Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

2 - 16
مسلمانوں کی عمومی تعلیم وتربیت

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
	
امیوں کی تعلیم وتربیت
سب جانتے ہیں کہ رسول الله ( صلی الله علیہ وسلم ) کی بعثت ایک ایسی قوم میں ہوئی جو تقریباً سب کی سب ناخواندہ تھی، یہاں تک کہ قرآن مجید میں نبی ( صلی الله علیہ وسلم ) کی بعثت وتعلیم کے تذکرے میں اس قوم کو امیین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے :﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾․(سورة الجمعة/2)

﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُم﴾ْ(سورة الجمعة/2) ( وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں کا بھیجا)

اس جہالت کے ساتھ ضلالت کے ایسے درجے میں تھی جس کے لیے قرآن مجید کے ان الفاظ سے زیادہ واضح او رکیا ہو سکتے ہیں:﴿وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْن﴾․ْ(سورة الجمعة/2) (اور اس سے پہلے وہ صریح گم راہی اور بھلاوے میں پڑے ہوئے تھے)۔

﴿وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّار﴾․ (آل عمران:103) (تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے)۔

اس خدانا آشنا اور حرف ناشناس قوم کو صرف کتابی تعلیم دینی نہ تھی، بلکہ کتاب وحکمت کا عملی علم بخشنا، مہذب وآراستہ، پاکیزہ سیرت اور فرشتہ خصلت اور ساری دنیا کا ہادی ومصلح بنانا تھا۔

﴿یَتْلُوا عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ﴾․ ( سورة الجمعة:2) (رسول ان کو الله کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، ان کو سنوارتا او رکتاب وحکمت سکھاتا ہے )۔

اتنی بڑی قوم میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے ایسی حالت میں کہ وہ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کی کوئی رغبت وآمادگی نہیں رکھتی تھی، بلکہ کچھ سننے کے لیے بھی تیارنہ تھی، کوئی بڑی سے بڑی درس گاہ یا بکثرت درس گاہیں غیر مفید اورنا کافی تھیں، چہ جائیکہ اس وقت کسی ایک تعلیم گاہ کا سامان بھی نہ تھا اور کسی ایک تعلیم گاہ کے لیے بھی معلم اور طالب علم موجود نہ تھے، پھر اگر کوئی ایسی تعلیم گاہ یا متعدد تعلیم گاہیں قائم بھی ہو جاتیں تو ظاہر ہے کہ ان کا فائدہ اور اثر محدود ہوتا اور نتیجہ اس سے زیادہ کچھ نہ ہوتا کہ چند ذہین اور شوقین افراد پڑھ لکھ جاتے، ان میں علم کا زعم اور فخر پیدا ہو جاتا اور وہ اپنے کو ایک نوع اور ممتاز طبقہ سمجھنے لگتے اور اس طرح پوری قوم میں پھیلنے کے بجائے علم ایک جگہ بڑی مقدار میں جمع ہو جاتا۔

علم سے پہلے ایمان
رسول الله ( صلی الله علیہ وسلم) نے اس عمومی انقلاب حال کے لیے الله کی ہدایت سے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اپنی کام یابی اور نتائج کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے اور اپنی حکمت وسہولت میں بھی، آپ نے اُنمیں پہلے دین کی طلب اور علم دین کی ضرورت کا احساس پیدکیا اور الله کے وعدوں پر یقین کرنا سکھایا، ایک صحابی کا قول ہے:

”تعلمنا الإیمان، ثم تعلمنا القرآن“ ( ہم نے پہلے الله کی باتوں پر یقین کرنا سیکھا ،پھر قرآن کا علم حاصل کیا)۔

اسی ایمان کی قوت اور اسی طلب صادق میں انہوں نے گھر چھوڑا، مشقتیں برداشت کیں، ان میں سے ہر ایک اپنی نجات اور ہدایت کے لیے ضروری علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا، اس کے لیے سفر کو عبادت، اس کی مشقت کو جہاد او راس راہ کی موت کو شہادت سمجھتا اور ہر معلم اپنا دینی فریضہ سمجھ کر جو خود جانتا وہ دوسرے کو سکھاتا۔

متحرک او رعلمی درس گاہ
اس تعلیم وتعلم کی ساخت شروع سے ایسی رکھی کہ علم کے ساتھ عمل، عمل کے ساتھ علم، علم کے ساتھ تعلیم او رتعلیم کے ساتھ تعلم کا سلسلہ چلتا رہتا، پوری اسلامی آبادی ایک متحرک اور وسیع عملی درس گاہ تھی، جس میں ہر ایک اپنے لیے طالب علم تھا اور دوسرے کے لیے معلم، اس علم کے سبق تنہائیوں میں نہیں یاد کیے جاتے تھے، بلکہ لوگوں کو یاد کرانے میں ، دین کو لوگوں میں پھیلانے میں اور اس کی خاطرتکلیفیں جھیلنے او راس راہ میں جو مصائب پیش آئیں ان کو خوشی سے گوارا کرنے میں ، اس کے نقوش دل پر ثبت کیے جاتے تھے، تعلیمی واصلاح اور تزکیہٴ نفس کا کام لوگوں کے ملنے جلنے، معاملہ کرنے اورعلمی زندگی میں انجام کو پہنچتا تھا، یوں سمجھیے کہ وہاں پانی میں تیر نے کے اصول وقواعد خشکی پر نہیں بتائے جاتے تھے، بلکہ زندگی کے منجدھار میں ڈال کر ہاتھ پاؤں مارنے کی مشق کرائی جاتی تھی، جس شخص نے کلمہ سیکھ لیا اور خدا ورسول کو برحق مان لیا، وہ رزق طلبی کے بجائے خدا طلبی میں لگ گیا، او راس نے غرض پروری کے بجائے دین پروری میں اپنی جان کو بے قیمت بنا دیا ، وہ اسلام لاتے ہی آزمائشوں کی بھٹی میں پڑ گیا او رامتحان کی کسوٹی پر چڑھ گیا اور تھوڑی مدت میں خالص سونا بن کر نکلا۔

نقوش کے بجائے نفوس
یہ تعلیم عملی تھی ، جو جہاد کے میدانوں او رکاروبار کی مشغولیتوں، خانگی زندگی کے جھمیلوں اور سفر کی منزلوں میں ہوتی تھی، اس تعلیم کا ذریعہ کتابوں کے جامد نقوش نہ تھے، بلکہ چلتے پھرتے نفوس تھے، جن کی صحبت ورفاقت سے ہر موقع اور ہر ضرورت کی عملی تعلیم ملتی، جن کے ساتھ رہ کر دین کے صرف نظریات ووسائل ہی معلوم نہ ہوتے، بلکہ اس کا سلیقہ او رملکہ پیدا ہوتا، جس طرح اہل زبان میں رہ کر زبان سیکھی جاتی ہے او رمہذب وشائستہ لوگوں کی صحبت واختلاط سے تہذیب وشائستگی اور حسن معاشرت کی تعلیم حاصل کی جاتی تھی، اسی طرح اہل دین کے ساتھ رہ کر بالکل فطری طریقہ پر دین کی تعلیم وتربیت حاصل کی جاتی تھی، یہ دین کی تعلیم کا ایسا ہی فطری، سہل اور عمومی طریقہ ہے جیسا اہل زبان کی صحبت سے زبان سیکھنے کا۔

صحبت واختلاط سے دین اور علم دین سکھانا، کتابوں کے نقوش کے بجائے انسانی نفوس کے ذریعہ تعلیم دینا انبیاء (علہیم السلام) کا امتیاز اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم کا بالخصوص طرز خاص ہے، آپ کے یہاں ایک کتاب سے لے کر دوسری کتاب میں نقل کرنا نہیں تھا، آپ صاحب عرش سے لیتے تھے اور قلوب خلق پر لکھ دیتیتھے، پھر ان کے ذریعے دوسروں کو تعلیم دیتے تھے، اس طرز سے بلا کسی ساز وسامان کے لاکھوں انسان بہت تھوڑے وقت میں ضروری علم حاصل کرسکتے ہیں او راس تعلیم میں بے عملی اور بے اثری کے وہ نقائص بھی نہیں ہیں جو محض نقلی تعلیم میں پائے جاتے ہیں۔

کتابیں حقیقت میں میزان کا درجہ رکھتی ہیں، جن سے غلطی اور صحت معلوم کی جاسکتی ہے، کیوں کہ بقول حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ:”من کان مستنا فلیستن بمن قد مات، فإن الحي لا تؤمن علیہ الفتنة․“

(جس کو اپنے لیے کسی کو نمونہ بنانا ہو وہ سلف کو نمونہ بنائے، اس لیے کہ زندہ ، دور آزمائش میں ہے، اس کی طرف سے تغیر کا اطمینان نہیں)۔

اور سلف کی اقتدا کا بڑا ذریعہ کتاب ہے، اس سے مطابقت ضروری ہے، مگر کتابوں اور قلمی صحیفوں سے پورا نفع صحبت اور عملی نمونہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور صحبت او رعمل ہی سے ان کتابوں سے استفادہ کی استعداد پیدا ہوتی ہے ، لیکن غلطی یہ ہوئی کہ کتابوں ہی کو علم دین کے حصول کے لیے کافی سمجھا جانے لگا۔

نیز کتابی تعلیم پر اکتفا کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم دین کا حصول ایک نہایت دشوار اور طویل عمل بن کر رہ گیا اور اس کا دائرہ بہت محدود ہو گیا، مشغول او رمعذور لوگ علم سے محروم اور اس کے حصول سے مایوس ہو گئے اور امت کا ایک نہایت مختصر گروہ جو زندگی کا ایک معتدبہ حصہ مذہبی تعلیم کے لیے فارغ کر سکتا تھا اور اپنے کو اسی کے لیے وقف کر سکتا تھا، وہی دین کے تعلیم وتعلم کے لیے مخصوص ونام زد ہو کر رہ گیا اور مسلمانوں کی بڑی جماعت علم دین سے بے بہرہ اور اس کے حصول سے بالکل ناامید ہو گئی۔

نیز اگر یہ صحیح ہے کہ معلم کا اثر متعلم پر پڑتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ کتابوں کے جامد نقوش سے جمود پیدا ہو گا او رمتحرک وسرگرم انسانوں سے حرکت وسرگرمی او رعمل کی طاقت پیدا ہو گی ،اسی طرح دین کا فہم صحیح او رحکمت عملی بھی صحبت ورفاقت اور حرکت وعمل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کہ ایک صحیح حرکت ہزار پردے اٹھا دیتی ہے۔

صحابہ کرام نے صحبت وخدمت ہی سے دین او رعلم دین حاصل کیا او راپنے دین وعلم کی خصوصیات میں قیامت تک ممتاز ہیں ، ان کو دین کی حقیقت اور علم کی روح اور اس کا مغز حاصل تھا، ان کے اس امتیاز کے لیے حضرت عبدالله بن مسعود کے الفاظ سے زیادہ گہرے اور سچے الفاظ نہیں مل سکتے:”اولئک أصحاب محمد (صلى الله عليه وسلم) کانوا أفضل ھذہ الأمة، أبرھا قلوباً، وأعمقھا علما، وأقلھا تکلفا․“(صحابہ اس امت میں سب سے افضل، سب سے زیادہ دل کے سچے، علم کے گہرے او رتکلف سے دور تھے۔)

علم دین کے لیے سفر وہجرت
مندرجہ بالا خصوصیات کے علاوہ ایک خاص چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کو ضروری علم دین حاصل کرنے کے لیے اپنے ماحول سے نکلنے او ران مشاغل کو عارضی طور پر چھوڑنے کی دعوت دی گئی، جن میں وہ منہمک تھے اورجن کی موجودگی میں وہ علم کے لیے یکسو اور فارغ البال نہیں ہو سکتے تھے اور اس ماحول او راپنے مخصوص حالات میں اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی اور مؤثر انقلاب پیدا نہیں کر سکتے تھے، ہجرت کے بعد مدینہ ہی ایک ایسا مرکز تھا، جس میں پورا اسلامی ماحول پایا جاتا تھا اور دین وہاں زندہ او رمتحرک شکل میں دیکھا جاسکتا تھا، اس لیے عرب کے تمام نئے مسلمانوں کو اپنے اپنے مقامات سے اس اسلامی ماحول میں آنے او ردین سیکھ کر جانے کی دعوت دی گئی

﴿وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون﴾․ (سورة التوبہ:122)
(اور ایسے تو نہیں کہ مسلمان سارے کے سارے نکل جاویں، پس کیوں نہ نکلے ہر جماعت میں سے اس کا ایک حصہ تاکہ دین میں سمجھ پیدا کریں او راپنی قوم کو ڈرائیں جب ان کی طرف لوٹ کر آئیں، شاید کہ وہ بچیں اور ڈریں۔)

دین اور علم دین کے حصول کے لیے کسی درجہ کی عملی جدوجہد، مالی وجانی ایثار وقربانی او رجسمانی محنت ومشقت کی بھی شرط تھی، دین کی محبت وطلب صادق کا امتحان یہ تھا کہ انسان اس کی خاطر اپنے مالوفات کو ( جن چیزوں سے وہ مانوس ہے ) چھوڑ دینے کے لیے تیار ہو جائے کہ انسان کے لیے سب سے بڑا جہاد مالوفات کا ترک اور نفس کی مخالفت ہے ، یہ بات ترک وطن میں بآسانی حاصل ہوتی ہے کہ وطن صد ہامالوفات ومرغوبات کا جامع ہے او راس کی مفارقت نفس پر بے حد گراں ہے، اسی کا نام قرآن وحدیث کی وسیع اصطلاح میں ”ہجرت“ ہے، منافقین کے بارے میں میں فرمایا گیا ہے:﴿فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ أَوْلِیَاء حَتَّیَ یُہَاجِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ﴾․( سورة النساء:89)

(ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ جب تک الله کی راہ میں وطن نہ چھوڑیں)

یہ آیت مدنی ہے اور یہ معلوم ہے کہ منافقین مدینہ اور اطراف مدینہ ہی میں پائے جائے تھے، سورہٴ توبہ کی آیت ہے :﴿وَمِمَّنْ حَوْلَکُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَہْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُواْ عَلَی النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَیْْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلَی عَذَابٍ عَظِیْم﴾․(سورة التوبہ:101)

(بعضے تمہارے گرد کے گنواروں میں سے منافق ہیں اور بعض مدینہ والے کہ کو نفاق پر پختہ اور خوگر ہو گئے ہیں)۔

اس لیے اس سے مراد یاتو اطراف وجوانب کے منافقین کی مدینہ کی جانب ہجرت ہے یا منافقین مدینہ کا راہ خدا او رجہاد فی سبیل الله میں عارضی ترک وطن اور مسافرت وغربت۔

حقیقت یہ ہے کہ ذاتی جدوجہد اور شخصی طلب اور عزم کے بغیر دین اور علم دین کے صحیح ثمرات حاصل نہیں ہو نے پاتے، دین کی الله کے یہاں جو قدر ہے اس کے اور الله کی غیرت کے خلاف ہے کہ وہکسی کو بلاطلب مل جائے۔ بہرحال الله تعالیٰ نے ہدایت ورحمت کو اپنے راستہ میں جدوجہد کے ساتھ وابستہ کیا ہے:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أُوْلَئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَتَ اللّہِ﴾․ (سورة البقرة:218)

(جو لوگ ایمان لائے او رجنہوں نے وطن چھوڑا اور لڑے الله کی راہ میں ، یہی لوگ الله کی رحمت کے امیدوار ہیں۔)

مولانا محمد الیاس صاحب نے اپنے ایک گرامی نامہ میں ایک صاحب کو، جو خط وکتابت کے ذریعہ استفادہ کرتے تھے ، تحریر فرمایا ہے:
”الأجر علی قدر النصب“ (اجر بقدر مشقت) ڈاکیوں کی اور وسائط کی دوڑ دھوپ ہر گز اپنی ذاتی مشقت کا بدل نہیں ہو سکتی ، عادات خداوندی عموماً دین میں اپنی جدوجہد کی مقدار کے ساتھ وابستہ ہیں، آدمی کسی مقصد کے لیے جتنا اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے اور تکالیف کو جھیلنے کے ذریعہ اپنے حالات، جوارح، قلب اور قوتوں کی شکستگی اور تعب وانکسار کو پہنچتا ہے، اتنا ہی حق تعالیٰ کی رحمت کے نزول کا سبب ہوتا ہے، کسی راہ کی ذلت کو اٹھائے بغیر اس کی عزت کو پہنچنا عادتاً نہیں ہوتا۔“

ایک دوسرے گرامی نامہ میں فرماتے ہیں:” ہم مادیات میں اس وقت ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ طبائع کا طبائع سے حصہ لینے کا دستور چھوٹ چکا اور علمی جدوجہد میں خون پسینہ ایک کرکے اور جہد کا حق ادا کرکے، جو شریعت کے تعلم وتعلیم کی اصلی صورت تھی، معدوم کرکے اب افادہ واستفادہ بیچاری ایک زبان ہی کے اوپر رہ گیا ہے۔“

ایک تیسرے والا نامہ میں ارشاد فرماتے ہیں:” الله جل جلالہ وعم نوالہ نے اپنی سنت ازلیہ میں ۔ جو ناقابل تبدیل اور غیر لائق تحویل ہے۔ ہدایت کو جدوجہد کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے، سو جدوجہد کرتے کرتے جو چیز خود طبیعت پر منکشف ہو، وہ طبیعت کا مشرح کرنے والا، حقیقتِ علم کو کھولنے والا، طمانینت حقیقیہ اور ذوق ایمان کا ذائقہ چکھانے والا اور دل ودماغ کو کسی ناقابل بیان کیفیت سے متکیف اور حقیقت آشنا کرنے والا علم ہے اور جو سچی اور واقعی بات بلا جدوجہد محض تقریر اور تحریر سے پیدا ہو وہ محض زعم کا پیدا کرنے والا علم او رحقیقت کا حجاب ہے، جس کو بزرگوں نے ”العلم الحجاب الأکبر“ لکھا ہے ، یہی راہ مولیٰ میں سدسکندری ہے۔“

دینی تعلیم اور دعوت کے لیے جد وجہد
قرآن وحدیث سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ دین کا ضروری علم حاصل کرنا، دین کی تعلیم دوسروں تک پہنچانا، بھلائی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا اور دین کے فروغ اور عروج کی کوشش کرتے رہنا، ہر مسلمان کا فریضہ اور جز وزندگی ہے، عہد رسالت میں ہر مسلمان، خواہ وہ کاشت کارہو یا تاجر، فقیر ہو یا دولت مند، جاہل ہو یا عالم، طلبِ دین اور خدمتِ دین کے لیے کچھ وقت صَرف کرتا تھا، فراغت وفرصت میں وہ کسب معاش اور ضروری مشاغل زندگی میں بھی مشغول رہتا تھا، لیکن دینی ضرورت کے وقت اس کو سارے مشاغل کو ملتوی کرکے اس میں شرکت کرنی ضروری تھی، جنہوں نے اس میں پہلوتہی کی یا اپنے مشاغل ومالوفات کو ترک نہ کرسکے ان کے عتاب سے سورہٴ توبہ لبریز ہے، حضرت کعب بن مالک جو غزوہٴ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے، اس طرح معتوب ہوئے کہ اسی شہر مدینہ کو۔ جس کی رونق اور دلچسپیوں میں وہ باقی رہ گئے تھے۔ ان کے لیے عملاً شہر خموشاں بنا دیا گیا، جہاں اس بھرے شہر میں ان سے کوئی بات کرنے والا اوران کی بات کا جواب دینے والا نہ تھا۔

ایک بڑا انقلاب یہ ہوا کہ دین کا سیکھنا اور دین کی خدمت اور اس کے لیے سعی وعمل فرداً فرداً ہر مسلمان کا ضروری جز وِزندگی اور فریضہ نہیں رہا، بلکہ مجموعی طور پر امت کے کاموں کا ایک جزبن کر رہ گیا، اس کے لیے امت کے چند افراد مخصوص کر دیے گئے اور عام افراد اس سے مستثنیٰ اور معاف سمجھ لیے گئے، حالاں کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم﴾․ (سورة التوبة:71)

(اور ایمان والے مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، نیک بات سکھاتے ہیں، نماز کو قائم رکھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور الله اور اس کے رسول کے حکم پر چلتے ہیں…)۔

اس موقع پر مسلمانوں کو ایمان کی صفت کے ساتھ یاد کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اعمال مؤمنین کے عمومی کام ہیں اور ایمان کی علت ہیں۔

یہ تغیر ایک طرح کی عملی تحریف تھی جو مسلمانوں کی زندگی میں پیش آئی، عہد رسالت اور صحابہ میں کوئی ایسا استثنا اور تخصیص نہ تھی، طلب دین اور خدمت دین اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ایک عمومی فریضہ تھا، جس سے نہ مدینہ کا تاجر مستثنیٰ تھا، نہ کاشت کار ومزارع، انصار کی ایک جماعت نے جب کچھ مدت کے لیے اپنے کاروبار کی اصلاح وخبر گیری اور گھر رہنے کے لیے جہاد سے رخصت چاہی کہ اب تو اسلام کی اشاعت بہت ہو گئی ہے اور اس کے خدمت گزار بہت پیدا ہو گئے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی:﴿وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ﴾․( سورة البقرة:195) ( اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو)۔

گویا خدمت دین اور علائے کلمة الله کی کوشش سے علاحدگی خودکشی کے مرادف ہے۔

اپنے مشاغل کے ساتھ دین کی تعلیم اور خدمت
دوسرا ایک خطرناک خیال یہ پیدا ہو گیا کہ ہم کسب معاش کے ساتھ دین کا علم حاصل نہیں کرسکتے اور دین کی خدمت انجام دینے کے اہل نہیں، اگر ہم اس کا حوصلہ رکھتے ہیں تو ہم کو اپنے معاشی مشاغل کو یک قلم خیرباد کہہ دینا چاہیے، ظاہر ہے کہ یہ قربانی اور یہ اہم اقدام بہت تھوڑے اہل ہمت کرسکتے ہیں، اس لیے دین کے طالب علم اور دین کے خادم کم یاب اور رفتہ رفتہ عنقا کی طرح نایاب ہونے لگے اور عام مسلمان جو اپنے مشاغل اوراہل وعیال کی خدمت میں منہمک تھے او ران کو ترک نہیں کر سکتے تھے، ناامید اور خدمت دین کی سعادت سے اپنے کو محروم سمجھنے لگے اور بالآخر ان مشاغل پر ان کو دنیاوی مشاغل سمجھتے ہوئے قانع ہو گئے:﴿وَرَضُواْ بِالْحَیْاةِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّواْ بِہَا﴾․(سورة یونس:7) کے مصداق بن کر طلب علم کی سعادت وحصول دین کی نعمت اور خدمت دین کی دولت سے محروم دنیا سے خالی ہاتھ چلے گئے، حالاں کہ صحابہ کرام خدمت دین کے علاوہ اپنے معاشی مشاغل رکھتے تھے، ان میں بکثرت تاجر تھے، مزارع بھی تھے، اہل حرفہ بھی تھے، لیکن نہ انہوں نے طلب علم چھوڑا او رنہ دین کی خدمت سے مستثنیٰ ہوئے۔

ان میں جو لوگ خاص طور پر ”قُراء“ طالب علم او رعالم کہلاتے تھے، ان کا بھی حال یہ تھا کہ دن کو مزدوری یا تجارت کرتے تھے اور رات کو پڑھتے تھے:”عن أنس بن مالک قال: أفلا أحدثکم عن إخوانکم الذین کنا نسمیھم علی عہد رسول الله(صلى الله عليه وسلم) القراءَ؟ فذکر أنھم کانوا سبعین، فکانوا إدا جنّھم اللیل انطلقوا إلی معلمٍ لھم بالمدینة، فیدرسون اللیل حتی یصبحوا، فإذا أصبحوا فمن کانت لہ قوة استعذب من الماء، وأصاب من الحطب، و من کان عندہ سعة اجتمعوا فاشتروا الشاة، و أصلحوھا فیصبح ذلک معلقا بحجر رسول الله (صلى الله عليه وسلم)․“

حضرت انس بن مالک  سے روایت ہے کہ فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے ان بھائیوں کے متعلق خبر نہ دوں جن کو ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ”قُراء“ کے نام سے پکارتے تھے؟ وہ تعداد میں ستر تھے، رات کو مدینہ میں اپنے استاد کے پاس جاتے او ر صبح کو ان میں سے جو طاقت ور ہوتے وہ میٹھا پانی بھر کر لاتے اور مزدوری کرتے، یا لکڑی کاٹ کر لاتے اور فروخت کرتے، جن کو گنجائش ہوتی وہ جمع ہو کر بکری خرید لیتے، اس کو بنا لیتے اور وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حجروں کے پاس لٹکی رہتی۔

اس طلب علم کا اتنا اہتمام تھا کہ اگر بعض لوگ روزانہ مجلس نبوی میں حاضر نہ ہو سکتے تو بار ی باری سے ایک دن حاضرہوتے اور جو کچھ اس مجلس میں پیش آتا اس کی اپنے رفیق کے ذریعہ اطلاع حاصل کرتے، جس دن وہ حاضر نہ ہو سکتے اس دن ان کو ایک بے کلی سی رہتی، اپنے کام میں ہوتے،لیکن ”دست بکار دل بیار“ دل لگا رہتا کہ معلوم نہیں وہاں کیا ہو رہا ہے؟!

حضرت عمر فرماتے ہیں:”إنی کنتُ وجارٌلی من الأنصار فی حی بنی أمیة بن زید وھی من عوالی المدینة وکنانتناوب النزول علی النبی صلی الله علیہ وسلم ینزل یوماً وأنزل یوما، فإذا نزلت جئتہ من خبر ذلک الیوم من الأمر وغیرہ، و إذا نزل فعل مثلہ․“

میں اورمیرا انصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید کے محلہ میں ( جو مضافات مدینہ میں تھا) رہتے تھے، ہم دونوں باری باری آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے، ایک دن وہ حاضر ہوتا او رایک دن میں ، جس دن میں حاضر ہوتا اس دن کی اطلاع او راحکام وغیرہ اس کو پہنچا دیتا اور جس دن وہ حاضر ہوتا اس دن کی اطلاعات اور احکام مجھے پہنچا دیتا۔

طریق کار
بس آج یہ امت کی بڑی ضرورت ہے کہ دین کے سیکھنے کا نبوی اور فطری طریقہ دوبارہ زندہ کیا جائے، کتابی نقوش کے ساتھ زندہ نفوس سے استفادہ کو۔ جو کہیں زیادہ آسان او رعمومی طریق تعلیم ہے۔ ضم کیا جائے، متمکن دینی اداروں اور اسلامی در س گاہوں کے ماتحت کچھ چلتی پھرتی در سگاہیں، جیتی جاگتی خانقاہیں او ربولتے چالتے صحیفے ہوں، جو علوم نبویہ کے ان سمندروں سے ( دینی مدارس ) مشکیں بھر بھر کر عام زندگی کی کشت زاروں میں تاجروں کی تجارتوں، مزارعین کی زراعتوں او راہل صنعت کی صنعتوں میں دین کا آب حیات پہنچائیں۔

دین کے لیے عملی جدوجہد، علم کے لیے نقل وحرکت اور سعی وعمل کو ۔ جس کا رواج مدت دراز سے جاتارہا۔ پھر فروغ دیا جائے کہ اسلام کی فطری ساخت اور علم دین کی وضع وفطرت یہی ہے اورالله کی سنت اسی طرح جاری ہے۔

دین کی تعلیم وتعلم اور دین کی خدمت و سعی کو مسلمانوں کی زندگی کا جزولاینفک بنانے کی کوشش کی جائے اور اس کی دعوت دی جائے کہ مسلمان اپنے مشاغل وفکر معاش کو اس کے ماتحت کر دیں کہ :﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون﴾․(سورة الذاریات:56) کے ارشاد کے مطابق اصل زندگی یہی ہے اور ﴿کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ﴾․(آل عمران:110) کی تصریح کے مطابق مسلمان اسی لیے پیدا ہوا ہے، البتہ اس سے جو وقت بچے وہ راحت اور بے کاری کے بجائے حصول معاش میں صرف کیا جائے کہ :”إن الله یحب المؤمن المحترف“ ( الله تعالیٰ کمانے والے مومن کو دوست رکھتا ہے)۔

جو لوگ عموماً اپنے ماحول میں گھرے رہ کر او راپنے مشاغل ومعمولات میں پھنس کر دین حاصل کرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، نہ اس کی طرف پوری توجہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کے پورے اثرات قبول کر سکتے ہیں ، ان کو عارضی ترک وطن اور غربت کے اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے، جس میں وہ کچھ مدت کے لیے یکسو اور فارغ البال ہو کر دین حاصل کرسکیں اور اہل دین کی صحبت وخدمت سے استفادہ کر سکیں، ایک شرعی نظام اورایک دینی زندگی میں رہنے کی ان کو عادت پڑسکے، ان کے لیے او ران کے رفقاء کے ذریعہ ایک بہتر دینی ماحول بنایا جائے، جو ان کو اپنے وطن او رمشاغل میں میسر نہیں آسکتا، ان کا یہ نکلنا خودان کے لیے اور دوسروں کے لیے مفید ومبارک سبق آموز او رانقلاب انگیز ہو۔


Flag Counter