Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

10 - 16
الصلوٰة
نماز کی اہمیت، افادیت اور رموز پر حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ کا پُرمغز بیان

تسہیل: محترم سید عروہ عرفان

اِس زمانے میں یہ حالت ہو گئی ہے۔ یہ خبر ہی نہیں کہ یہ قرآن کی آیت ہے یا حدیث ہے۔ اس حالت پر اندیشہ ہے کہ قیامت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوں نہ فرمانے لگیں:”یا رب إن قومی اتخدوا ھذا القرآن مھجورا․“
یعنی، اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔

معنی سے تو غفلت تھی ہی، اب اس سے بھی آسان چیز یعنی قرآن کے الفاظ سے بھی غفلت ہوتی جارہی ہے۔ چناں چہ آج کے بہت سے عقلا (عقل پرستوں) کی رائے ہے کہ قرآن کا پڑھنا ہی فضول ہے۔ رام پور کا قصہ ہے کہ ایک صاحب کا بچہ قرآن پڑھتا تھا۔ ان کے ایک دوست نے جو انگریزی کے بڑے حامی تھے، ان سے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو انگریزی پڑھائیے۔ ان کے دوست نے انکار تو نہیں کیا، البتہ یوں کہہ دیا کہ ابھی یہ آدھا قرآن پڑھ رہا ہے، جب یہ ختم ہو جائے گا تو انگریزی شروع کراؤں گا۔ وہ پوچھتے ہیں، کتنے دنوں میں یہ آدھا قرآن پڑھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ دوبرس میں۔ بولے، آپ دو برس تو ضائع کرہی چکے (قرآن پڑھانے میں) اب دو برس مزید کیوں ضائع کرتے ہیں۔

ان لوگوں نے قرآن نہ پڑھنے کا یہ خوب بہانہ نکالا ہے کہ قرآن کا مطلب سمجھے بغیر قرآن پڑھنے کا کیا فائدہ۔ اگر پڑھا جائے تو معنی مطلب سمجھ کر پڑھا جائے، صرف الفاظ رٹنے سے کیا نتیجہ؟

بہ ظاہر تو یہ بڑی خیر خواہی کی بات ہے، مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ محض قرآن نہ پڑھنے کا بہانہ ہے۔ اصل مقصد تو یہ ہے کہ پڑھایا ہی نہ جائے․․․ او راس کا یہ بہانہ تلاش کر لیا۔ اگر یہ بہانہ نہیں ہے اور واقعی قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے تو ترجمے بھی تو شائع ہو گئے ہیں، پھر ترجمہ سمیت کیوں نہیں پڑھاتے۔ اگر یہ لوگ بغیر ترجمہ نہ پڑھاتے، مگر ترجمہ کے ساتھ پڑھاتے تو کہا جاسکتاتھا کہ یہ قرآن نہ پڑھنے کا بہانہ نہیں ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ ترجمے کے بغیر قرآن پڑھاتے ہیں، نہ ترجمے کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن پڑھانا (اور پڑھنا) ہی نہیں چاہتے اور یہ صرف بہانہ ہے نہ پڑھانے کا!

ترجمے کے بارے میں، میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر ترجمہ پڑھایا جائے تو خود مطالعہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے بلکہ قرآن کو سمجھنے والے کسی فرد سے سبق بہ سبق قرآن پڑھایا جائے۔ جو مضامین مشکل ہوں، انہیں مختصر ہی بیان کیا جائے (ان کی تفصیل میں جانے سے گریز کیاجائے)۔ معلم بھی ان مضامین و موضوعات کی تفصیل بیان نہ کریں۔ جتنی بات سمجھ میں آسکتی ہے، بس اتنی ہی بتائی جائے․․․ ورنہ اقلیدس (انجینئرنگ/ سائنس وغیرہم) جیسے علوم کی کتابیں بھی استاد کے بغیر پڑھ کر، خود مطالعہ کرکے امتحان دے دیا کیجیے، یہ عصری علوم استاد سے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟

اگر کہا جائے کہ اقلیدس پیچیدہ موضوع ہے، اس لیے استاد سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور قرآن شریف ایسا نہیں ہے․․․ تو میں کہتا ہوں کہ قانون بھی تو ایسا پیچیدہ نہیں ہے۔ قانون ہی کی کتاب لیجیے اور خود اس کا مطالعہ کیجیے۔ ضرور آپ اس کے سمجھنے میں غلطی کریں گے او رجو استاد سے پڑھے ہوں گے، وہ غلطی نہیں کریں گے۔ قانون داں ہی جانتا ہے، قانون کی باتوں کو۔ قانون کی کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ایک معاملے کے متعلق ایک جگہ اجمالی حکم ہوتا ہے، دوسری جگہ اس کی تفصیل ہوتی ہے۔

اسی طرح قرآن شریف میں بھی ہے، اس لیے موقع ( پس منظر اور سیاق و سباق) کو سمجھا ہوا نہ ہو گا تو اس موقع پر کیا سمجھے گا۔ کچھ تفصیل ایک موقع پر ہے تو کچھ تفصیل دوسرے موقع پر۔ لہٰذا اسے سمجھنے کیلیے دونوں موقعوں کا علم ہونا ضروری ہے۔ یہ بات اس علم کا واقف کار (مستند عالم) ہی جان سکتا ہے کہ اس موضوع کا ذکر کتنی بار ہوا ہے۔ صرف مطالعہ کرنے والا نہیں جان سکتا۔ چناں چہ ایک موقع پر ایک موضوع کا مختصر سا ذکر دیکھ کر اسے الجھن ہو گی، شکوک پیدا ہوں گے۔ یہ معاملہ صرف الله کے کلام (قرآن) ہی کے ساتھ نہیں ہے، ہر فن ( تمام عصری علوم) کے ساتھ ایسا ہی ہے۔

مثلاً، فقہ ہی کو لے لیجیے۔ اس میں ایک مسئلہ ہے جس کا تعلق دو باب سے ہے۔ ایک باب میں مجمل ذکر ہے اور دوسرے میں مفصل ذکر ہے۔ جب تک دونوں بابوں سے واقفیت نہیں ہو گی، اس وقت تک خو د کیا سمجھے گا اور دوسروں کو کیا سمجھائے گا۔ ایک شافعی المذہب نے مجھ سے فقہ شافعی پڑھنا چاہا تو میں نے انکار کر دیا اور کہاکہ میں نے فقہ شافعی پڑھی ہی نہیں۔ شاید کوئی موقع ایسا ہو کہ ایک مسئلے کا تعلق دو جگہ سے ہو، ایک موقع پر مختصر ہو اور دوسری جگہ اس کی تفصیل ہو اور میں اس کی تفصیل سے واقف نہ ہوں تو ؟ میں غلط کر بیٹھوں گا، اس لیے میں نے صاف کہہ دیا کہ آپ شافعی المذہب ہی سے پڑھیے۔

یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف کا ترجمہ خود دیکھ لینا کافی نہیں ہے۔ کسی محقق عالم سے پڑھنا چاہیے۔ لیکن اس کیلیے فرصت نہ ہو تو یہ بھی نہ کیا جائے کہ الفاظ کو بے فائدہ سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔ اس کا بھی فائدہ ہے۔ البتہ فائدے کی اقسام ہیں۔ الفاظ کا مطلب سمجھنے کا ایک فائدہ ہے تو الفاظ کو سمجھے بغیر الفاظ قرآن (عربی) پڑھنے کا ثواب تو کہیں نہیں گیا۔

ہمیں معلوم ہے کہ بعض انگریزی پڑھنے والے اپنے مضمون کی عبارت یاد کرکے ( سمجھے بغیر) امتحان میں کام یاب ہو جاتے ہیں، حال آنکہ مطلب بالکل نہیں سمجھتے (یا اس موضوع کو بھی نہیں سمجھتے)۔ بتائیے، اس صورت میں محض یہ الفاظ یاد کرلینے سے فائدہ ہوا (کہ پاس تو ہو گئے) یا یہ بے کار گیا۔

ہر شخص اسے مفید ہی کہے گا۔ فائدے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ پاس تو ہوجائے، خواہ مطلب نہ سمجھتا ہو۔ اور یہ نفع صرف الفاظ یاد کرنے سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ قرآن کے ساتھ ہمارا یہ برتاؤ نہیں ہے، اس لیے اس کے الفاظ کو یاد کرنے کو بے کار سمجھتے ہیں۔

اب میں بتاتاہو ں کہ قرآن شریف کے محض الفاظ پر جو فائدہ ملتا ہے، وہ کیا ہے؟

حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی قرآن شریف پڑھتا ہے تو ہر حرف پر اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جس نے کھیعص ایک مرتبہ کہا تو اس کے نامہ اعمال میں پچاس نیکیاں لکھی گئیں۔ کیا یہ فائدہ نہیں ہے؟ مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ نفع اسی کو سمجھتے ہیں جو فوری ہونے والا ہو۔ جب فوری نفع نہ ہو رہا ہو تو اسے نفع کہتے ہی نہیں، حال آنکہ صرف فوری نفع ہی نفع نہیں ہوتا۔ ایک اور نفع بھی ہے جو بعد میں ہونے والا ہے، نفع آجلہ یعنی آخرت کا نفع، جسے ”ثواب“ کہتے ہیں۔ مگر چوں کہ فوری نفع تو نظر آتا ہے، اس لیے اسے تو نفع کہتے ہیں اور ثواب کا ملنا نظر نہیں آتا، اس لیے اسے نفع سمجھتے ہی نہیں۔

بعض لوگ تو کسی کو ذکر اذکار کرتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اتنے عرصے سے تم یہ کام کر رہے ہو، کچھ فائدہ بھی ہوا، یعنی کچھ نظر بھی آتا ہے؟ اگر وہ کہتا ہے کہ ابھی تک کوئی فائدہ تو معلوم نہیں ہوتا تو کہہ دیتے ہیں کہ بس میاں ثواب اکٹھا کیے جاؤ۔ گویا ان کے نزدیک ثواب ایسی بے اثر چیز ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ثواب تو صرف الفاظ میں بھی ہے اور یہ لوگ چوں کہ ثواب کو نفع نہیں سمجھتے، اس لیے الفاظ قرآن کا پڑھنا ( یعنی بغیر سمجھے تلاوت کرنا) فضول سمجھتے ہیں۔

ایک تو وہ لوگ ہیں جو الفاظ قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے معنی بھی پڑھتے ہیں، ترجمہ بھی جانتے ہیں او راہل علم بھی ہیں مگر ان میں ایک چیز کی کمی ہے․․․ اور وہ یہ کہ ”تدبر“ نہیں کرتے۔ لفظی اور لغوی تحقیق تو بڑی لمبی چوڑی کر لیں گے، مگر اس سے الله تعالیٰ کیا چاہتا ہے، اس پر توجہ نہیں۔

مثلاً، قدافلح من تزکٰی (بامراد کا م یاب ہوا وہ شخص جو برے عقائد و اَخلاق سے پاک ہو گیا) میں ”قد“ حرفِ تحقیق ہے، افلح ماضی کا صیغہ ہے اور من اسم موصول اپنے صلہ سے مل کر فاعل ہے۔ لوگ اس قسم کی تحقیق تو کرلیتے ہیں، مگر قرآن شریف کو اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ یہ ہماری اصلاح کیلیے ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی نے حکیم محمود خاں سے نسخہ لکھوایا اور اسے اس نظر سے دیکھنے لگاکہ اس نسخے کا خط کیسا ہے، دائرے کیسے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا کہ اس نسخے میں اجزا کیسے ہیں، مزاج کی رعایت کیسی ہے۔ اس پر کہنے لگا کہ حکیم محمود خاں بڑے طبیب ہیں کہ ان کے دائرے کیسے عمدہ ہیں، خط کیسا اچھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ شخص نسخے کی حقیقت سے واقف نہیں ہے۔ نسخے کی حقیقت تو یہ ہے کہ مرض کے موافق ہو، اس سے بیماری میں بہتری ہوتی ہو۔ نسخے کو تو اس نظر سے دیکھنا چاہیے۔

اسی طرح، بعض اہل علم قرآن کے الفاظ پر لغوی تحقیق تو خوب کرتے ہیں، مگر اس کا خیال نہیں کرتے کہ ان الفاظ قرآنی کے بیان کا مقصد الله تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ان الفاظ قرآنی سے ہمارے باطنی امراض کا کیا علاج بتایا گیا ہے اور ہمیں اس سے کیسے نفع حاصل کرنا چاہیے۔

چناں چہ میں اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اس آیت (قد افلح من تزکیٰ) کے الفاظ پر نہ جائیے بلکہ یہ دیکھئے کہ الله تعالیٰ نے اس آیت میں کیا بات بتائی ہے۔ مختصر یہ کہ الله تعالیٰ نے اس آیت میں اصلی مطلوب (مقصد) بتایا ہے کہ تمام مطالب اس کے اندر ہیں۔

وہ مطلوب (اور مقصود) ہے ، فلاح یعنی کام یابی!

پھر، فلاح کا طریقہ بھی بتا دیا۔

افلح میں مطلوب بتایا کہ ہر شخص کو کام یابی کا طالب رہنا چاہیے اور من تزکیٰ میں اس کا م یابی حاصل کرنے کا طریقہ ارشاد فرما دیا، یعنی مقصد تو کام یابی (فلاح) حاصل کرنا ہے او راس کام یابی کے حصول کا طریقہ ہے، تزکیہ․․․ اورجسے فلاحِ کامل یعنی مکمل کام یابی مل گئی تو اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔

اب اس پر بھی بات کر لیتے ہیں کہ مکمل کام یابی کی ضرورت ہے یا نہیں۔ یہ نکتہ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض لوگ ایسی باتیں کہہ دیا کرتے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مکمل کام یابی کی ضرورت نہیں۔ چناں چہ جب نصیحت کی جائے تو بعض (نادان) لوگ کہتے ہیں کہ بس تم ہی پہلے جنت میں چلے جانا، ہم دوزخ کی سزا بھگتنے کے بعد چلے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مکمل کام یابی کی ضرورت نہیں۔

مکمل کام یابی کی ضرورت ہے یا نہیں، اس کی مثال میں دنیاوی واقعات سے بتائے دیتا ہوں۔ میں کہتاہوں کہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو دنیاوی امور میں مکمل کام یابی نہ چاہتا ہو، حال آنکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کچھ بھی نہیں۔ دنیا اور آخرت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سمندر میں انگلی ڈبوئے توسمندر کا کچھ پانی انگلی پر لگ جائے گا اور کچھ کمی بھی سمندر کے پانی میں ہو گی ( اگرچہ یہ کمی محسوس بھی نہ ہو گی) تو جیسی نسبت انگلی پر لگے پانی کو سمندر کے کل پانی سے ہے، ایسی ہی دُنیا کو آخرت کے ساتھ ہے۔ بلکہ حقیقت میں اتنی نسبت بھی نہیں ہے، محض سمجھانے کی غرض سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مثال دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو آخرت سے اس سے بھی کم نسبت ہے، کیوں کہ دنیا محدود ہے اور آخرت لا محدود ہے ( کبھی ختم نہیں ہو گی )، اور محدود کو لا محدود سے کیسے کوئی نسبت ہو سکتی ہے۔ اس مثال میں بھی محدود کی نسبت محدود کے ساتھ ہے (یعنی انگلی کی تری بھی محدود اور سمندر بھی محدود)۔

دو محدود اور غیر محدود چیزوں کے درمیان جو فرق ہے، وہ دو محدود چیزوں کے درمیان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ مثال بھی حقیقی نہیں ہے۔ مگر چوں کہ اس کے سوا کوئی اور مثال انسانوں کی فہم کے قریب نہ تھی، اس لیے اسے کافی سمجھا گیا کہ دنیا، آخرت کے مقابلے میں یہ نسبت رکھتی ہے۔

اس کے باوجود ہم دنیا کے مقاصد میں لوگوں کی حالت یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں ایک حالت پر قناعت نہیں رہتی۔ چناں چہ درجہٴ کمال بلکہ اس سے بھی بڑھ کر چاہتے ہیں۔ رات دن لوگ اسی پر عمل کر رہے ہیں، جب دنیا کے کم تر ہونے کے باوجود دنیاوی مقاصد کیلیے ہمارا یہ رویہ ہے تو (خود سوچئے) آخرت کے مقاصد میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے کہ آخرت تو دنیا سے کہیں زیادہ افضل اور بر تر ہے)۔

(لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ) دنیا میں تو جو بھی بہتر سے بہتر درجہ حاصل ہو، اس سے آگے بڑھنا چاہیں گے اور آخرت کے بارے میں ایسا نہیں کرتے۔

مزاج تو یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کو جو شے محبوب ہوتی ہے، اسی کا اعلا درجہ مقصد ہوتا ہے اور جو شے مقصود ہوتی ہے، اسے حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا جب آخرت کے ساتھ ہمارا یہ معاملہ ہے (کہ آخرت کیلیے بھرپور کوشش نہیں کرتے) تو پھر کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آخرت کی مکمل کام یابی مقصود ہے۔ کوئی شخص ایک شے حاصل کرنا چاہتا ہو (اور زبان سے اس کا دعوا بھی کرے)، مگر اسے حاصل کرنے کی حکمت عملی سے گھبرائے تو یہ کہا جائے گا کہ وہ شخص حقیقتاً اس شے کا طالب نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، کوئی شخص کھیتی کرنا چاہے، مگر نہ بیج ڈالے، نہ پانی دے، اور نہ دیگر شرائط پوری کرے، بس الله کے فضل پر بھروسا کرکے بیٹھ جائے تو اسے کھیتی کا طالب نہیں کہہ سکتے۔ ”امید“ تو یہ ہے کہ مطلوبہ اسباب اختیار کرکے نتیجے کی امید رکھے۔

اس سے بھی بڑی مثال لیجیے۔ ایک شخص اولاد کا طالب ہے اور چاہتا ہے کہ صاحب اولاد ہو۔ ظاہر ہے، اس کا طریقہ یہی ہے کہ نکاح کرے، اگر بیمار ہے تو اس کا علاج کرائے، پھر اولاد کی امید کرے۔ یہ ہے، الله سے امید اور رجا!

لیکن ایک شخص اولاد تو چاہتا ہے مگر نکاح نہیں کرتا، بزرگوں کے پاس جاتا ہے کہ اولاد ہونے کی دعا کیجیے۔ بزرگ جواب دیتے ہیں کہ پہلے نکاح کرو ۔ خدا چاہے گا تو اولاد بھی ہو گی۔ وہ کہتا ہے کہ اولاد تو چاہتا ہوں، مگر نکاح کا بکھیڑا مجھ سے نہیں کیاجاتا۔ اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ الله کی عادت (الله کا قانون) یہی ہے کہ اسباب اختیار کرنے ( عمل کرنے) سے نتیجہ برآمد ہوتا ہے (اور یہی درست ”توکل“ ہے)۔ اب وہ مثال دیتا ہے کہ حوا علیہا السلام بھی تو پیدا ہوئی تھیں، میں بھی چاہتا ہوں کہ اسی طرح اولاد ہو جائے یا کوئی عورت تمنا کرے کہ میرے اولاد پیدا ہو اور میں نکاح نہیں کرتی اور کہتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بے باپ کے پیدا ہوئے تھے، میری اولاد بھی بلا نکاح پیدا ہو جائے، بھلا نکاح کی کیا ضرورت ہے۔

ایسے لوگوں کو طالب نہیں کہہ سکتے (جو حاصل کرنے کے دعوے دار ہیں، حقیقتاً وہ حاصل کرنا نہیں چاہتے)۔

بات یہ ہے کہ الله تعالیٰ اپنی عادت (عادت مستمرہ) کے مطابق کام کرتے ہیں۔ البتہ اس کے خلاف بھی اپنی قدرت دکھانے کیلیے کر دیتے ہیں، اور بے شک وہ اس پر قادر ہیں کہ اسباب کے بغیر پیدا کر دیں۔ الله نے اسباب ترک کرنے کی اجازت نہیں دی۔

خلاصہ یہ کہ جیسے ایک شخص اولاد کا خواہش مند ہو اور نکاح نہ کرے تو وہ اولاد کا خواہش مند ہی نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص مکمل کام یابی کی خواہش رکھتا ہو، مکمل کام یابی کے اسباب اختیار نہ کرے، توکل کا دعوا کرکے مکمل کامیابی کے حصول کے اسباب کو ترک کردے تو یہ جائز نہیں۔

بلکہ جو لوگ ”توکل، توکل“ کا ورد کرتے رہتے ہیں، ان لوگوں نے آخرت ہی کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہوا ہے، دنیاوی اسباب جمع کرتے ہیں تو توکل کیوں نہیں کرتے؟ اس معاملے میں تو بڑے چست اور چالاک ہیں۔ دنیاوی اسباب جمع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

اس کے باوجود کہ الله تعالیٰ نے روزی کی ذمے داری بھی لے لی ہے، اور ارشاد فرمایا:﴿وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِیْ الأَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللّہِ رِزْقُہَا﴾ کہ” زمین پر کوئی چلنے والا نہیں، مگر الله کے ذمے اس کا رزق ہے۔“

او راس میں طلب (خواہش) کی کوئی قید نہیں لگائی، او رجہاں آخرت کا ذکر کیا ہے ، وہاں آخرت کی کام یابی کو کوشش کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ چناں چہ ارشاد فرمایا:﴿وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعَی لَہَا سَعْیَہَا﴾․(سورة بنی اسرائیل:19)کہ ”جس نے آخرت کا ارادہ کیا، اور اس کیلیے سعی ( کوشش) کی…“ یعنی ہم آخرت کی ذمے داری نہیں لیتے یہ سن لو، جو نیک عمل کرے گا، جنت میں جائے گا۔

تعجب ہے کہ جس معاملے میں الله تعالیٰ نے ذمے داری لی ہے، اس میں توکل کو عیب سمجھتے ہیں او رجس چیز کی ذمے داری نہیں لی، اس میں توکل اختیار کرتے ہیں۔ جو بات جس طرح اپنی سمجھ میں آئی، اسی طرح کرلی۔

انبیاء علیہم السلام بھی صرف دنیاوی امور میں اسباب ظنیہ کو ترک کرتے ہیں، اسباب قطعیہ کو وہ بھی ترک نہیں کرتے مثلاً کھانا ترک نہیں کرتے کہ وہ اسباب قطعیہ سے ہے۔ ہاں انہوں نے معاش کو ترک کر دیا،کیوں کہ وہ اسباب ظنیہ میں سے ہے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں #
        انبیا درکار دنیا جبری اند
        کافراں درکار عقبیٰ جبری اند
        انبیا را کار عقبیٰ اختیار
        کافراں را کار دُنیا اختیار

انبیا تو جبری اسی معنی میں ہیں کہ دنیاوی امور کے بارے میں حرکت نہیں کرتے ( یعنی عام انسانوں کی طرح دنیاوی کاموں میں مصروف نہیں ہوئے) انہیں چھوڑ دیتے ہیں، جب کہ کافر اخروی امور میں جبری ہیں کہ آخرت کی کام یابی کیلیے محنت نہیں کرتے، انہیں ترک کیے ہوئے ہیں۔ انبیاء آخرت کے کاموں کو اختیار کیے ہوئے ہیں، انہیں نہیں چھوڑتے جب کہ کافر، دنیاوی کاموں کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انبیاء کے جبری ہونے کی یہ معنی ہیں۔ (جاری)

Flag Counter