Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

4 - 16
نماز میں مسنون قراء ت ... حضراتِ ائمہ مساجد کی خدمت میں ایک گزارش

مفتی امداد الحق بختیار قاسمی پروہی
	
نماز کی اصل اور اس کی روح قرآن کریم کی قراء ت ہے، بقیہ تمام ارکان وافعال جیسے صف بندی، رکوع وسجود، جلسہ وقومہ، قیام وقعود اور ہاتھ باندھنا وغیرہ یہ سب بہ منزلہ آدابِ شاہی ہیں، بندہ اللہ کے دربار میں کھڑا ہے، یہ اعمال اس دربار عالی کے آداب ہیں، قرآن کریم کی تلاوت نماز کا ایک اہم رکن ہے، جس کے ذریعہ مومن بندے کو خدا تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے، اور جس کے ذریعہ بندہ اپنی درخواست، دعا اور حاجت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے اور جب قرآن پاک کی قراء ت نماز کی روح اور اس کے بنیادی ارکان میں سے ہے، تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم نماز میں کلامِ الہٰی کی تلاوت، تمام احکام اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کریں۔

ہماری نمازمیں قرآن کی تلاوت کے احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی اور اگر کبھی ہو بھی تو فوراً اس پر تنبہ ہو جاتا ہے اور تلافی کرلی جاتی ہے، لیکن سنت کی خلاف ورزی اور افضل صورت کو ترک کرنا عام طور پر ہماری نمازوں میں دیکھا جاتا ہے، مثلاً یہ چیز بہت زیادہ عام ہوگئی ہے کہ ہمارے ائمہ کرام (ظہر اور عصر کا تو علم نہیں) مغرب، عشاء اور فجر کی نماز میں قراء ت کی سنت اور افضل صورت کوچھوڑ کر غیر افضل صورت اختیار کرتے ہیں، ایسے اماموں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ایک رکعت میں مکمل سورت نہیں پڑھتے؛ بلکہ بڑی سورتوں میں سے تین یا چار آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے ہیں یا ایک سورت کو دو رکعت میں پڑھتے ہیں یا کوئی سورت آدھی پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور دوسری رکعت میں دوسری سورت شروع کردیتے ہیں، نماز میں اس طرح قرآن کریم پڑھنے سے نماز تو ادا ہوجائے گی ،لیکن عمومی احوال میں ایسا کرنا سنت کے خلاف اور غیر اولیٰ ہے،اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں اکثر مضمون کا لحاظ نہیں کیا جاتا ، مضمون ناقص اور بات ادھوری رہ جاتی ہے، جیسے کسی کتاب کے درمیان سے دو چارسطریں پڑھنے کی صورت میں ہوتی ہے۔

مختلف مقامات سے نماز میں قراء ت کرنا
قرآن کریم کی آیتیں معنی ومضمون کے لحا ظ سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں، لہٰذا مختلف مقامات سے نماز میں چند آیات تلاوت کرنے سے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مضمون پورا نہیں ہوتا، کبھی کبھی قراء ت کی ابتدا وانتہا ایسی آیات پر ہوتی ہے کہ بات بالکل بے معنٰی سی لگتی ہے اور ہمارے ائمہ کی اکثریت غیر علماء کی ہے، جو عالم ہیں ان میں بھی بہت کم درس وتدریس سے جڑے ہیں، اس کی وجہ سے معنی ومضمون کی پوری رعایت وہ بھی نہیں کر پاتے، لہٰذا اس طرح قراء ت کرنا خلاف اولیٰ ہے۔

بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے :
وسبب الکراہة فیما یظہر أن السورة مرتبط بعضہا ببعض؛ فأي موضع قطع فیہ لم یکن کانتہائہ إلی آخر السورة؛ فإنہ إن قطع في وقف غیر تام کانت الکراہة ظاہرة، وإن قطع في وقف تام فلا یخفی أنہ خلاف الأولی․

اور (درمیان سورت میں قراء ت روکنے میں) کراہت کا سبب بظاہر یہ ہے کہ ایک سورت کی آیتیں معنی کے لحاظ سے آپس میں مربوط رہتی ہیں، تو جس جگہ قراء ت ختم کی ہے اس کا حکم آخری سورت تک پڑھنے جیسا نہ ہوگا؛ کیوں کہ اگر قاری نے قراء ت وقف غیرتام پرختم کی ہے، تب تو کراہت ظاہرہے اور اگر وقف تام پر قراء ت ختم کی ہے ،تب بھی یہ خلاف اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم حضرات سے مخفی نہیں ہے۔(فتح الباری 2/334-333،دار السلام، ریاض)

نیز احسن الفتاویٰ میں مذکورہ مسئلے سے متعلق ایک سوال وجواب ہے ،جسے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
سوال: آج کل عام طور پر ائمہ مساجد نمازوں میں پوری سورت پڑھنے کے بجائے درمیان سے کوئی رکوع پڑھتے ہیں کیا یہ صحیح ہے، یا کہ اس میں کوئی کراہت ہے؟ بینوا وتوجروا۔

الجواب: مروج دستورمیں بڑی قباحت یہ ہے کہ نمازوں میں سنت کے مطابق مفصل سورتیں نہیں پڑھی جاتیں؛ حالاں کہ یہ سنت ہے، مفصل سورتوں کا جز پڑھنے میں یہ تفصیل ہے کہ ایک سورت کے آخر سے دونوں رکعتوں میں قراء ت کرنے میں کوئی کراہت نہیں، اس کے سوا دوسری صو رتیں، مثلا: اول سورت یا وسط سورت سے پڑھنا یا ایک رکعت میں ایک سورت کا آخر اور دوسری رکعت میں دوسری سورت کا آخر پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔(احسن الفتاوی 3/85، باب القرأة والتجوید،دارالاشاعت، دیوبند)

محقق علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
قال في النہر: وینبغي أن یقرأ في الرکعتین آخر سورة واحدة، لا آخر سورتین؛ فإنہ مکروہ عند الأکثر․

نہر الفائق میں لکھا ہے کہ مناسب یہ ہے کہ دو رکعتوں میں ایک ہی سورت کی آخری آیتوں کو پڑھا جائے، نہ کہ دو سورتوں کی آخری آیتوں کو؛ کیوں کہ اکثر فقہاء کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ (تنزیہی) ہے۔ (شامی2/268، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایة، زکریا ،دیوبند)

نیزعلامہ شامی لکھتے ہیں:
وکذا لو قرأ في الأولی من وسط سورة أو من سورة أولہا، ثم قرأ في الثانیة من وسط سورة أخری أو من أولہا أو سورة قصیرة الأصح أنہ لا یکرہ، لکن الأولی أن لا یفعل من غیر ضرورة․

نیزاگر پہلی رکعت میں ایک سورت کے درمیان سے پڑھے یا سورت کی ابتدا سے پڑھے، پھر دوسری رکعت میں دوسری سورت کے درمیان سے یا ابتدا سے پڑھے یا کوئی چھوٹی سورت پڑھے، تو صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسا نہ کیا جائے۔(شامی 2/268 -269)

ان تمام عبارتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ مختلف جگہوں سے تلاوت کرنے کی بعض صورتیں مکروہ ہیں اور دیگرصورتیں اگر چہ مکروہ نہیں؛ لیکن خلاف اولیٰ وہ بھی ہیں، لہٰذا اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔

ایک سورت دو رکعت میں پڑھنا
بارہا ایسا بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ بہت سے حضرات ائمہ کرام پہلی رکعت میں ایک سورت کے نصف کی قراء ت کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں اُسی سورت کے نصف آخر کی قراء ت کرتے ہیں، یعنی ایک سورت دو رکعت میں مکمل کرتے ہیں؛ حتی کہ بعض اوقات بہت چھوٹی سورت کو بھی آدھا آدھا پڑھتے ہیں، اس طرح قراء ت کرنے سے بھی نماز تو ہوجائے گی ؛کیوں کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم سے ایسا ثابت ہے۔(سنن النسائی، القراء ة فی المغرب ، رقم ا لحدیث: ۹۹۲) لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کبھی کبھار کیا ہے، یہ آپ کی عادت ِمستمرہ نہیں تھی؛ اس لیے کبھی کبھی ایسا کرنا تو درست ہے، اکثر ایسا کرنا یا اس کو معمول اور عادت بنا لینا یہ خلاف افضل ہے۔

عن أبي العالیة، قال: أخبرني من سمع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: لکل سورة حظہا من الرکوع والسجود․

حضرت ابو العالیہ کہتے ہیں کہ مجھے ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ہر سورت کا رکوع اور سجدے میں سے حصہ ہے۔(اعلاء السنن 4/134-133،باب استحباب سورة فی رکعة․․․رقم الحدیث:1081، اشرفیہ، دیوبند)

تشریح: شارحین اس حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رکعت میں مکمل ایک سورت کی تلاوت کی جائے، نہ ایک سورت کو دو رکعتوں پر تقسیم کیا جائے اور نہ ایک سورت کے کچھ حصہ کو پڑھا جائے اور کچھ حصہ کو چھوڑ دیا جائے۔(اعلاء السنن4/133 ،فتح الباری 2/333)

عن سعید بن المسیب أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مر ببلال، وہو یقرأ من ہذہ السورة ومن ہذہ السورة، فقال: یا بلال! مررت بک وأنت تقرأ من ہذہ السورة ومن ہذہ السورة؟ فقال: أخلطت الطیب بالطیب، فقال: إقرأ السورة علی وجہہا أو قال علی نحوہا․

حضرت سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا گذر حضرت بلال کے پاس سے اس حال میں ہواکہ وہ نماز میں اس طرح قراء ت کررہے تھے کہ کچھ آیتیں ایک سورت کی پڑھتے، پھر کچھ آیتیں دوسری سورت کی پڑھتے، جب نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: اے بلال! میں تمہارے پاس سے گذرا تھا اور تم کبھی اس سورت کی کچھ آیتیں تلاوت کررہے تھے اور کبھی دوسری سورت کی؟ تو حضرت بلال نے جواب دیا کہ( قرآن کریم کی تمام آیتیں پاکیزہ ہیں) میں نے ایک پاکیزہ چیزکو دوسری پاکیزہ چیز کے ساتھ ملایا، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(اس طرح تلاوت نہ کرو بلکہ) ایک سورت کو مکمل پڑھو۔

دوسری روایت میں ہے:
أن النبيصلی الله علیہ وسلم قال لبلال: إذا قرأت السورة فأنفذہا․

نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا :جب تم سورت پڑھو تو اسے مکمل کرو۔(اعلاء السنن4/140-139، باب استحباب سورة فی رکعة․․․․رقم الحدیث:1088)

فتاوی تاتار خانیہ میں لکھا ہے کہ:
الأفضل أن یقرأ في کل رکعة بفاتحة الکتاب وسورة تامة، ولو قرأ بعض السورة في رکعة والبعض في رکعة، بعض مشائخنا رحمہم اللہ قالوا: یکرہ؛ لأنہ خلاف ما جاء بہ الأثر․

افضل یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور کوئی مکمل سورت پڑھی جائے اور اگر سورت کا ایک حصہ ایک رکعت میں اور دوسرا حصہ دوسری رکعت میں پڑھا تو ہمارے بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ مکروہ ہے؛کیوں کہ یہ منقول روایات کے خلاف ہے۔(فتاوی تاتار خانیہ، فصل فی القراء ة، نوع آخر، 1/332، قدیمی کتب خانہ، کراچی )

اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے :
وکذلک یکرہ أن یختار قراء ة أواخر السور دون أن یقرأ السورة علی الولاء في الصلاة وخارج الصلاة، لأنہ یخالف فعل السلف․

نیز مکروہ ہے کہ سورتوں کے اواخر کے پڑھنے کا انتخاب کیا جائے اور کسی ایک سورت کو ترتیب کے ساتھ نہ پڑھا جائے، چاہے نماز میں ہو یا نماز سے باہر ؛ کیوں کہ یہ سلف صالحین کے معمول کے خلاف ہے۔(فتاوی تاتار خانیہ 1/333)

اور فتاویٰ شامی میں لکھا ہے:
مع أنہم صرحوا بأن الأفضل في کل رکعة الفاتحة وسورة تامة․

فقہاء نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور کوئی مکمل سورت پڑھی جائے۔(شامی2/261)

احسن الفتاوی میں مرقوم ہے:
پوری سورت پڑھنا افضل ہے اور اگر جزوِ سورت پڑھنا چاہے تو آخر سے پڑھے، آخر سورت کا ترک مکروہ تنزیہی ہے۔(احسن الفتاوی 3/73، باب القرا ء ة والتجوید)

فتح الباری میں ہے:
التکریر أخف من قسم السورة في رکعتین․

یعنی کراہت کے اعتبار سے ایک ہی سورت کو دو رکعت میں پڑھنا ہلکا ہے اس سے کہ ایک سورت کو دو رکعتوں میں تقسیم کیا جائے، یعنی آدھا آدھا کر کے پڑھا جائے۔ (فتح الباری 2/333 ،باب الجمع بین السورتین فی رکعة)

ان روایات، فقہاء کی عبارتوں اور اصحاب افتاء کے فتاوے کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ جو چیز خلافِ اولیٰ ہے وہ ہماری نمازوں میں کس کثرت سے پائی جاتی ہے اور ہمیں اپنے طرز عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے اللہ ہمیں صحیح اور حق کے قبول کرنے کی توفیق دے۔

نماز میں مسنون قراء ت
یوں تو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے نماز وں میں پورے قرآن سے قراء ت کرنے کی روایات بھی موجود ہیں؛ لیکن ان سب روایات کا حاصل یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے احیاناً ایسا کیا ہے، بکثرت روایات اس بات پر شاہد ہیں کہ عمومی طور پر آپ صلی الله علیہ وسلم نماز میں قرا ء ت طوال مفصل، اوساط مفصل اور قصار مفصل سے ہی کیا کرتے تھے، اس لیے یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول قرار پایا اور اسی کو فقہاء نے افضل واولیٰ قرار دیا ہے؛ اگر چہ کبھی کبھار اس کے خلاف کرنا بھی سنت ہی ہے؛ لیکن اسے عادت بنالینا حضورصلی الله علیہ وسلم کے معمول کے خلاف ہوگا۔

عن سلیمان بن یسار قال: کان فلان یطیل الأولین من الظہر، ویخفف العصر، ویقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بوسطہ، وفي الصبح بطوالہ، فقال أبوہریرة: ما صلیت وراء أحد أشبہ صلاة برسول اللہ صلی الله علیہ وسلم من ہذا․ أخرجہ النسائي بإسناد صحیح․

سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ فلاں شخص (یعنی خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز)ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھاتے ہیں اور عصر کی نماز ہلکی (یعنی مختصر) پڑھاتے ہیں اور مغرب میں قصار مفصل ، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل سے قرا ء ت کرتے ہیں، تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو حضورصلی الله علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو سوائے اس شخص کے۔

تشریح: حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:احتج بہ أصحابنا علی أن سنة القرأء ة أن یقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بأوساطہ، وفي الفجر بطوالہ، ووجہ الاستدلال في قول أبي ہریرة: ”ما صلیت وراء أحد أشبہ صلاة برسول اللہ صلی الله علیہ وسلم من ہذا“ مع بیان الراوي حال قراء تہ أنہ کان یقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بوسطہ، وفي الصبح بطوالہ، وہذا یشعر بمواظبتہ صلی الله علیہ وسلم علی ذلک․

ہمارے علماء نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ مسنون قرا ء ت یہ ہے کہ مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھی جائے اور طریقہ استدلال یہ ہے کہ راوی نے جب یہ بیان کیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز مغرب میں قصار مفصل ، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھتے ہیں تو ابو ہریرہ نے فرمایا کہ یہ نماز حضور کی نماز کے زیادہ مشابہ ہے اور حضرت ابوہریرہ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ترتیب سے قراء ت کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا۔(اعلاء السنن 4/22-21، باب ما جاء فی القراء ة فی الحضر، رقم الحدیث991)

عن الحسن وغیرہ قال: کتب عمر إلی أبي موسی أن اقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بوسط المفصل، وفي الصبح بطوال المفصل․

حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کولکھا کہ مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل کی قراء ت کیا کرو۔(اعلاء السنن4/35، باب ما جاء فی القراء ة فی الحضر، رقم الحدیث: 1010)

تشریح: حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو اس ترتیب سے نمازوں میں قراء ت کرنے کی ہدایت اس لیے فرمائی ہے کہ یہی مستحسن اور سنت طریقہ ہے اور انہوں نے دیکھا تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم زیادہ تر انہی سورتوں کی نمازمیں قراء ت کیا کرتے تھے۔(اعلاء السنن 4/43-36)

اسی لیے فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں مذکورہ ترتیب سے نمازوں میں قراء ت کرنے کو مسنون قرار دیا گیا ہے؛ چناں چہ در مختار میں ہے:

ویسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذکرہ الحلبي - والناس عنہ غافلون - (طوال المفصل) من الحجرات إلی آخر البروج (في الفجر والظہر، و) منہا إلی آخر لم یکن، (أوساطہ في العصر والعشاء و) باقیہ (قصارہ في المغرب) أي کل رکعة سورة مما ذکر،ذ (شامی 2/261-259، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة)

حضر میں امام او رمنفرد کے لیے فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل، یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک قراء ت کرنا مسنون ہے، حلبی نے اسے بیان کیا ہے اور لوگ اس کی طرف سے غفلت میں ہیں اور عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل مسنون ہے، یعنی ہر رکعت میں ان سورتوں میں سے کوئی ایک سورت پڑھی جائے۔

فتاویٰ محمودیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:
مسنون یہی ہے کہ ان سورتوں کو پڑھا جائے، کبھی کبھی ان سورتوں کے علاوہ دوسری سورتوں کا پڑھنا بھی ثابت ہے؛ مگر عامة ً انہی سورتوں کو پڑھنا چاہیے ۔

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
عادة ایسا کرنا (یعنی حدیث میں موجود ترتیب کے ساتھ نمازوں میں قراء ت نہ کرنا اور ادھر اُدھر سے پڑھنا) خلاف افضل کو اختیار کرنا ہے، توجہ دلانا چاہیے۔(دیکھیے: فتاوی محمودیہ 7/78-76،ادارہ الفاروق کراچی)

احسن الفتاویٰ میں حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لکھتے ہیں:
غرضیکہ مفصل سور(سورتیں) پڑھنا سنت ہے اس کے خلاف جو معمول بن چکا ہے وہ صحیح نہیں، خانیہ و منیہ میں قراء ة مفصل کا استحباب مذکور ہے، مگر علامہ حلبی فرماتے ہیں کہ یہاں استحباب سے سنت مراد ہے، اور بفرض استحباب بھی اس کے ترک کو مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے، ترک سنت یا استحباب اور کراہت تنزیہیہ کا ارتکاب بالخصوص اس پر دوام اور اصرار قابل اصلاح ہے، سور مفصل کے سوا جہاں کہیں کسی سورت کا ثبوت ملتا ہے وہ احیاناً مقتضائے حال پر مبنی ہے۔ (احسن الفتاوی 3/73، باب القراء ة والتجوید)

نیز یہ بھی معلوم رہے کہ یہ صرف فقہائے احناف کا مسلک نہیں؛ بلکہ چاروں ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ نمازوں میں اس ترتیب سے قراء ت کرنا مسنون ہے۔(تحفة الالمعی 2/107، باب ما جاء فی القراء ة فی الصبح)

ان تمام اقتباسات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عمومی احوال میں طوال مفصل، اوساط مفصل اور قصار مفصل سے ہی قراء ت کرنی چاہیے؛ لیکن کبھی کبھی معنی ومضمون اور رکوع کا لحاظ کرتے ہوئے دیگر مقامات سے بھی ان سورتوں کے بقدر پڑھنا چاہیے؛ کیوں کہ کبھی کبھی اس طرح قراء ت کرنا بھی حضور پاک صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کبھی عوام کے ذہن میں یہ بات نہ بیٹھ جائے کہ صرف انہی محدود سورتوں کی قراء ت نماز میں ہوسکتی ہے، بقیہ قرآن کی نہیں؛ لہٰذا اس گمان فاسد کے ازالے کہ لیے کبھی کبھار قرآن کے دیگر پاروں سے بھی قراء ت کرنی چاہیے؛ مگر معلوم رہے کہ یہ کبھی کبھار ہی ہو، اکثر ایسا نہ کریں اور نہ ہی اسے معمول اور عادت بنائیں، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔

مختلف مقامات سے قراء ت کرنے کا طریقہ
جس طرح پورے قرآن کو تیس مساوی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اسی طرح مشائخ بخارا نے ہر حصے کو مزید چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا ہے، یہ حصے ”رکوع“ کہلاتے ہیں، یہ تقسیم معنی کے اعتبار سے کی گئی ہے، یعنی جہاں ایک سلسلہٴ کلام مکمل ہوا ہے، وہاں رکوع مکمل ہوگیا،اس کا مقصد یہ تھا کہ عربی زبان سے ناواقف لوگ از خود یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کس جگہ تلاوت کا سلسلہ ختم کردینا مناسب ہوگا؛ چناں چہ ان کی سہولت کے لیے یہ تقسیم عمل میں لائی گئی، تعیین رکوع کے سلسلے میں آیتوں کی ایک مناسب تعداد کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے، اس طرح ایک پارہ عموماً پندرہ سے بیس رکوع میں منقسم ہے، اس کا مقصد آیات کی ایک ایسی متوسط مقدار کی تعیین ہے، جو ایک رکعت میں پڑھی جاسکے اور اس کو ”رکوع“ اسی لیے کہتے ہیں کہ نماز میں اس جگہ پہنچ کر رکوع کیا جائے گا۔(فتاویٰ تاتار خانیہ، نوع آخر، بیان القراء ة فی التراویح،1/479) (مقدمہ آسان تفسیر قرآن، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ،1/52)

لہٰذا ہمارے ائمہ حضرات جب نماز میں کسی بڑی سورت کا کوئی ٹکڑا تلاوت کرنا چاہیں تو انہیں رکوع کا لحاظ کرنا چاہیے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع مکمل کریں، اسی طرح تراویح میں حفاظ کو ایک رکعت میں رکوع پورا کرنا چاہیے، بہت سے حفاظ جو حافظی قرآن میں حفظ مکمل کرتے ہیں، وہ صفحے کے اختتام پر رکوع کے عادی ہوتے ہیں؛حالاں کہ وہاں مضمون مکمل ہونا ضروری نہیں۔

جمعہ کے دن نمازِ فجر میں مسنون قراء ت
میری ناقص معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں جمعہ کے دن فجر کی نماز میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم سے منقول سورتیں تلاوت نہیں کی جاتیں، چند جگہوں کا استثنا کیا جاسکتا ہے؛ اسی لیے عام طور پر لوگوں کو اس کا علم بھی نہیں ہے کہ اس روز کی فجر کی نماز میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کوئی مخصوص سورت تلاوت کیا کرتے تھے؛ حتی کہ بہت سے مدارس میں بھی اس کا اہتمام نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہاں کے طلبہ بھی اس سنت سے نا بلد رہ جاتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی کوتاہی ہے اور ہمارے ائمہ کی غفلت ہے، انہیں جلد از جلد اس سنت پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور کم از کم کبھی کبھی ان سورتوں کو پڑھنا چاہیے؛ تاکہ وہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوسکیں۔

جمعہ کے روز فجر کی نماز میں نبی پاک صلی الله علیہ وسلم سے سورہ ”الم سجدہ“ اور سورہ” دہر“ کا پڑھنا ثابت ہے:
عن أبي ہریرة قال: کان النبيصلی الله علیہ وسلم یقرأ في الجمعة في صلاة الفجر الم تنزیل السجدة وہل أتی علی الإنسان․ (صحیح البخاری، باب ما یقرأ فی صلاة الفجر یوم الجمعة، رقم الحدیث: 891)

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں (پہلی رکعت میں) الم تنزیل السجدة اور (دوسری رکعت میں) ھل أتی علی الإنسان تلاوت کیا کرتے تھے۔

تشریح: حدیث کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں کے پڑھنے پر مواظبت فرماتے تھے اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی حدیث اس مفہوم کی تائید کرتی ہے؛ کیوں کہ اس میں ”یدیم ذلک“ (اس پر مداومت فرماتے تھے) کے جملے کا اضافہ ہے؛ اسی لیے فقہائے احناف فرماتے ہیں کہ اکثر انہیں سورتوں کو پڑھنا چاہیے، لیکن ہمیشہ پڑھنے سے کہیں عوام انہیں واجب نہ سمجھنے لگے؛ اس لیے کبھی کبھی دوسری سورت بھی پڑھنی چاہیے۔(اعلاء السنن4/45، رقم الحدیث: 1030)

احسن الفتاویٰ میں ہے:
نماز فجر میں جمعہ کے روز پہلی رکعت میں سورہ سجدہ اور دوسری میں سورہ دہر پڑھنا فی نفسہ مستحب ہے، لیکن اس پر مداومت مکروہ ہے؛ تاکہ عوام اسے واجب نہ سمجھنے لگے، آج کل ائمہ مساجد نے اس مستحب امر کو بالکل ہی ترک کررکھا ہے، یہ غفلت ہے اور اس کی اصلاح لازم ہے۔(احسن الفتاویٰ 3/81، باب القراء ة والتجوید)

نماز میں تخفیف کا مطلب
ہمارے بہت سے ائمہ کرام فجر کی نماز میں اوساط مفصل یا قصار مفصل سے قراء ت کرتے ہیں اور ان احادیث کو دلیل میں پیش کرتے ہیں، جن میں نماز میں تخفیف کرنے کا حکم آیا ہے، یا حضورصلی الله علیہ وسلم سے چھوٹی سورتیں پڑھنا منقول ہیں، جیسے ایک حدیث میں ہے : ”جب تم میں سے کوئی امام بنے ،تو نماز ہلکی پڑھائے۔“(سنن الترمذی، باب ما جاء إذا أمّ أحدکم الناس فلیخفف، رقم الحدیث:237) یا بعض احادیث میں ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں سورہٴ کافرون اور سورہٴ اخلاص کی تلاوت فرمائی۔(اعلاء السنن 4/47، باب مقدار القراء ة فی الحضر، رقم الحدیث:1035)

میں ان ائمہ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ حدیث کا وہ مطلب نہیں جو انہوں نے سمجھا ہے، بلکہ اس حدیث کا مطلب ” تحفة الالمعی“ میں اس طرح لکھا ہے:
اس حدیث میں اماموں کو ہلکی نماز پڑھانے کی نصیحت کی گئی ہے؛ کیوں کہ جماعت میں بیمار، بوڑھے اور حاجت مند سبھی طرح کے لوگ ہوتے ہیں؛ پس سب کی رعایت کر کے نماز پڑھانی چاہیے اور فقہ کی کتابوں میں مسنون قراء ت کی جو مقدار بیان کی گئی ہے، یعنی فجر وظہر میں طوال مفصل، عصر وعشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل، یہ مقدار حدیثوں کی روشنی میں تجویز کی گئی ہے اور اتنی مقدارپڑھنا،ہلکی قراء ت کرنا ہے، عمومی احوال میں مسجد کی جماعت میں اس مقدار سے کم قراء ت نہیں کرنی چاہیے، اگر کوئی بوڑھا یا بیمار ہے اور فجر میں مسنون قراء ت کے بقدر کھڑا نہیں رہ سکتا تو وہ بیٹھ کر قراء ت سنے یا گھر میں نماز پڑھے، اس کی رعایت میں مسنون قراء ت میں تخفیف نہیں کی جائے گی؛ البتہ اچانک پیش آنے والے احوال میں کمی بیشی کرسکتے ہیں، مثلاً نماز کے دوران امام نے محسوس کیا کہ بہت سے لوگ مسجد میں آئے ہیں اور وضو کررہے ہیں تو امام قراء ت طویل کرسکتا ہے؛ تاکہ لوگ وضو سے فارغ ہوکر جماعت میں شامل ہوجائیں یا صحن میں نماز ہورہی ہے اور اچانک بارش شروع ہوگئی تو قراء ت مختصر کرنے کی گنجائش ہے، غرض خصوصی احوال کی بات الگ ہے اور عمومی احوال میں مسنون قراء ت کے مطابق نماز پڑھانا ہی نماز میں تخفیف کرنا ہے۔ (تحفة الالمعی 1/569)

اس پوری بحث کو سامنے رکھ کر میں اپنے معزز ائمہ کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ وہ ایک طرف اس مکمل بحث میں پیارے آقاصلی الله علیہ وسلم کی نماز اور قراء ت کے تعلق سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے معمول کو دیکھیں، دوسری طرف اپنی نماز اور اپنی قراء ت کا جائزہ لیں اور انصاف کریں کہ ہمارا معمول پیارے آقاصلی الله علیہ وسلم کے معمول سے مطابقت وموافقت رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر رکھتا ہے تو خدا کا شکر بجا لائیں اور اگر نہیں رکھتا تو آج ہی سے اپنے معمول کو تبدیل کرنے کا عزم کرلیں اور یہ پیغام زیادہ سے زیادہ ائمہ تک پہنچائیں؛ تاکہ ان کی نماز بھی سنت کے مطابق ہوجائے۔

Flag Counter