Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 16
حیات شہید اور انبیا علیہم السلام

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿کَمَا أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونَ ، فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُونِ ، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ، وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ،وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْن﴾․(البقرہ:151 تا154)

جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں رسول تم ہی کا، پڑھتا ہے تمہارے آگے آیتیں ہماری اور پاک کرتا ہے تم کو اور سکھلاتا ہے تم کو کتاب اور اس کے اسرار اور سکھاتا ہے تم کو جو تم نہ جانتے تھےسو تم یاد رکھو مجھ کو، میں یاد رکھوں تم کو او راحسان مانو میرا اور ناشکری مت کرواے مسلمانو! مدد لو صبر اور نماز سے، بے شک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےاو رنہ کہو ان کو جو مارے گئے خدا کی راہ میں کہ مردے ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں ،لیکن تم کو خبر نہیں

ربط:گزشتہ آیات میں حضرت ابراہیم عليه السلام کی تین دعاؤں یعنی کعبہ کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے اور ان کی اولاد کو امامت کے لیے منتخب کرنے اور ان میں ایک رسول بھیجنے کا تذکرہ تھا۔ جسے الله تعالیٰ نے قبول فرما لیا، چناں چہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں نبی خاتم المرسلین بھیجے گئے ، بیت الله کو ان کا قبلہ مقرر کرکے انہیں تاقیامت لوگوں کی امامت کے لیے منتخب فرمالیا گیا، چناں چہ آئندہ آیت میں اس انعام پر شکرو کی تلقین کی جارہی ہے۔

تفسیر: انعامات الہٰیہ کے شکر کا طریقہ
”کَمَا“ کاتعلق ماقبل آیت سے ہے، یہ اتمام نعمت اب استقبال کعبہ کے واسطے سے اسی طرح ہو گا جیسے بعثت رسول کے ذریعے اس سے پہلے ہو چکا۔ (جلالین: البقرة ، تحت آیة:151)

مذکورہ انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ تم مجھے یاد رکھو یعنی اپنے اعضا وجوارح کو طاعات الہٰی میں مصروف رکھو، عرف میں ذکر کا اطلاق ذِکرلسانی پر ہوتا ہے، لیکن شریعت میں ذِکر الہٰی کا اطلاق اعضاو جوارح سے صادر ہونے والی ہر طاعت پر ہوتا ہے ، تلاوت، نماز ، روزہ، حج، زکوٰة ، جہاد، ممنوعات سے اجتناب اور مامورات کی بجا آوری سب ذکر میں داخل ہیں۔ الله تعالیٰ کا بندے کو یاد کرنا یہ ہے کہ الله تعالیٰ دنیا وآخرت میں بندے پر فضل وکرم، ثواب ومغفرت کی بارش برساتا رہے۔ ( تفسیر قرطبی، ذیل آیت:152)

مصائب وآلام میں صبر اور صلوٰة کا سہارا
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرتحویل قبلہ کے معاملے میں کفار کی طرف سے اسلام کی حقانیت پر جو اعتراضات کیے جاتے تھے گزشتہ آیات میں ان کا علمی جواب دے دیا گیا، لیکن کفار کی طرف سے ڈھٹائی کے ساتھ بار بار اعتراضات سامنے آنے کی وجہ سے مسلمانوں پر طبعی طور پر رنج وصدمہ کا اثر ہونا فطری امر تھا، اس لیے آئندہ آیات میں اس صدمہ کے اثر کو زائل کرنے کا طریقہ بتلایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو! صبر اور صلوٰة کے ذریعے سے مدد مانگو، بے شک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

صبر کی حقیقت
صبر کے لغوی معنی ”تنگی میں روکنے“ کے آتے ہیں۔اور شرعاً صبر کے مختلف درجات ہیں۔

ایک درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو خلاف شرع کاموں سے روک کر رکھا جائے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ طاعات وعبادات میں اپنے نفس کو جما کررکھا جائے۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ مصیبتوں اور تکالیف میں جزع وفزع سے گریز کرتے ہوئے ان تکالیف کو اپنے رب کی طرف سے آزمائش سمجھا جائے، البتہ ایسے مواقع میں تکلیف کا اظہار صبر کے منافی نہیں۔ صبر کی تشریح سے ہی معلوم ہو گیا کہ تخفیف غم میں اس کا کیا دخل ہے ، جب مومن ہر تکلیف کو اپنے معبود کی طرف سے سمجھے گا تو یقینا اس تکلیف سے جلد نجات اور دنیا وآخرت میں اس کے بہترین بدلہ کی امید بھی الله تعالیٰ سے رکھے گا، اس وجہ سے مصیبت کے مواقع میں خالق سے آسرے کی ایک مضبوط ڈھارس بندھی رہتی ہے، جس سے غم ہلکا ہوتا جاتا ہے۔

نمازپریشانی کا مداوا ہے
تخفیف غم میں دوسری مؤثر چیز نماز ہے ،نماز وہ عبادت ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس جب بندہ پورے خشوع وخضوع اور استحضار قلب کے ساتھ نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی توجہ دنیاوی پریشانیوں سے ہٹ جاتی ہے۔

علاوہ ازیں غموم وہموم کا ختم ہونا نماز کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کا ادراک عقل سے معلوم ہونا ضروری نہیں ، بلکہ اس راز کو وہی لوگ پہچان سکتے ہیں جن کی صفت قرآن کریم میں یہ بیان کی گئی ہے ﴿الّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلوٰتِہمْ خَاشِعُوْنَ﴾یعنی”جو (لوگ)) اپنی نماز میں جھکنے والے ہیں“۔

سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم ہراہم معاملہ میں نماز کا سہارا حاصل کرتے تھے ،غزوہٴ بدر میں کفار کا پورا لاؤ لشکر مکمل جاہ وحشم کے ساتھ مومنین کو ختم کر دینے کے لیے بے تاب تھا ، جب کہ مقابلے میں بے سروسامان مسلمان صرف الله کے سہارے پرتھے اور پیغمبر خدا نماز میں اپنے رب سے آہ وزاری میں مصروف رہے۔پریشانی بڑی ہو یا چھوٹی ،آپ علیہ السلام نماز ہی سے اس کا مداوا فرمایا کرتے تھے، حتی کہ آندھی طوفان آنے پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نماز کے لیے مسجد کا رخ فرماتے تھے۔

شہید کو مردہ مت کہو
غزوہ بدر کے شہدا کی عظمت وقربانی کے اثر کو زائل کرنے کے لیے مشرکین ومنافقین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ان لوگوں نے بے فائدہ جان گنوائی ہے اور زندگی کے لطف سے محروم ہو گئے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَن یُّقْتَلُ فِی سَبِیْلِ اللهِ اَمْواتٌ ﴾․

گزشتہ آیات میں مصیبتوں پر صبر وصلوٰة کی تلقین کی گئی تھی، اس کی ایک وجہ تو وہی تھی جو سابقہ مضمون میں گزر چکی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ تحویل قبلہ کے بعد مسلمانوں کا تشخص مشرکین عرب اور اہل کتاب سے بالکل جداگانہ ایک مستقل امت کے طور پر سامنے آچکا تھا، یہی وہ تشخص تھا جو کفار کی آنکھوں میں مسلسل کھٹکتا رہتا تھا، جس کا لازمی نتیجہ جنگ وجدال کی شکل میں نکلنا تھا، جس میں جانی، مالی نقصان کا پیش آنا ایک لازمی امر تھا، اس لیے اہل ایمان کو صبر وصلوة کی تلقین کے ساتھ ترغیبی انداز میں اس راہ میں شہید ہونے والوں کی فضیلت بیان کی جارہی ہے کہ انہیں مردہ مت کہو۔

شہید کی زندگی
شہداء کو دنیوی اعتبار سے مردہ کہنا جائز ہے۔ کیوں کہ ان کی یہ زندگی برزخی ہے۔ حیات برزخیہ مرنے کے بعد انبیاء اور شہداء، حتی کہ تمام انسانوں کو حاصل ہے، کیوں کہ مرنے کے بعدنعمت وعذاب قبر کا دار ومدار اسی حیات پر موقوف ہے، لیکن مقام شرف میں شہداء ہی کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ شہید سب سے قیمتی مقصد” اعلائے کلمة الله“ کے لیے اپنی جان بارگاہ الہٰی میں پیش کر دیتا ہے، لہٰذا برزخی زندگی میں اس پر بہت زیادہ انعامات کی بارش ہوتی ہے۔چناں چہ حدیث میں ہے کہ شہداء کی ارواح جنت میں سبز پرندوں کے پوٹوں میں جنت کی سیر کرتی ہیں ،انہی انعامات کا نتیجہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے باوجود شہید یہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں دوبارہ لوٹا کر پھر سے شہادت کا جام پلایا جائے۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:1887)

پس اس پُرمُسرت حیات برزخیہ کی بنا پر یہ فرمایا گیا ہے کہ اصل حیات تو شہید کی ہے، برخلاف عام لوگوں کے کہ ان کی برزخی زندگی شہدا کے مقابلے میں کمتر ہے۔

حیات انبیاعليه السلام
مذکورہ آیت میں اکثر مفسرین نے دلالةالنص سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ انبیا علیہم السلام بعد از وفات اپنی قبور شریفہ میں فائز الحیات ہیں؛ کیوں کہ آیت میں ان شہدا کو زندہ فرمایا گیا ہے جو الله کی راہ میں اپنی جان قربان کر ڈالتے ہیں تو انبیائے کرام صلوٰت الله علہیم اجمعین جن کی بعثت ہی مقصد الہی کے لیے ہوئی اور ان کی زندگی اور موت محض الله ہی کے لیے تھی توان کا درجہ بطریق اولیٰ شہید کی حیات سے قوی ترحیات کے ساتھ متصف ہو گا۔

مسئلہ حیات الانبیا آیت قرآنیہ ، احادیث مبارکہ اور اجماع امّت سے ثابت ہے اور اہل سنت میں قرن اوّل سے آج تک مسلّمہ حیثیت سے منقول ہوتا چلا آیا ہے۔

پوری اسلامی تاریخ میں کسی بھی نام ور اہل سنت سے اس عقیدے کے خلاف کوئی قول یا تصنیف منقول نہیں۔ ہاں بے لگام، عقل کے نابینا غلام، معتزلہ ضرور اس کے منکر ہوئے اورکرامیہ نے بھی اس عقیدے سے انحراف کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی اہل سنت نہیں کہلاتا۔

عقیدہٴ اہل سنّت والجماعت
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس دنیا سے انتقال فرمانے کے بعد عالم برزخ میں جو حیات حاصل ہے وہ روح مبارک کے تعلق سے اسی دنیوی جسد اطہر کے ساتھ ہے جو روضہٴ انور میں محفوظ موجود ہے اور اسی تعلق روح کی وجہ سے آپ روضہٴ انور پر پڑھے گئے درود وسلام کو بغیر کسی واسطہ کے علی الدوام خود سماعت فرماتے ہیں۔

دلائل حیات الانبیاعليه السلام
 فرمان باری تعالیٰ ہے۔﴿وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ﴾․اور نہ کہو ان کو جومارے گئے خدا کی راہ میں کہ مردہ ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تم کو خبر نہیں۔

استدلال: جب شہداء کے لیے مقتول ہو جانے کے باوجود یہ حیات طیبہ ثابت ہے تو انبیا کے لیے یقینا اس سے بھی اعلی وارفع حیات بدرجہ اولیٰ ثابت ہو گی۔مذکورہ آیت میں انبیاء عليه السلام کی حیات بعد الممات کا ثبوت دلالة النّص سے ثابت ہو رہاہے۔

لیکن کیا یہ حیات جو انبیا وشہداء کو بعد الموت حاصل ہے، دنیوی جسم کے ساتھ ہے یا محض روحانی؟ اس بارے میں کتاب الله کی کیا شہادت ہے؟ تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں الله کی راہ میں مقتول کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے اور شہید جسم اور روح کا مجموعہ ہی ہے، جو الله کی راہ میں قتل کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا نعمت حیات سے بھی یہی جسم دنیوی مع روح مشرف ہو گا ،نہ کہ کوئی اور جسم۔

او رپھر ” امواتٌ “ اور ”احیاء“ سے قبل دونوں جگہوں میں ”ہُمْ“ مقدر ہے ۔ یعنی آیت میں ”ہُمْ اموات“ کہنے کی ممانعت کرکے ”ھُمْ اَحْیَاٌء“ فرمایا گیا ہے ۔ دونوں تعبیر جملہ اسمیہ میں ہیں، جملہ اسمیہ دوام استمرار پر دلالت کرتا ہے، پس مطلب یہ ہوا کہ انہیں، مستمر الموت نہ کہو، کیوں کہ موت اگرچہ واقع ہوئی، لیکن یہ ان پر دائمی نہیں بلکہ وہ تو اب مستمر الحیات ہیں۔اگرچہ عالم دنیا میں رہتے ہوئے عالم برزخ کی اس خاص زندگی کا شعور ہمیں حاصل نہ ہو۔

شہدا کی اس زندگی کے متعلق دوسری جگہ کچھ یوں ہے:﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ، فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُواْ بِہِم مِّنْ خَلْفِہِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون﴾․(أل عمران:169تا170)
ترجمہ: (اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے الله کی راہ میں مردہ، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس، کھاتے پیتے خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو الله نے اپنے فضل سے ۔ اور خوش وقت ہوتے ہیں ان کی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پیچھے سے، اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ ان کو غم۔)

مذکورہ آیت میں لفظ ”یْرُزَقُوْنْ“ اور ”یَسْتَبْشِرُوْنَ“ شہداء کے لیے لائے گئے ہیں اور جس طرح رزق، حیات جسمانیہ کا تقاضا کرتا ہے اسی طرح دوسرا لفظ استبشار بھی جسمانی حیات کا تقاضا کرتا ہے ،کیوں کہ ”بشر“ اس خوشی کو کہتے ہیں جس کا اثر انسانی کھال پر ظاہر ہو۔

جسد کے ساتھ تعلق روح کی نوعیت
جب روح جسم سے جدا ہوتی ہے تو موت کا تحقق ہو جاتا ہے ، وقوع موت کے بعد جس زندگی سے واسطہ پڑتا ہے اسے برزخی زندگی کہتے ہیں، برزخی زندگی میں روح کا تعلق جسم سے دوبارہ استوار ہوتا ہے، اگرچہ روح کی جائے قرار علیین یا سجین ہے، مگر وہاں ہوتے ہوئے روح کا تعلق جسم کے ساتھ ہوجانے میں کوئی امر مانع نہیں، یہ تعلق بس اسی قدر ہوتاہے کہ مردے کو تلذذ، تکلیف کا احساس ہو سکے۔

یہ تعلق ہر انسان سے ہوتا ہے، مگر شہدا کی ارواح کا تعلق ان کے جسم کے ساتھ عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، اس لیے قرآن کریم نے انہیں ”احیاء“ قرار دیا، انبیاء علیہم السلام کا درجہ شہدا سے بھی بلند ہوتا ہے، اس لیے ان کی ارواح کا تعلق ان کے جسموں سے سب سے زیادہ ہوتا ہے ،اس لیے انبیا علیہم السلام کی حیات شہدا کی حیات سے بھی زیادہ قوی ہوتی ہے۔

ایک شبہے کا جواب
شہدا کی حیات کیسی ہے؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض فقط روحانی حیات کے قائل ہیں، جب کہ جمہور سلف صالحین روحانی بمع جسمانی کے قائل ہیں۔ جس کی تصریح علامہ آلوسی رحمہ الله نے فرمائی ہے۔ (روح المعانی، البقرة، ذیل آیت:154)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی اختلاف آپ علیہ السلام کی کیفیت حیات میں بھی متحقق ہو گا یا نہیں؟ کیوں کہ آپ علیہ السلام کی حیات پر جس آیت سے استدلال کیا جارہا ہے وہ شہدا کی حیات کے متعلق صریح ہے۔ جب شہدا کی کیفیت حیات پر اختلاف ثابت ہے تو آپ علیہ السلام کی کیفیت حیات پر یہ اختلاف بدرجہ اولیٰ ثابت ہو گا۔

اس کا جواب یہ ہے آپ عليه السلام کی کیفیت حیات پر یہ اختلاف درست نہیں، کیوں کہ آپ عليه السلام کی حیات صرف شہدا کے متعلق آیت کریمہ سے ثابت نہیں ہو رہی ہے ۔ بلکہ آپ کی روح کا آپ کے جسم عنصری کے ساتھ تعلق کا ثبوت احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، اس لیے شہدا کی کیفیت حیات کا اختلاف آپ عليه السلام کی کیفیت حیات میں متحقق نہیں ہوگا۔ لہٰذا آپ کی روح کا تعلق آپ کے جسم عنصری کے ساتھ ہے اور آپ کی حیات روحانی بمع جسمانی ہے۔

عقیدہ حیات الانبیا علیہم السلام احادیث مبارکہ کی روشنی میں
اب ہم وہ احادیث پیش کریں گے جن سے عقیدہٴ حیات الانبیا ثابت ہوتا ہے ۔

”عن انس بن مالک قال، قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون․“ (مسند ابی یعلیٰ، ج:6، ص:147، رقم الحدیث:3425، ط: دارالمأمون للتراث) ( اسی طرح دیکھیے، حیات الانبیاء للبیھقی،1/70، ط: مکتبة العلوم مدینہ)

حضرت انس بن مالک ص سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ انبیائے کرام اپنی قبور میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں۔

محدثین نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے ۔(رواہ ابو یعلیٰ والبزار ورجال ابو یعلیٰ ثقات، (مجمع الزوائد،8/144، دارالفکر رقم الحدیث،13812، اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، (دیکھیے فتح الباری، 6/487، دارالمعرفة بیروت، وھو حدیث صحیح)

اسی میں نہ صرف انبیا کی حیات کا ثبوت ہے، بلکہ ان کے لیے قبور میں زندوں جیسے اعمال کا بھی ثبوت ہے ۔

عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: من صلی علي عند قبری سمعتہ، ومن صلی علی نائیاً اُبلغتہ․( مشکوة المصابیح، باب الصلاة علي النبی صلی الله علیہ وسلم ،1/204،ط: مکتب اسلامی، بیروت، شعب الایمان للبیہقی، تعظیم النبی،3/5140ط: مکتبة الرشید، رقم:1481 کنز العمال، باب فی الصلاة علیہ، رقم:2165، ط:مؤسسة الرسالة، حیاة الانبیاء،1/104، مکتبة العلوم والحکم)

”یعنی جو شخص مجھ پر میری قبر کے پاس درورد پڑھے اسے میں خود سنتاہوں اور جو شخص دور سے درود پڑھے وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے ۔“

فتح الباری اور مرقاة میں اس حدیث کی تصحیح کی گئی ہے، قبر میں درود کا سماعت فرمانا حیات پر دلیل ہے۔ (وأخرجہ ابوالشیخ فی کتاب الثواب بسند جید بلفظ الیٰ آخرہ․ ( فتح الباری، ابن حجر، باب قول الله عزوجل: ﴿واذکر فی الکتاب مریم﴾۶/۴۸۸، دارالمعرفة بیروت)

مرقاة: (مرقاة 2/10) اور فتح الملہم(فتح الملہم 1/313 میں بھی انہیں الفاظ کے ساتھ تصحیح کی گئی ہے)

ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ”مررت علیٰ موسیٰ لیلة اُسری بی عند الکثیب الأحمر، وھو قائم یصلی فی قبرہ․ ( صحیح مسلم، باب: من فضائل موسی عليه السلام، 6306، 7/102، دارالجیل بیروت)

ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس رات مجھے معراج کرائی گئی، موسیٰ عليه السلام پر سے میرا گزر ہوا تو میں نے انہیں لال ٹیلے کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ (جاری)

Flag Counter