Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

9 - 16
رحمت وشفقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چند ارشادات

فقیہ ابواللیث سمرقندی
	
جان داروں سے ہم دردی کرنے میں بھی اجر ہے
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی چلا جارہا تھا، راستے میں سخت پیاس لگی، ایک کنویں پر پہنچا۔ اس پر اُتر کر پانی پیا ،باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے زمین کو منھ مار رہا ہے ۔ آدمی یہ دیکھ کر کہنے لگا کہ یقینا اس کتے کو بھی پیاس اسی طرح ستا رہی ہو گی جیسے مجھے ستا رہی تھی۔ کنویں میں اترا اپنا موزہ پانی سے بھر کر منھ میں دبایا اور باہر نکل کر اس کتے کو پلایا۔ الله تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی قدر کرتے ہوئے اس کی مغفرت فرما دی۔ عرض کیا گیا یا رسول الله! کیا جانوروں سے ہم دردی کرنے میں بھی اجر ملتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہر جان دار چیز کے ساتھ حُسنِ سلوک میں اجر ہے۔

مہربانی کرنا
حضرت حسن حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد پاک نقل کرتے ہیں کہ جنت میں وہی شخص جائے گا جو رحم دل ہو۔ صحابہ  نے عرض کیا یا رسول الله! یوں تو ہم سب ہی مہربانی کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایاصرف اپنے اوپر رحم کرنا مراد نہیں، بلکہ عامة الناس پر مہربانی کرنا مراد ہے۔ پھر الله تعالیٰ بھی ان پر مہربانی فرماتے ہیں۔

حضرت عبدالله فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے کسی بھائی کو کسی گناہ کی پاداش میں مبتلا دیکھو تو اس پر لعنت کرکے شیطان کو خوش ہونے کا موقع مت دو ،بلکہ دعا کرو کہ اے الله! اس پر رحم فرما۔ اس کی توبہ قبول فرما۔

حدیث
حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر  منبر پر تشریف لائے الله تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرمائے ہوئے سُنا کہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا ہم درد ہونا چاہیے اور ان کے آپس میں رحمت وشفقت کا ایک ایسا تعلق ہونا چاہیے ۔جیسے کہ ایک جسم کے اعضا کا ایک دوسرے سے ہوتا ہے کہ اگر کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تو تمام جسم بے چین رہتا ہے۔ حتی کہ اس عضو کی تکلیف ختم ہو جائے۔

حضرت عمر کا واقعہ
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ایک رات پہرہ دیتے ہوئے ایک قافلہ والوں کے پاس سے گزرے ،جو ابھی اترے ہی تھے۔ آپ کے دل میں ان کے بارے میں چوروں کا خطرہ پیدا ہوا، وہیں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے ہاں پہنچے، انہوں نے بے وقت آنے کی وجہ پوچھی، فرمایا میں ایک قافلہ والوں کے پاس سے گزرا، جنہوں نے ابھی پڑاؤ کیا ہے ۔ جی میں آیا کہ تھکے ہوئے ہیں، گہری نیند سو گئے تو کہیں چور انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ لہٰذا میرے ساتھ چلو، دونوں مل کر ان کی نگرانی او رحفاظت کریں۔ چناں چہ دونوں چلے گئے او راہل قافلہ سے کچھ فاصلہ پر بیٹھ کر پہرہ دیتے رہے، صبح ہوئی تو حضرت عمر نے کئی بار پکار پکار کر فرمایا او قافلے والو! نماز کی تیاری کرو۔ حتی کہ قافلہ والے بیدار ہو گئے تو دونوں حضرات واپس تشریف لے آئے۔

وہ حاکم تعظیم کا مستحق نہیں جو مسلمان کے حقوق ضائع کرتا ہے
فقیہ  فرماتے ہیں کہ اپنے اسلاف کی اتباع کو لازم پکڑنا چاہیے۔ الله تعالیٰ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کی باہمی شفقت وہم دردی کی بہت تعریف فرمائی ہے۔ انہیں﴿رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ﴾ ”وہ آپس میں بے حد مہربان ہیں“ کے مکرم لقب سے یاد فرمایا اور وہ حضرات صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مخلوق کے حق میں مہربان تھے۔ مسلمانوں کا تو کیا پوچھنا وہ ذمی کافروں سے بھی مہربانی کا سلوک کرتے تھے۔ حضرت عمر نے ایک ذمی کافر کو، جو کہ بہت بوڑھا ہو گیا تھا، لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگتے دیکھا آپ فرمانے لگے کہ ہم نے اس سے انصاف نہیں کیا، کیوں کہ جب تک یہ جوان تھا اس سے جزیہ وصول کرتے رہے۔ آج بوڑھا ہو گیا تو یوں ضائع ہو رہا ہے ۔ حکم فرمایا کہ بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کیا جائے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو دیکھا کہ سنگلاخ وادی میں بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی۔ فرمایا کہ بیت المال کا اونٹ بھاگ نکلا ہے، اس کی تلاش میں ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ نے بعد میں آنے والے خلفاء کو مشقت میں ڈال دیا ہے ۔ فرمانے لگے ابو الحسن! مجھے ملامت نہ کرو،اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے ! اگر اونٹ کا ایک بچہ فرات کے کنارے گم ہو جائے تو قیامت کے دن عمر اس کا بھی جواب دہ ہو گا۔ وہ حاکم کسی احترام کا مستحق نہیں جو مسلمانوں کے حقوق ضائع کرتا ہے اور وہ فاسق کسی تعظیم کے لائق نہیں جو مسلمانوں کو خوف دلاتا ہے ۔

حضرت حسن  حضور صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد پاک نقل کرتے ہیں کہ میری امّت کے اَبدال صوم وصلوة کی کثرت کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں گے۔ بلکہ سینوں کی صفائی، نفس کی سخاوت اور عام مسلمانوں سے ہم دردی کے باعث الله تعالیٰ ان پر رحم فرمائیں گے۔

مسلمانوں کے حقوق میں کتنی چیزیں تم پر لازم ہیں؟
حضرت انس بن مالک  آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے حقوق میں سے چار چیز یں تجھ پر لازم ہیں۔
1..یہ کہ تو ان کے نیکو کار لوگوں سے تعاون کرے۔
2..اور یہ کہ ان کے گنہگاروں کے لیے استغفار کرے۔
3..یہ کہ ان میں سے جو توبہ کرے اس کے ساتھ محبت کرے۔
4..یہ کہ ان کے بے توفیقوں کے لیے دعا کرتا رہے۔

حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے مسلمان بھائی پر چھ باتیں لازم ہیں ۔ ان میں سے اگر ایک بھی چھوڑ دی تو گویا ایک حقِ واجب چھوڑ دیا۔
1..اول یہ کہ اگر وہ دعوت وغیرہ پر بلائے تو قبول کرے۔
2..بیمار ہو تو اس کی مزاج پرسی کرے۔
3..فوت ہو جائے تو جنازہ پر پہنچے۔
4..کبھی ملاقات ہو تو سلام کہے۔
5..وہ خیر خواہی کا تقاضہ کرے تو ہم دردی کرے۔
6..چھینک آنے پر الحمدلله کہے تو جواب دے۔

مخلوق پر شفقت کرنا
ایک حدیث میں ہے کہ ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ آپ نے بھی یہ کام کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ہاں! میں نے بھی کیا ہے ۔ فقیہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے بکریاں چرانے کے اس عمل میں حکمت یہ ہے کہ الله تعالیٰ انہیں چوپاؤں کی نگرانی پر لگا کر، مخلوق پر ان کی شفقت کا مظاہرہ کرواتے ہیں، تب جاکر انہیں نبی بنا کر نسل آدم کی دینی تربیت ان کے سپرد کی جاتی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا۔ اے الله! تونے مجھے اپنا صفی کیسے بنایا؟ ارشاد ہوا اپنی مخلوق پر تیری مہربانی کی وجہ سے کہ تو ( حضرت) شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن ایک بکری بھاگ نکلی، جسے واپس لانے میں تجھے بہت مشقت اٹھانی پڑی۔ جب تو اسے پکڑنے میں کام یاب ہو گیا تو گود میں لے کر کہنے لگا اری مسکین تونے مجھے بھی تھکا یا اور خود بھی تکلیف اٹھائی۔ مخلوق پر تیری اس شفقت اور مہربانی کی بدولت میں نے تجھے صفی (منتخب) کیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔

مسلمان کی مدد کرنا
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ الله تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرماتے ہیں اور جو شخص اپنے بھائی کی کسی پریشانی کو دور کرتا ہے۔ الله تعالیٰ قیامت میں اس کی پریشانی دور فرمائیں گے۔ اور الله تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔

حضرت انس  آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد پاک نقل کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! تمہارا کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی بھلائی پسند نہ کرنے لگے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

رحم کرنا
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ کسی بے رحم پررحم نہیں فرماتے اورجو کسی کو معاف نہیں کرتا اس کی بخشش نہیں فرماتے۔ جو کسی کی توبہ کی پروا نہیں کرتا اس کی توبہ قبول نہیں فرماتے۔ بعض صحابہ سے روایت ہے کہ رحمن رحم کرنے والوں پر مہربان ہوتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ ایک حدیث پاک میں ہے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا الله تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتے۔

حضرت قتادہ فرماتے ہیں، ہم نے سُنا ہے کہ انجیل میں یہ مضمون لکھا ہے ۔ اے ابن آدم! جیسا تو رحم کرے گا ویسا ہی تجھ پر رحم کیا جائے گا۔ تو الله تعالیٰ کی رحمت ک امید کیسے رکھتا ہے جب کہ تو خود اس کے بندوں پر رحم نہیں کھاتا؟ حضرت ابو دردا  سے منقول ہے کہ وہ بچوں کے پیچھے لگے رہتے اور ان سے چڑیاں خرید کر چھوڑ دیتے اور فرمایا کرتے ”جا،عیش کر“۔

شقیق زاہد فرماتے ہیں کہ جب تو کسی شخص کا براتذکرہ کرتا ہے اور اس پر مہربانی کا کوئی قصہ نہیں کرتا تو تیرا حال اس سے بھی برا ہے او رجب تو کسی مرد صالح کا ذکر کرتا ہے ، مگر طاعتِ خداوندی کی چاشنی اپنے قلب میں محسوس نہیں کرتا تو تو اچھا آدمی نہیں ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقولہ
حضرت مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ مقولہ سنا ہے کہ ذکر الله کے سوا کوئی کلام بکثرت نہ کر کہ اس سے دل سخت ہو جاتا ہے اور سخت دل آدمی الله تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، گو تمہیں پتہ نہ چلے۔ لوگوں کے عیوب یوں نہ دیکھا کر کہ گویا تو ان کا آقا ہے، بلکہ یوں دیکھ کہ خود بھی کسی کا غلام ہے۔ عموماً لوگ د وقسم کے ہوتے ہیں، عافیت اور سلامتی والے اورمصیبت زدہ۔ سو مصیبت والوں پر مہربانی کیا کرو اور عافیت اور سلامتی پر الله تعالیٰ کی حمد وثنا اور شکر کیا کرو۔

حضرت طاؤس کا قول
ابو عبدالله شامی  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس کے ہاں حاضر ی کی اجازت چاہی تو ایک بہت بوڑھے بزرگ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں ہی طاؤس ہوں میں نے کہا کہ اگر آپ ہی ہیں تو پھر آپ تو حواس کھو چکے ہیں!! فرمایا عالم بد حواس نہیں ہوا کرتا، میں اندر چلا گیا، مجھ سے فرمانے لگے، سوال کرو، مگر مختصر کرنا۔ میں نے کہا اگر آپ اختصار کریں گے تو میں بھی اختصار کروں گا۔ فرمانے لگے اگرتو چاہے تو پوری تو راة ، انجیل اور قرآن پاک کو تیرے سامنے تین کلمات میں بیان کر دوں؟میں نے عرض کیا مجھے اس سے بہت خوشی ہو گی ۔فرمایا
1..الله تعالیٰ سے اس فدر خوف کھا کہ تیرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ خوف کوئی نہ ہو۔
2..اور اس سے امید ایسی رکھ جو تیرے خوف سے بھی کہیں زیادہ ہو۔
3..او راپنے غیر کے لیے وہی پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

تین باتیں الله کی محبوب اور پسندیدہ ہیں
حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ جس کسی نے اپنے اندر تین باتیں پیدا کر لیں اس نے پورا ایمان اپنے اندر سمو لیا۔ تنگ دستی میں بھی فی سبیل الله خرچ کرنا۔ اپنی ذات سے انصاف کرنا، مخلوق میں سلام کو عام کرنا اور پھیلانا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ کو تین باتیں سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہیں۔
1..طاقت کے باوجود معاف کر دینا۔ 2..تیزی میں میانہ روی اختیار کرنا۔ 3.. الله کے بندوں پر مہربانی کرنااور جو کوئی الله کے بندوں پر مہربانی کرتا ہے الله تعالیٰ اس پر مہربانی فرماتے ہیں۔

چار چیزیں تمام بھلائیوں کی جامع ہیں
حضرت حسن بصری  فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو وحی بھیجی اے آدم! چار چیزیں ایسی ہیں جو تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے بھلائیوں کی جامع ہیں، ایک وہ جومجھ سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک وہ جو صرف تجھ سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک وہ جو میرے اور تیرے درمیان ہے۔ ایک وہ جو تیرے اور لوگوں کے درمیان ہے۔ پہلی جو صرف مجھ سے تعلق رکھتی ہے، یہ ہے کہ تو میری عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔ دوسری جو خالص تیری ہے ،وہ تیرا عمل ہے کہ میں تیرے عمل کی تجھے ایسے وقت میں جزا دوں گا۔ جب کہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا۔ تیسری جو میرے اور تیرے درمیان ہے ،وہ یہ ہے کہ تو دعا مانگاکرے اور میں قبول کیا کروں۔ اور چوتھی جو لوگوں اور تیرے درمیان ہے، وہ یہ ہے کہ تو ان کے ساتھ ایسا معاملہ کر جو ان کی طرف سے تجھے اپنے لیے پسند ہے۔ والله اعلم

Flag Counter