Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 16
حقیقی بر کا ت نبو ت او ر ا سبا ب نصرت و ہزیمت ... غزوہ بدر، غزوہ اُحُدا ورحُنَین کے پس منظر میں

مولانا محمد حذیفہ وستانوی
	
حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ورضواعنہ پر جورنگ تھا، وہ سرورِ کائنات، منبع الخیرات والبرکات، علیہ افضل الصلوات والتحیات کی صحبت کا اثر تھا، مگر اس وقت اس اجنبی صحبت کے اثرات سے بلا اختیار یہ کلمہ زبان سے نکل گیا۔
        اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
        کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار ست
الغرض یہ کلمہ بارگاہِ خداوندی میں پسند نہ آیا اور بجائے فتح کے پہلے ہی وہلہ میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔

کما قال تعالیٰ: ﴿وَیَوْمَ حُنَیْْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنکُمْ شَیْْئاً وَضَاقَتْ عَلَیْْکُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْْتُم مُّدْبِرِیْنَ،ثُمَّ أَنَزلَ اللّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَی رَسُولِہِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَأَنزَلَ جُنُوداً لَّمْ تَرَوْہَا وَعذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِیْن﴾․

” اور حنین کے دن جب کہ تمہاری کثرت نے تم کو خود پسندی میں ڈال دیا، پس وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود وسیع ہونے کے تم پر تنگ ہوگئی ،پھر تم پشت پھیر کر بھاگے، اس کے بعد اللہ نے اپنی خاص تسکین اتاری ،اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان کے قلوب پر اور ایسے لشکر اتارے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزادی اور یہی سزا ہے کافروں کی۔“

لشکرِ اسلام سہ شنبہ کی شام کے وقت وادی حنین میں پہنچا، قبائل ہوازن وثقیف دونوں جانب کمین گاہوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ مالک بن عوف نے ان کو پہلے سے ہدایت کردی تھی کہ تلواروں کے نیام سب توڑ کر پھینک دو اور لشکرِ اسلام جب ادھر سے آئے تو بیس ہزار تلواروں سے ایک دم ان پر ہلہ بول دو، چناں چہ صبح کی تاریکی میں جب لشکر اسلام اس درہ سے گزرنے لگا تو بیس ہزار تلواروں سے دفعةً حملہ کردیاگیا، جس سے مسلمانوں کا لشکر سراسیمہ اور منتشر ہوگیا اور صرف دس بارہ شیدایانِ نبوت اور جاں بازانِ رسالت آپ کے پہلو میں رہ گئے، اس وقت آپ کے ہم راہ ابو بکر وعمر وعلی وعباس وفضل بن عباس واسامہ بن زید اور چند آدمی تھے ، حضرت عباس آپ کے خچر کی لگا م تھامے ہوئے تھے اور ابو سفیان بن حارث رکاب پکڑے ہوئے تھے۔ (سیرت المصطفیٰ :2/546تا 549 )

الغرض جب قبائل ہو از ن و ثقیف نے کمین گا ہو ں سے نکل کر ایک دم ہلہ بول دیا اور مسلما نو ں پر ہر طرف سے بار ش کی طرح تیر بر سنے لگے تو پیر ا کھڑ گئے ، صرف رفقائے خا ص آپ کے پا س رہ گئے ۔ آپ نے تین بار پکار کے فر مایا ، اے لو گو ! ادھر آؤ میں اللہ کا رسول اور محمد بن عبد اللہ ہو ں ۔
        انا النبی لا کذ ب  انا ابن عبد المطلب
میں سچا نبی ہو ں ، اللہ نے مجھ سے جو فتح و نصرت اور میری عصمت وحما یت کا وعد ہ کیا ہے ، وہ بالکل حق ہے ، اس میں کذ ب کا امکا ن نہیں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہو ں ۔

حضرت عبا س بلند آ و ا ز تھے، ان کو حکم دیا کہ مہا جر ین و انصار کو آواز یں دیں ، انہو ں نے بآ وا ز بلند یہ نعر ہ لگا یا ۔
یا معشر ا لا نصار، یا اصحا ب السمرة ․
” اے گرو ہ انصار ! اے وہ لو گو !جنہو ں نے کیکر کے درخت کے نیچے بیعت رضو ا ن کی تھی ۔“

آوا ز کا کا نو ں میں پہنچنا تھا کہ ایک دم سب پلٹ پڑ ے اور منٹو ں میں پرو ا نہ وا ر آ کر شمع نبوت کے گر د جمع ہو گئے ۔ آپ نے مشرکین پر حملہ کا حکم دیا ، جب گھمسا ن کی لڑ ا ئی شر و ع ہو گئی اور مید ا ن کا ر زا ر گر م ہو گیا ،تو آپ نے ایک مشت ِ خا ک لے کر کا فر وں کی طرف پھینکی اور یہ فر مایا :
” شا ہت الوجو ہ“․
صحیح مسلم کی ایک روا یت میں ہے کہ آپ نے مشت خا ک پھینکنے کے بعد یہ فر ما یا :
” انہزموا ورب محمد “
”قسم ہے رب محمد کی! انہو ں نے شکست کھائی ۔ “

کوئی انسا ن ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ میں مشت خا ک کا غبا ر نہ پہنچا ہو اور ایک لمحہ نہ گزرا تھا کہ دشمنو ں کے قد م اکھڑ گئے ، بہت سے بھا گ گئے اور بہت سے اسیر کر لیے گئے ۔اسی بار ے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فر مائیں :﴿وَیَوْمَ حُنَیْْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنکُمْ شَیْْئاً وَضَاقَتْ عَلَیْْکُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْْتُم مُّدْبِرِیْنَ، ثُمَّ أَنَزلَ اللّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَی رَسُولِہِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَأَنزَلَ جُنُوداً لَّمْ تَرَوْہَا وَعذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِیْن﴾․(التوبہ) ادھر آپ نے ایک مشت خاک پھینکی اور ادھر بہا در ان اسلا م نے محض اللہ کی نصرت اور اعانت پر بھر وسہ کر کے حملہ کیا ۔ دم کے دم میں کا یا پلٹ ہوگئی ۔ بہا درا ن ہوازن کے، باوجو د قو ت اور شو کت کے، پیر ا کھڑ گئے اور مسلما نو ں نے ان کو گرفتا ر کر نا شروع کر دیا، دشمن کے ستر آ دمی معر کہ میں کا م آئے اور بہت سے گر فتا ر ہوئے اور بہت کچھ مال و اسبا ب ہا تھ آیا۔ (سیر ت المصطفیٰ: 2/549تا 551 )

پور ی بحث کا خلا صہ یہ ہے کہ مسلما نو ں کے ہز یمت کے اہم تر ین اسباب یہ ہو سکتے ہیں ۔

اطا عت رسو ل سے انحر ا ف یا کمزو ری
آ ج امت کا حال اس سلسلہ میں نا قابل بیا ن ہے ، صحابہ نے تو عمداً یہ سب نہیں کیا ،ان سے تو بھولے میں ایسا ہو ا ،مگر آج ہم عمداً علمی و عملی ہر اعتبا ر سے اطا عت رسو ل سے انحرا ف کر رہے ہیں ،کہیں کوئی صر یح آیا تِ قرآنیہ اور احا دیثِ نبو یہ کی با طل تا ویلات میں لگا ہے تو کوئی بدعت کو سنت جتلانے میں اور سنت کو بد عت ثا بت کر نے پر تلا ہو ا ہے ، ایسے حا لا ت میں ہمار ا حا ل وہی ہو نا چا ہیے جو ہو رہا ہے ، جب صحا بہ سے چو ک اور انجا نے میں ہو ا تو وہ عارضی شکست سے دو چا ر ہو ئے ،ہم تو عمداً کر رہے ہیں؛ لہٰذا طویل ذلت میں گر فتا ر ہوئے ہیں ،علاج سوائے اطاعت کے اور کچھ نہیں ہے ۔اللہ ہمیں کامل اطاعتِ رسول کی توفیق عطا فرمائے، آمین یارب العالمین۔

آپسی اختلاف وانتشار
جب صحابہ سے بے خیالی میں ایک چوک ہوئی اور آپس میں معمولی اختلاف ہوا، جس میں نہ مار پیٹ ہوئی ، نہ گالی گلوچ ہوئی، نہ سبّ وشتم ہوا، نہ الزام تراشی ہوئی ، نہ عزت سوزی ہوئی، نہ کسی نے کسی کو ذلیل کیا ، اس کے باوجود”اقرباں را بیش بود حیرانی“ کے اصول کے تحت ان کو عارضی شکست ہوئی، تو آج ہمارا حال کیا ہے کہ دینی، دنیوی ،گھریلو ،خاندانی، معاشرتی ، سیاسی، مذہبی، اصولی ،فروعی ہرطرح کے اختلافات میں ہم نے تمام حدود پار کردیے ہیں اور مدِّ مقابل کو اذیت وتکلیف پہنچانے میں کوئی حربہ ہمارے عوام تو عوام، خواص بھی نہیں چھوڑتے، جاہل تو جاہل، دین دار طبقہ، بلکہ علم ودانش سے وابستہ راہ نما قسم کے لوگ بھی اس میں کسر نہیں چھوڑتے اور اسے مستحسن اور جائز ہی نہیں،بلکہ واجب تک کا درجہ دے دیتے ہیں!! جو مزید امت کے آپسی اختلاف وانتشار کا سبب ہوتا ہے اور اب تو مسلمان تمام حدود پار کرچکے ہیں۔ ایک اللہ، ایک رسول ، ایک کتاب کے ماننے والے ہو کر بھی ایک دوسرے کے ناحق قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے ، إنا اللہ وإنا الیہ راجعون، لا حول ولا قوة الا باللہ ایسے حالات میں کیا ہم ہزیمت اور ذلت سے نبردآزما ہوسکتے ہیں؟ ہرگزنہیں ۔حالات تمام تر تدابیر کو اختیار کرنے کے بعد بھی اس وقت تک نہیں بدل سکتے، جب تک کتاب اللہ کے بیان کردہ ان اسباب نصرت کو عملی صورت میں اختیار نہ کیا جائے اور اسباب ہزیمت سے کلی اجتناب نہ کیا جائے، اللہم الف بین قلوبنا، واصلح ذات بیننا، اللہم ارنا الحق حقا، وارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ․

حب دنیا
صحابہ میں تو یہ مادہ نہ ہونے کے برابر تھا، مگر جہاں تھوڑا بھی شائبہ ہوا،اللہ نے عارضی شکست دے کر تربیت کی کہ ہر حال میں حُبِّ آخرت، حُب دنیا پر مقدم ہونی چاہیے ،اب ہمارے ریاستی اور عالمی احوال پر ایک نظر دوڑائیں کہ آج امت کا ہر طبقہ حب دنیا کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگیا ہے،مال کمانے میں حرام حلال کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی؛حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس بات سے مطلع کردیا تھا کہ میری امت فتنہٴ مال سے بری طرح دوچار ہوگی۔

محدث کبیر حضرت مولانامحمد یوسف صاحب نے آج سے تقریبًا چالیس سال قبل ایک مضمون لکھا تھا ”فتنہ جیب فتنہ پیٹ“ کے عنوان سے، جس میں صاف لکھا تھا کہ امت آج مال کے پیچھے دیوانی ہوگئی ہے، طرح طرح کے نام دیکر حرام صورتوں کو حلال قرار دیا جارہا ہے، مثلاً سود کو یوژری انٹریسٹ تجارتی سود وغیرہ کے نام سے اور جوا کو لاٹری انشورنس بیمہ وغیرہ کے نام سے، بیع قبل القبض کو وعدہٴ بیع کے نام سے، آج زمین ومکان پلاٹ اور فلیٹ کا کاروبار کرنے والے90/ فی صد ناجائز اور غیر شرعی طریقوں سے معاملات کر رہے ہیں، جو کسی صورت میں جائز نہیں، حالاں کہ مومن کے پیش نظر آخرت اور اس کی کام یابی ہونی چاہیے، اللہ ہمیں ہدایت دے اور حرام خوری سے خلاصی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ پر اعتماد نہ کرکے اسباب دنیا پر تکیہ
حضرات صحابہ نے صرف دل میں یہ خیال کیا کہ آج تو ہم زیادہ ہیں ، تو اللہ نے عارضی شکست اور غم سے دوچار کیا۔ جب کہ ہمارا حال تو ایسا برا ہے کہ بس پوچھنا ہی کیا؟ خاص طور پر دنیا دار اور تعلیم یافتہ طبقہ، تو صرف ظاہری اسباب پر ہی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ امت کے پاس ٹیکنا لوجی، مال ، حکومت، طاقت وغیرہ جب تک نہ آئیں گے امت تنزلی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی!! حالاں کہ مسلمان اور مومن کے لیے یہ سراسر غلط نظریہ ہے، سب کچھ ہونے کے باوجود اگر اطاعتِ رسول اور حبِ آخرت ،جو اساس ہے، نہیں ہوگی تو کبھی بھی امت مسلمہ کے حالات نہیں بدل سکتے، بلکہ اور برے ہوں گے۔

کیا امت کے پاس آج جو مال ہے، آج جو ٹیکنا لوجی ہے ، آج جو طاقت ہے، آج جو افرادی قوت ہے؛ وہ پہلے کبھی تھی؟ نہیں۔ مگر پھر بھی اصل اور جڑ کو چھوڑنے کی وجہ سے دن بدن پستی کی طرف جارہی ہے، اس کا علاج صرف یہ ہے کہ تجارت ، زراعت، لین دین اور تمام مالی ،سیاسی،معاشرتی وغیرہ معاملات میں ،جب تک کامل اتباع ِشریعت نہیں کریں گے احوال نہیں بدلیں گے۔ اللہم انا نسئلک رزقا حلالا طیبا․

یہ تھے امہات الاسباب ، جن کی وجہ سے امت پچھلے تقریبًا کئی سالوں سے پستی کی طرف بڑھتی ہی چلی جارہی ہے تو آئیے !ہم سب مل کر موشگافیوں اور بلند وبالا نعروں کے بجائے ربیع الاول کی مناسبت سے چند امور کو زندگی میں جگہ دینے اور دوسروں کو بھی اس پر آمدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

توبہ
آئیے !ہم اللہ سے سچی پکی توبہ کرتے ہیں کہ اب انشاء اللہ آپ کی نامرضیات والے کام چھوڑ کر مرضیات والے اعمال کو اختیار کریں گے،کیوں کہ اے اللہ! تو توبہ کو پسند بھی کر تا ہے اور قبول بھی کرتا ہے، اے اللہ! ہمیں توبةً نصوحاکی توفیق سے نواز دے، آمین۔

برے دوست سے قطع تعلق
صحبت اور دوستی کا انسان پر بڑا زبردست اثر مرتب ہوتا ہے، انسانوں کو اچھی اور نیک صحبت کے لیے انسانوں میں انبیاء کی بعثت بھی ایک سبب ہے، تو آئیے! ہم بھی یا تو نیک صحبت اختیار کریں گے، یا یکسوئی سے کسی سے دوستی کیے بغیر اپنا کام کرتے رہیں گے، یہ کام بہت د شوار ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بعید نہیں، اے اللہ! ہمیں نیک رفقاء عطافرما اور برے رفقاء اور اصدقاء سے ہماری حفاظت فرما، آمین۔

حسن اخلاق اختیار کریں
آئیے! ہم یہ طے کرلیں کہ اسلامی اخلاق کو زندگی کے قدم قدم پر جگہ دیں گے، اسلامی اخلاق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ” کسی کو ناحق اذیت اور تکلیف نہ پہنچائی جائے“ نہ سامنے ، نہ پیٹھ پیچھے، اللہم أحسن اخلاقنا․

ایمانی شجاعت پیدا کریں
ایمانی شجاعت کا مطلب حق کے لیے مر مٹنا ،جان، مال، آبرو، عزت، منصب سب کچھ محض حق کے دفاع یا حق کے نشر کرنے کی خاطر قربان کردینا، بلکہ اہل حق کی حفاظت اور تعاون کی ہر ممکن کوشش کرنا، اے اللہ! ہمیں حق پر سب کچھ نچھاور کرنے والا بنا دے۔

علم دین حاصل کریں
آج دنیا پرستی کی خاطر ہم اپنا پورا وقت صرف کر رہے ہیں اور دین کے لیے تھوڑا سا وقت دینا بھی گراں گزرتا ہے ،حالاں کہ موٴمن کی شان اس کے برعکس ہونی چاہیے، ہر مسلمان کو فرائض اور عقائد کا علم ہونا ضروری ہے، لہذا عقائد اور نمازروزہ زکوة حج وغیرہ کے ساتھ ساتھ جو بھی کام کریں اس کا حکم شرعی ضرور معلوم کریں، تاکہ حلال وحرام کی تمیز ہو سکے اور معلوم بھی مستند علماء سے کریں، ہر کس وناکس اور نااہل سے نہ کریں۔

ہر جائز کام کو اتقان کے ساتھ کریں
غفلت، سستی اور لاپرواہی سے کلی اجتناب برتیں اور جو بھی کام کریں اسے خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کریں اوربے تربیتی اور بدنظمی سے بچنے کی کوشش کریں۔

ظاہر وباطن کو پاک کریں
اپنے ظاہر وباطن کو پاک صاف رکھیں، کسی کے بارے میں دل میں کینہ ،حسد ،بغض وغیرہ نہ رکھیں اور نہ ظاہری اعتبار سے گندگی اور ناپاک خیال کے ساتھ زندگی گزاریں، بلکہ ہمیشہ صاف ستھرا رہنے کی کوشش کریں۔ہر حال میں اطاعت رسول کو لازم سمجھیں اور اسے عملی جامہ پہنائیں۔

برکات نبوت
برکاتِ نبوت کے عنوان سے آپ نے یہ سوچا ہوگا کہ مَومبارک وغیرہ کی تفصیل بتلاوٴں گا، اس میں شک نہیں کہ یہ بھی برکات نبوت ہے، مگر حقیقی برکاتِ نبوت وہ ہے، جس کی نشان دہی حضرت عباس نے کی ”ویلک انہا النبوة“سے کی، یہ سب نبوت کی برکتیں ہیں، یعنی مومن کی کامل کام یابی کا مدار منہجِ نبوت کی اتباع ہے، اگر ہم مسلمانوں کی زندگی میں منہج نبوت آگیا تو ہمارے دنیا وآخرت کے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ میں اپنے مضمون کو مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے ایک اقتباس پر سمیٹتا ہوں۔

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَومَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیرًا﴾․
” بلا شبہ تمہارے لیے رسول اللہ( صلی الله علیہ وسلم کی سیرت) میں بہترین نمونہ ہے، ان لوگوں کے لیے جو اللہ کا اور یوم آخرت کا یقین رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔“

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے حقیقی ہدایت ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ،جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر نہ صرف یقین رکھتے ہوں، بلکہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے ہوں، جو سیرت طیبہ کا مذاکرہ صرف نمود ونمائش یا رسم پُری کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ہدایت کی سچی طلب سے کریں، جن کے دلوں میں حق کی تشنگی ہو اور وہ واقعتًا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہوں۔ اس معیار پر ہم میں سے ہر شخص اپنا جائزہ لے کر دیکھ سکتا ہے کہ وہ کس نیت اور کس مقصد سے یہ محفل منعقد کر رہا ہے؟ اور اس میں قرآن کریم کی بیان فرمائی ہوئی یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں؟

اگر واقعتًا ہدایت کی سچی تڑپ اور اصلاحِ حال کا حقیقی جذبہ لے کر ہم سیرت طیبہ کا مذاکرہ کریں تو ممکن نہیں ہے کہ ہماری عملی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ اگر ہم اتنا ہی تہیہ کر لیں کہ سیرت طیبہ کے ذکر مبارک کے بعد ہم میں سے ہر شخص کم از کم دس ایسی سنتوں پر عمل پیرا ہوگا جن پر وہ پہلے کا ر بند نہیں تھا، تو تھوڑے ہی عرصے کے اندر ہمارے معاشرے میں انقلاب آسکتا ہے۔ معاشرے کی وہ برائیاں جو ہمیں گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں، ان کے لیے سیرت طیبہ سے ہدایت طلبی ہی موٴثر علاج بن سکتی ہے۔ اگر سیرت طیبہ کی ان محفلوں میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ زندگی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے حوالے سے ان معاشرتی برائیوں کو موضوع بنایا جائے، کہنے والے کے دل میں دعوت واصلاح کا سوز ہو اور سننے والے اصلاحِ حال کی تشنگی لے کر جائیں، تو ایک ایک کرکے ساری معاشرتی برائیوں کا سد باب ہوسکتا ہے۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، جس پر ہم سب کو درد مندی کے ساتھ غور کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت طیبہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور اس کے حقیقی تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہم وفقنا لاتباع منہج النبوة ومنہج السلف الصالح، ووفقنا بالقول والفعل والعمل لما تحب، انت ربنا وترضٰی.

Flag Counter