Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 16
آج ہر جگہ مسلمان مارکیوں کھارہا ہے؟

حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ
	
آج لوگ شکایت کرتے ہیں مختلف اقوام کی کہ ، دنیا کی قومیں ہم پر ظلم کر رہی ہیں، عیسائیوں نے یہ ظلم کیا، ہندوؤں نے یہ ظلم کیا، مکان جلا دیے، جانیں تلف کر دیں۔ میں کہتا ہوں یہ شکوہ غلط ہے، کسی نے آپ کو نہیں مارا پیٹا، آپ نے خود اپنے نفس کے اوپر ظلم کیا، اس واسطے کہ آپ جس چیز سے زندہ تھے وہ روح قرآنی، روح ایمانی تھی، جب وہ روح آپ نے مضمحل کر دی ، ختم کر دی، تولاشہ بن گئے، تو ہر قوم کا فرض ہے کہ لاش کو دفن کر دے، جلا دے، اگر وہ پڑی رہ جائے گی تو بدبو پھیلے گی، دینا میں تعفن پھیلے گا، صحتیں خراب ہو جائیں گی ، تو اگر لاشے کو کوئی قوم جلا دے، دفنا دے، تو شکوہ کیوں؟ صورت اس کی یہ ہے کہ روح پیدا کرو، زندہ پر حملہ کرنے کی کسی کو جرأت نہیں ہو سکتی، لاش پڑی ہوئی ہو گی، جس کا جی چاہے گا حملہ کر دے گا، تو آپ لاش کی طرح بن گئے ہیں، پھر اگر کوئی جلادے تو روتے کیوں ہیں آپ؟ کوئی اگر مار دے تو روتے کیوں ہیں آپ؟ آپ اپنے اندر روح پیدا کیجیے، جب جان دار بنیں گے، کسی کو مجال نہیں کہ ترچھی آنکھ سے بھی دیکھ سکے آپ کو، اگر آپ کے اندر کچھ نہ ہو گا، جس کا جو جی چاہے کرے گا۔ گیند تو آپ نے دیکھی ہو گی، جب اس میں ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے ، اگر اُسے زمین پہ دے کے مارتے ہیں تو دس گز اوپر جاتی ہے ، وہ گیند کی طاقت نہیں، وہ ہوا کی طاقت ہے ، جو اس کے اندر بھری ہوئی ہے، ہوا آپ نکال دیں، جہاں گیند کو دے ماریں گے ، پھُس سے وہیں ہو کر رہ جائے گی، نہ اُوپر اُچھلے گی نہ کچھ، توہَوا آپ میں بھری ہوئی تھی قرآن وحدیث کی، ایمانی روح کی، جب اسے آپ نکال دیں گے، جس کا جہاں جی چاہے پٹخ دے وہیں پڑے رہ جائیں گے او راگر ہوا ہے اندر، اگر کوئی پٹخ بھی دے گا تو دس گز اُوپر جائیں گے آپ اور اسے پھر ڈرنا پڑے گا آپ سے ۔ تو آپ دُوسروں کی مذمت نہ کریں، اپنی روح کو دُرست کرلیں، اپنے اندر زندگی پیدا کریں، پھر کسی کی مجال نہیں کہ نگاہ اٹھا کے بھی دیکھ سکے۔ وہ یہی روح ہے قرآن وحدیث کی، اسی روح کو لے کے صحابہ چلے تھے، تو دنیا کا نقشہ بدل دیا انہوں نے، آج اس رُوح کو ہم نے نکال دیا تو دنیا نے ہمارا نقشہ بدل دیا، یہ فرق ہے ۔ تو ایسے بنیے کہ دنیا کو آپ بدل دیں، اکبر نے کہا ہے نا #
        کیا ہوا آج جو بدلا ہے زمانے نے تجھے
        مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

تومرد بننا چاہیے نہ کہ زنخا بن جائے آدمی، نہ کہ عورت بن جائے آدمی ، توزمانے کو بدلنے کی کوشش کیجیے، نہ کہ زمانے کی رو میں بہنے کی ۔ آپ کوشش کریں وہ جب ہی ہو گا، جب قوتِ ایمانی، قوت روحانی، قوتِ قرآنی آپ کے اندر موجود ہو گی تو پھر کسی کی مجال نہیں کہ نگاہ بھر کے بھی دیکھ سکے، بلکہ آپ کی نگاہوں کو دیکھیں گے لوگ۔

یہی یہود ونصاریٰ تھے، آج سے بارہ سو برس پہلے، جو خود آتے تھے کہ ہم آپ کی حکومت چاہتے ہیں، ہم آپ کے زِیر قدم رہنا چاہتے ہیں، آج وہ آپ کو رعایا بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ فرق وہی ہے کہ اس وقت روح موجود تھی، آج اس روح کو آپ نے مضمحل کر دیا، تو قومیں آپ کو غلام بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ، یہ فرق ہے۔

مجھے واقعہ یاد آیا، مکہ معظمہ میں تھا کہ مولانا سلیم صاحب مرحوم باحیات تھے، تو یہ جو صہیونی انقلاب ہوا او رمصر کے بعض علاقوں پر یہودیوں نے قبضہ کیا اور مسجد اقصیٰ بھی ان کے ہاتھ میں چلی گئی، اس کا واقعہ بیان کیا اس شخص نے جو مصر سے آیا تھا کہ ، جب یہودیوں کا غزہ پر قبضہ ہو گیا، تو مسلمان وہاں سے بھاگے کہ کسی طرح مصر کے علاقے میں پہنچ جائیں، جان بچے، آبرو بچے، اس میں ایک عالم بیچارے بوڑھے وہ بھی نکلے، بیوی ساتھ، بچے ساتھ، سواری کچھ نہیں ، پیدل ہانپتے کانپتے کہ تیس چالیس میل ہے العریش اور وہاں سے مصر (قاہرہ) کی سرحد قریب ہے، میں کسی طرح قاہر ہ پہنچ جاؤں، قبضہ تو ہو چکا تھا یہودیوں کا، ادھر سے ایک یہودی کمانڈر کی جیپ آرہی تھی اور یہ عالم بیچارے بچوں کی اُنگلیاں پکڑے ہوئے جارہے تھے، اسے ان کے بڑھاپے پر کچھ رحم آیا، اس نے جیپ روک لی اور اُتر کر پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے نام بتلایا، کہاں جانا چاہتے ہیں؟ کہا کہ قاہرہ ،کیوں؟ کیوں کہ یہاں بھی بدامنی ہوگئی۔ کہا آپ کے پاس سواری نہیں ؟ کہا نہیں، سواری کچھ بھی نہیں ، یہودیوں کا قبضہ ہو گیا، اس نے کہاکہ مجھے آپ کے بڑھاپے پر رحم آرہا ہے ، آپ میری کار میں بیٹھ جائیں، میں آپ کو سرحد پر لے جاکر چھوڑ دوں، یہ بیوی بچوں، ضعفاء کو کہاں آپ لیے پھریں گے، یہاں سے چالیس میل ہے منزل۔ پہلے انہیں شبہ ہواکہ کہیں یہ بٹھا کے کہیں جاکے پٹخ نہ دے، پھر اس نے یقین دلایا کہ مجھے آپ کے بڑھاپے پر رحم آرہا ہے، آپ یقین کیجیے میں آپ کو پہنچا دوں گا۔ یہ بیٹھ گئے بچوں بیوں کو لے کر، وہ مصریوں کاکیمپ تھا، اب اس پر قبضہ تھا یہودیوں کا، اس نے ایک خیمے میں لے جاکے انہیں اتارا کہ آپ تھوڑی دیر دم لیں، سانس لیں اور میں کچھ کھانا لاتا ہوں، کھاپی لیں، پھر میں آپ کو پہنچا دوں گا۔ تو انہیں صوفے پر بٹھایا اور خود یہودی کمانڈر نیچے بیٹھ گیا اور اس نے کہا کہ حضرت عمر سے تو آپ واقف ہوں گے کہا: واقف کیا، وہ تو صحابی ہیں اورجلیل القدر خلیفہٴ نبی ہیں۔ کہا: کیا آپ ان کے کچھ اوصاف بیان کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے حضرت عمر کے فضائل، مناقب، کمالات بیان کرنا شروع کیے، وہ سنتا رہا، اس نے کہا: یہی اوصاف ہیں نا حضرت عمر کے؟ کہا: یہی، کہا: جب یہ اوصاف تھے مسلمانوں میں تو ہم یہودی ان کی جوتیوں کے نیچے تھے، آج آپ کی کیا حالت ہے؟ اس نے کہا کہ ، جس خیمہ میں میں نے آپ کو بٹھلایا ہے، یہ ایک مصری لیفٹیننٹ کا کمرہ ہے، کل پچیس فوجی اس کے ماتحت ہیں، یہ اس کا خیمہ ہے، شراب کی بوتلیں اس میں سجی ہوئی ہیں، صوفے اس میں لگے ہوئے ہیں، ناجائز عورتیں ان کے ساتھ تھیں، وہ یہودیوں سے لڑنے کے لیے آئے تھے، تو یہودی ان کے اُوپر کیوں نہ غالب ہوں؟ جب حضرت عمر کے اوصاف تھے ، تو یہودی آپ کی جوتیوں کے نیچے تھے، جب آپ کی یہ حالت ہوئی شراب وکباب کی، تو آج آپ کو ہماری جوتیوں کے نیچے ہونا چاہیے، آپ غم کیوں کر رہے ہیں؟ اب یہ عالم چپ تھے، کیا جواب دیں؟ واقعہ ہے ۔ اس نے کہا:بس مجھے یہی بتلانا تھا، اب آپ چلیے، میں آپ کو پہنچا دوں گا۔ اس نے جیپ میں بٹھا کے قاہرہ کی سرحد پر لے جاکر چھوڑ دیا اور شکریہ ادا کیا اور اس نے کہا کہ: ہم آپ کے دین کے مقابلے پر نہیں ہیں، آپ لوگوں کے مقابلے پر ہیں، آپ نہ اپنے دین کے ہیں، نہ ہمارے دین کے ہیں ، آپ تو شراب وکباب میں مصروف ہیں، تو ہم کیوں نہ لڑیں آپ سے؟ کیوں نہ قبضہ کریں آپ کے اوپر؟

میں نے اس لیے کہا کہ آج وہی یہود ونصاریٰ جو جوتیوں کے نیچے تھے آج وہ آپ کو نصیحت کررہے ہیں، اتنا انقلاب پیدا ہو گیا، کیا تھے ہم اور کیا ہو گئے؟ اس حالت کو بدلنے کی ضرورت ہے او راس کی پہلی بنیاد تعلیم وتربیت ہے کہ ، علمائے ربانی سے تعلیم پائیں، تدریس کے ذریعے قرآن وسنت کا علم حاصل کریں، اس پر عمل کرنے کی ٹرنینگ حاصل کریں، ذوق اور فہم اپنا صحیح کریں، ان کی صحبت ومعیت میں رہ کر رنگ پیدا کریں، ﴿صبغة الله ومن احسن من الله صبغة﴾ الله کا رنگ اپنے اندر داخل کریں، محض کتاب پڑھ لینا کافی نہیں ہے، اس رنگ کو بھی لینا ضروری ہے کہ ، قلب کا رشتہ بھی صحیح ہو وہ بغیر مجاہدہ وریاضت کے درست نہیں ہوتا، اس کی ضرورت ہے ، یہ مدارس اور جوسچی خانقاہیں ہیں، وہ اسی لیے قائم ہیں کہ دلوں کو بھی درست کریں، قوالب کو بھی درست کریں۔ یہ کرنا پڑے گا اور یہ نہیں کریں گے، تو پھر اس کے لیے تیار ہوجائیے کہ سارے دشمن آپ پر غالب ہوں اور آپ ان کے تحت مغلوب ہوں، آپ آئے تھے غلبہ پانے کے لیے﴿لیظھرہ علی الدین کلہ﴾ تاکہ الله کے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کردیں، جب آپ ہی میں خود وہ دین نہ ہوتو کاہے کو آپ کو غالب کریں گے؟ اس واسطے عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے۔


Flag Counter