، جیسا کہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کا واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔(صحیح البخاری، باب اثم من کذب علی النبي، رقم الحدیث:107)

حضرت انس رضی الله عنہ کا یہ حال تھا کہ جس حدیث میں ان کو ذرا بھی شبہ ہو جاتا کہ یہ حدیث خوب اچھی طرح مجھے یا دنہیں ہے تو وہ اس کو بیان ہی نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ” اگر غلطی کا اندیشہ نہ ہوتا تب میں یہ حدیث بیان کرتا۔“(سنن الدارمي، باب اتقاء الحدیث عن النبي والتثبت فیہ، رقم الحدیث241، طبع دارابن حزم)

اسی طرح فقیہ الامت حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کے متعلق ” تذکرة الحفاظ“ میں بیان ہے کہ ” ان کا شمار ان حضرات میں ہے جن کو ادائے حدیث میں بے حد احتیاط اور روایت کے باب میں بڑا تشدد تھا اور وہ اپنے شاگردوں کو الفاظِ حدیث ضبط کرنے میں سستی کرنے پر بہت ڈانٹتے تھے۔“(تذکرة الحفاظ 1/16، طبع دارالکتب العلمیة)

اسی احتیاط کا تقاضا تھا کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتے تھے کہ جب تم حدیث کی روایت کرنے کا ارادہ کرو تو پہلے اس کو تین دفعہ دہرا لیا کرو۔ (سنن الدارمي، باب مذاکرة العلم، رقم الحدیث:110) نیز اسی شدتِ احتیاط ہی کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اور حضرت عمررضی الله عنہ کی بڑی تاکید تھی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے حدیثوں کی روایت کم کی جائے، جب احتیاط کا یہ عالم تھا اور حدیثوں کی روایت سے بھی چارہ کار نہ تھا تو لازمی طور پر حدیثوں کا کچھ سے کچھ ہو جانا بہت مشکل اور ناممکن ہی نہیں، بعیداز قیاس بھی تھا۔

کچھ عرصے تک تو حفاظت حدیث کے سلسلے میں حافظہ ہی پر اعتماد کیاجاتا رہا اور زمانہ یوں ہی گزرتا رہا، یہاں تک کہ ہمتیں کم زور پڑ گئیں اورانسانی حافظہ خطا کھانے لگا تو پھر وہ حفاظت کا معیار او رپیمانہ ہی بدل گیا، محدثین نے انسانی کم زوری کو سامنے رکھ کر کتابتِ حدیث کو وہ حیثیت عطا کی، جو اس سے قبل انسانیحفاظے کو حاصل تھی، جس طرح پہلے حافظے سے حدیث بیان کرنے کے لیے کچھ قوانین طے کیے گئے تھے، اب اس کتابتِ حدیث کے لیے بھی ایسے ٹھوس قوانین بنائے گئے جو اپنے اندر ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اور فنی باریکیوں کو سموئے ہوئے تھے، پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس زمانے میں جن محدثین کی عادت کتاب سے حدیث بیان کرنے کی تھی ان میں سے اگر کسی کی حدیث کی کتاب گم ہو گئی یا آگ میں جل گئی توایسے لوگوں کے ناموں کی بھی تعیین کر دی گئی، تاکہ اگر وہ بعد میں ان لکھی ہوئی حدیثوں کو حافظے سے بیان کریں تو ایسی احادیث کی خوب چھان پھٹک کی جاسکے اور اگر وہ حفاظ متقنین کی احادیث کے خلاف ہوں تو انہیں مسترد کیاجاسکے۔

زمانے کے شب وروز اس نہج پر گزرتے رہے اور احادیث مختلف کتابوں میں مدون ہوتی چلی گئیں، یہاں تک کہ تدوینِ حدیث اپنی انتہاؤں کو چھونے لگی اور فنِ جرح وتعدیل کے نام سے ایک نئے فن کی بنیاد پڑی، جس میں ایک طرف تو راویان حدیث کی چھان بھٹک ہوتی تھی اور ان کے حافظے، عدالت اور ضبط وغیرہ کے بارے میں تبصرے ہوتے تھے تو دوسری طرف خود ان مبصرین کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی تھی ،اس تنقیدی علم کے ذریعہ ان محدثین کا بھی محاسبہ ہونے لگا جو حدیث کے معاملہ میں دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھنے اور ان کی نشان دہی کرنے والے تھے، یہاں تک کہ کسی راوی میں ایسی مبہم جرح کو ناقابل اعتماد گردانا جانے لگا کہ جس کا اس جرح کرنے والے نے کوئی معقول سبب نہ بیان کیا ہو، جو واقعی اس راوی کی عدالت کو مجروح اور متاثر کرسکے۔

یہی وجہ ہے کہ محققین نے ان تمام رواتِ حدیث کو قابل احتجاج قرار دیا ہے جن پر ائمہ کا کلام یا تو مبہم ہے یا اس میں شدّتِ غضب او رمذہبی تعصب کا کوئی ادنیٰ پہلو نظر آتا ہے۔ (جاری)

Flag Counter