Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

11 - 16
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
قبر ،تدفین ،دعا اور لکڑی گاڑنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں، ایک صاحب نے اپنی والدہ کی قبر اونچی بنائی ہے اورعلاقہ کے رواج کے خلاف کیا ہے جس کی بعض علماء نے بہت زیادہ مخالفت کی۔

واضح رہے کہ ہمارے علاقے میں قبر ایک بالشت کے برابر بناتے ہیں اور قبر کے سرہانے اور پائنتی جانب درخت کی ایک ایک ٹہنی گاڑ دیتے ہیں۔

پہلے زمانہ میں یہ درخت کی ٹہنی اس لیے گاڑی جاتی تھی تاکہ کوئی جانور آکر مردہ کو نہ کھائے لیکن اب آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے یہ خطرہ بھی نہیں۔

اب آپ حضرات سے یہ پوچھنا ہے کہ ان صاحب کا یہ عمل کہ قبر کو ایک شبر تک اونچا کرنا یہ سنت کے مطابق ہے یا دوسرے علماء کا عمل سنت ہے او رقبر کے سرہانے اور پائنتی جانب لکڑی گاڑ نا یا گاڑنے کو ضروری سمجھنا کیسا ہے؟

یہ صاحب تدفین کے بعد قبلہ رخ ہو کر دعاء مانگتے ہیں اوراس کو افضل سمجھتے ہیں، اس مسئلہ میں فتاوی محمودیہ کا حوالہ دیتے ہیں، جب کہ دوسرے علماء قبلہ رخ ہو کر دعاء مانگنے کو ہندوستان کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں کیوں کہ وہاں شرک زیادہ ہے اور ہمارے علاقے میں قبر کے اردگرد حلقہ بنا کر قبلہ رخ ہوئے بغیر دعاء مانگنا افضل ہے ،ان صاحب نے ایک دفعہ تدفین کے بعد عربی زبان کے ساتھ اپنی مادری زبان میں بھی دعا کی اور میت کی مغفرت کی دعاء کے ساتھ عام مسلمانوں کے لیے بھی دعا، کی جس کی وجہ سے بعض علماء نے اعتراض کیا اور یوں کہاکہ یہ خلاف سنت ہے ، اور یہ دلیل دی کہ حضور علیہ السلام نے اس موقع پر صرف عربی زبان میں دعا ء کی ہے اور صرف میت کے لیے دعاء مغفرت کی ہے ۔ کیا ان صاحب کا یہ عمل سنت کے خلاف ہے یا نہیں؟

وضاحت … یہاں کے بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ ان مسائل میں کراچی اور پنجاب کے علماء سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ علاقہ کے علماء سے پوچھا جائے وہ ان مسائل کو ان علماء سے زیادہ جانتے ہیں جب کہ وہ صاحب یوں کہتے ہیں کہ سنت کسی علاقہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ وہ تو ہر علاقہ میں ایک ہی طرح ہوتی ہے، لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ مسائل مفتیوں سے پوچھیں، اگر میرے مسائل غلط ہوئے تو میں ان مسائل کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، وہ اکثر ملک کے بڑے اور مشہور دینی جامعات مثلاً:جامعہ فاروقیہ کراچی، دارالعلوم کراچی، جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی،جامعہ خیر المدارس ملتان، جامعہ اشرفیہ لاہور کی طرف عوام کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔

اب آپ حضرات سے عاجزانہ درخواست ہے کہ کیا ان صاحب کا موقف ان مسائل میں درست ہے یا دیگر علماء کا؟ تاکہ حق کے واضح ہونے کی صورت میں ہم ان صاحب یا دیگر علماء کی تائید کر سکیں۔

جواب… مسئلہ کو سمجھنے کے لیے آپ حضرات کو یہ جاننا ضروری ہے کہ قبر کھودنے کا سنت طریقہ کیا ہے ؟ تو جان لیں کہ شریعت میں قبر کھودنے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ جس علاقے کی مٹی سخت ہے، نرم نہیں ہے ، تو وہاں لحد ( بغلی قبر) بنانا سنت ہے، اور جس زمین میں لحد بنانا، زمین کی نرمی اور نمی کی وجہ سے ممکن نہیں تو وہاں صندوقی قبر (شق) بنائی جائے گی۔

لحد بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کے نصف یا مکمل قامت کے بقدر قبر کھودی جائے اور پھر قبلہ کی جانب ایک حفیرہ ( قبلہ کی دیوار کو نیچے کی جانب سے کھود کر ایسا خلا بنا لیا جائے کہ اس میں میت کو لٹا دیا جائے ) کھود ا جائے، جس میں میت کو لٹایا جائے، میت کو لٹانے کے بعد اس حفیرہ کو پتھر وغیرہ سے بند کر دیا جائے تاکہ میت کو مٹی نہ لگے، اس کے بعد اس گڑھے میں پہلے سے نکالی ہوئی مٹی واپس ڈال دی جائے۔

او رجہاں لحد بنانا ممکن نہ ہو تو وہاں نصف یا مکمل قامت کے بقدر کھودنے کے بعد قبر کے بیچ میں ایک حفیرہ ( گہرائی میں زمین اتنی کھود دی جائے کہ اس میں میت کو لٹایا جاسکے) کھودا جائے ، جس میں میت کو رکھا جائے اور اس حفیرہ کو پھر لکڑیوں یا پتھروں سے اتنے فاصلے سے ڈھک دیا جائے کہ میت کے چہرے یا جسم سے وہ لکڑی یا پتھر نہ لگے، اور پھر اس کے اوپر وہ مٹی ڈال دی جائے جو پہلے نکالی تھی۔

تفصیل بالا کے مطابق قبر کھودی جائے اور قبر سے نکالی گئی مٹی واپس قبر میں ڈال دی جائے، اس صورت میں اکثر مٹی واپس قبر میں ڈل جائے گی، اور بعد میں اگر قبر ایک یا ڈیڑھ بالشت سے زیادہ اونچی ہو تو زائد مٹی کو ہٹا دیا جائے، علامہ شامی رحمہ الله نے ردالمحتار اور علامہ ابن نجیم رحمہ الله نے البحرالرائق میں یہی طریقہ لکھا ہے۔

قبر کے سرہانے لکڑی گاڑنے سے مراد اگر درخت کی ٹہنی ہے تو اگرچہ یہ عمل حضور صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن اس کو ضروری سمجھنا اور تخفیف عذاب کا بالجزم اعتقاد رکھنا درست نہیں ، بلکہ محض امید کا درجہ ہونا چاہیے، اورجہاں عوام میں یہ اعتقاد جازم ہو اور وہ اس کو ضروری سمجھیں تو ان کے لیے یہ فعل جائز نہیں۔

تدفین کے بعد کچھ دیر قبر کے سرہانے یا قریب رہ کر دعا کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی ترغیب بھی دی ہے، اس سلسلے میں قبلہ رخ ہو کر دعاء مانگنی چاہیے۔

جہاں تک عربی زبان میں دعاء مانگنے کی بات ہے، تو عربی میں دعاء مانگنا افضل ضرور ہے لیکن ضروری نہیں، کسی بھی زبان میں دعا ء مانگی جاسکتی ہے، اسی طرح میت کے علاوہ اپنے اور عام مسلمانوں کے لیے بھی دعاء مانگنا بہتر ہے۔

مشینی ذبیحہ؟
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام قرآن وحدیث کی روشنی میں درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل غیر اسلامی اور بعض اسلامی ممالک میں جانور کو مشین سے ذبح کیا جاتا ہے جس کو مشینی ذبیحہ (Mechanical Slaughtring) کہتے ہیں ۔

مشینی ذبیحہ کا طریق کار:
عام طور پر مشینی ذبیحہ کی ضرورت چھوٹے جانور( مرغی وغیرہ) میں پڑتی ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرغی کو بے ہوش کرنے کے بعد مشین جو کہ ایک لوہے کی پٹری پر مشتمل ہوتی ہے جو ایک ہال کی چوڑائی میں دو دیواروں کے درمیان اوپر کے حصے میں نصب ہوتی ہے، اس پٹری کے نچلے حصے میں بہت سے ھک لٹکے ہوتے ہیں جن کا رخ زمین کی طرف ہوتا ہے، پھر ان ہکوں میں مرغی کو الٹا لٹکایا جاتا ہے، پھر اجتماعی تسمیہ کے ساتھ یا ٹیپ رکارڈ پر چلنے والی تسمیہ کے ساتھ مشین میں لگے بلیڈ کے ذریعے گردن کو الگ کر دیا جاتا ہے۔

مشینی ذبیحہ کا متبادل طریق کار:
متبادل طریقہ جو کہ بعض ممالک میں متعارف ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ مشینی پٹری کے ساتھ چند پٹری مزید لگا دی جائیں اور ہر پٹری پر ایک آدمی کھڑا ہاتھ کے ذریعہ ہر مرغی پر تسمیہ پڑھتے ہوئے ذبح کرے اور پھر باقی طریقہ کار بذریعہ مشین وہ ہی رہے جو کھال اتارنے سے لے کر گوشت کی پیکینگ تک رہتا ہے، اس طریقہ کار کے مطابق انتہائی کم مقدار میں مرغی کی قیمت تو بڑھتی ہے لیکن خریدار کے لیے اس کو خریدنا مشکل نہیں ہوتا۔

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں درکار ہیں:
1..مشینی ذبیحہ جائز ہے یا نہیں؟ 2..  کیا سب جانوروں کے لیے ایک تسمیہ کافی ہے؟3.. کیا ہر ہر جانور کے لیے الگ الگ تسمیہ پڑھنا ضروری ہے ؟ 4..کیا جانور کے ذبح کے وقت پوری گردن الگ کرنا جائز ہے؟ 5.. اگر ٹیپ ریکارڈ پر تسمیہ کی آواز چل رہی ہو تو ایسی تسمیہ کے ساتھ ذبح شدہ جانور حلال ہے یا نہیں؟6.. مشینی ذبیحہ کا جو متبادل طریقہ ذکر کیا ہے کیا ایسے طریقے کے مطابق مذبوحہ جانور حلال ہو گا یا نہیں؟

جواب… 1..مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ مشینی ذبیحہ جائز ہے، اگر ایک شرط بھی مفقود ہو گئی تو مشینی ذبیحہ جائز نہیں ہو گا اور ذبح شدہ جانور حرام ہو گا:

جانور یا مرغی پہلے سے زندہ ہو۔ مشین کے ذریعے ذبح کرنے والا آدمی مسلمان ہو۔ مشین کی چھری جانور کی گردن تک پہنچاتے وقت اس نے خالص الله کا نام ” بسم الله، الله اکبر“ پڑھا ہو۔ چار رگیں (خوراک کی نالی، سانس کی نالی اور ان کے دائیں بائیں خون کی دو رگیں) یا کم از کم تین رگیں کٹ جائیں ۔ جتنے جانوروں یا مرغیوں کی گردن پر چھری بیک وقت پڑی وہ جانور او رمرغیاں ممتاز اور الگ ہوں ان دوسرے جانوروں اور مرغیوں سے جن پر چھری بعد میں چلی اور وہ مردار ہیں، ان کا گوشت پہلے جانوروں اور مرغیوں کے گوشت میں مخلوط نہ ہو گیا ہو ، نیز سانس نکلنے سے پہلے مرغیوں وغیرہ کو گرم پانی میں نہ ڈالا ہو۔

(2..3)  ہر ہر جانور یا مرغی کے لیے الگ سے ” بسم الله“ پرھنا ضروری ہے، البتہ اگر مشین کابٹن دباتے وقت ” بسم الله“ پڑھ کر ایک سے زائد جانوروں یا مرغیوں پر بیک وقت مشین کا بلیڈ چلایا جائے تو ان سب کے لیے ایک ”تسمیہ“ پڑھنا کافی ہے ، بشرط کہ”تسمیہ“ پڑھنے، مشین کا بٹن دبانے اور ذبح کرنے میں قولاً وعملاً اتصال ہو۔

4..مکروہ ہے۔ 5..حلال نہیں ہے۔ 6..سوال میں مذکورہ متبادل طریقہ درست ہے، لیکن اس میں بھی یہ خیال رہے کہ روح نکلنے سے پہلے جانور یا مرغی سے کھال وغیرہ نہ اترے، کیوں کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔

ای ڈیڈی کمپنی کے کاروبار کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک ادارہE-Dady کے کام کرنے کا طریقہ کچھ عجیب ہے، اس ادارہ E-dady کی شرط ہے کہ اس کام کو کرنے سے پہلے ہم کو 6500/= روپے دینے لازمی ہیں، اس کے بعد ادارہEdady والے ہم کو کہتے ہیں کہ تم لوگ دو لڑکے لاؤ تو تم کو ہر لڑکا لانے پر کچھ روپے ملتے ہیں جو کہ ڈالر کی صورت میں ہوتے ہیں ،اس طرح کرتے کرتے جب ہم کو پانچویں بار ڈالر کی صورت میں ملتے ہیں وہ ہم کو نہیں دیں گے۔

کیوں کہ اس ادارہ Edady کی ایک اور شرط ہے کہ جو ہمارے ڈالر کی صورت میں پانچویں حصے کا روپیہ ہے اس سے ہم کو اس ادارہ Edady کی کچھ مصنوعات لینی لازمی ہیں، یہ ادارہ کی شرط ہے، اور اگر یہ نہ کریں تو ہم ادارہ کو 75$ ڈالر جمع کرنے پر ادارہ ہم کو Bike دے گا، اور اگر ہم کچھ اور زیادہ یعنی$1100 ڈالر جمع کرتے ہیں تو یہ ادارہ ہمیںDubai Tour کرواتا ہے دس دن کے لیے۔

اس ادارہ کی مصنوعات کے نام یہ ہیں:
Virtual Product. Health Product. Beauty Product. Jewelry Product=22K gold Plated with 2 year guarantee.
زیورات کی مصنوعات پر سونے کا پانی چڑا ہوا ہوتا ہے جو دو سال تک نہیں اُترے گا،یہ ادارہ ہم لوگوں کو 6500 روپے میں کچھ کورس بھی کرواتا ہے جوتمام کورس کرنے کے بعدubai Chamber of Commarceکی طرف سے ہم کو ڈگری(Degree) ملتی ہے او ران کے کورس کے نام یہ ہیں جو زیادہ تر بینک والوں کے لیے ہوتے ہیں:
Communication Skills, Business Skills. Contidence Skills Public Speaking. E-Banking. Employee Skills self Employee you have a jab, you own a job. Business Owner Skills Investor, you Own a System & money work for you people work for you.

اب بات آتی ہے کہ یہ کام حلال ہے یا حرام؟ اورSir Khuram Sheikh, Sir Kabir Sheikh کہتے ہیں کہ یہ کام حلال ہے، لیکن میرے پوچھنے پر کہ کس طرح حلال ہے؟ تو ان لوگوں نے مجھ کو کوئی جواب نہیں دیا او رکچھ احادیث بیان کیں او رمجھ کو کہاکہ کل کلاس ختم ہونے کے بعد میں تم کو بتاؤں گا کہ حلال کس طرح ہے یہ کام، مجھ کو یہ الفاظSir Kabir Sheikh نے کہے تھے، پھر اگلے دن جب سر نے صرف مجھے بتانے کے علاوہ پوری کلاس کو بتایا کہ فلاں سے یہ بات تصدیق ہوئی ہے کہ جس کام میں ادارہEdady یا کوئی اور ادارہ ہو اگر اپنی مصنوعات فروخت کرتا ہے تو یہ کام حلال ہے ،او راگر مصنوعات فروخت نہیں کرتا تو حرام ہے، اور Sir Kabir Sheikh کہتے ہیں کہ تم نے کچھ نہیں فروخت کرنا، صرف ہم کو لڑکے لانے ہیں اورروپے کمانے ہیں ،اور ادارہ کی مصنوعات ہمارے ذریعے ہر لڑکے کودیں گے،اور مفتی کا نام پوچھا تو انہوں نے مجھے نام نہیں بتایا، انہوں نے مجھ سے تقریر کروائی اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا ” اگر تم دو لڑکے لاتے ہو اور ان کو پورا کام کرنا بتاتے ہو جب وہ یہ سب کچھ جان جاتے ہیں تو تم گھر میں بیٹھ جاتے ہو، تو بتاؤ تمہارے پاس جو روپے آتے ہیں گھر بیٹھے بیٹھے وہ حلال ہے یا حرام؟ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا اور ان لوگوں نے مجھے فیل کر دیا ،اور اب مجھے دوبارہ تقریر کرنی ہے پانچ ہزار لوگوں کے سامنے ، تو مجھ کو اس کے متعلق کچھ بتائیں کہ یہ حلال ہے یا حرام؟

جواب…E-dady ایک طرح کی ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنی ہے، ” ملٹی لیول مارکیٹنگ“ کو اردو میں ” مختلف السطح تجارت“ کہتے ہیں، اس تجارت میں ایک آدمی کمپنی کا ممبر بنتا ہے ، پھر چند دوسروں کو ممبر بناتا ہے، پھر یہ سب اپنے تحت بہت سارے لوگوں کو ممبر بناتے ہیں، ” مختلف السطح“ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں ہر ممبر کی سطح او رحیثیت برابر نہیں ہوتی ، بلکہ جو پہلے شامل ہوتے ہیں، ان کی اونچی، زیادہ نفع والی، اور بعد میں شامل ہونے والوں کی نیچی اور کم نفع والی سطح اور حیثیت ہوتی ہے۔

اس مارکیٹنگ میں ” پر امیڈاسکیم“ کے مطابق کام ہوتا ہے ، پرامیڈ” مخروطی“ اور ”اہرامی“ شکل کو کہتے ہیں ، یعنی پہلے ایک ممبر ہوتا ہے ، پھر اس سے متصل ممبر ان بڑھتے اور پھیلتے چلے جاتے ہیں ، اس طریقہ کار میں کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں، بلکہ پہلے صرف ممبر کو مصنوعات دی جاتی ہیں ،او رپھر ممبر کے ذریعے خریدار کو وہ مصنوعات ملتی ہیں ، ساتھ ہی کمپنی کی طرف سے اس بات کی بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ مزید ممبر بنائیں، کمپنی کی مصنوعات فروخت کریں، اس پر کمپنی آپ کو کمیشن/ منافع دے گی ، پھر یہ کمیشن صرف ان خریداروں تک محدود نہیں ہوتا جن کو اس پہلے شخص نے بنایا ہے، بلکہ ان ممبروں سے آگے جتنے ممبر بنتے ہیں ، ان کی خریداری پر بھی اس شخص کو کمیشن ملتا ہے۔

ایسی کمپنیوں کا مقصد مصنوعات بیچنا نہیں ہوتا بلکہ کمیشن او رمنافع کا لالچ دے کر لوگوں کو کمپنی کا ممبر/ ڈسٹری بیوٹربنانا ہوتا ہے ، ایک تصوراتی اور غیر حقیقی منافع او رکمیشن کا وعدہ کرکے لوگوں کو کمپنی میں شامل کر لیا جاتا ہے، کمیشن کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے او رمصنوعات ثانوی درجہ رکھتی ہیں، اورمعاملات میں مقاصد ومعانی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ و عبارات کا نہیں۔

E-dady کے طریقہ کا کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ بھی ایک طرح کی ملٹی لیول مارکیٹنگ کمپنی ہے ،اور اس کا طریقہ کاروبار کچھ یوں ہے کہ ان کی کوئی بھی مصنوع (پروڈکٹ) خریدنے سے گاہک کا کمپنی میں بطور ممبر(Ambassador/سفیر) اکاؤنٹ کھل جاتا ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی اضافہ رقم نہیں دینی پڑتی، جب گاہک کا اکاؤنٹ کھل جاتا ہے تو اس کی حیثیت گاہک سے تبدیل ہو کر سفیر کی بن جاتی ہے، اور وہ کمپنی کی مصنوعات کو مارکیٹ کرنے اور اس پر کمیشن حاصل کرنے کا اہل بن جاتا ہے، اکاؤنٹ کا نقشہ کچھ اس کا ہوتا ہے:

نقشہ میں ایک سیدھی طرف ہے اور ایک الٹی طرف ، اب اگر سفیر اپنے دو دو ستوں کو کمپنی کی کوئی بھی مصنوع خریدنے کے لیے تیار کر لے اور اس کے وہ دوست کمپنی کی مصنوعات خرید لیں تو وہ دونوں دوست اوپر دیے گئے نقشہ کے ایک ایک طرف فٹ ہو جائیں گے، مثلا: دونوں دوستوں نے 25،25 ڈالر کی چیز خریدی، تو اب وہ نقشہ میں اس طرح نظر آئیں گے:

لہٰذا سفیر کو اپنے دو دوستوں کو متعارف کرانے او ران کی خریداری کرنے پر کمیشن ملے گا، اسی طرح یہ سلسلہ نیچے چلتا رہے گا کہ اگر سفیر کے دوستوں نے اپنے نیچے اور لوگوں کو کمپنی سے متعارف کروایا اور اس کا خریدار بنایا تو اس کا کمیشن بھی اس پہلے سفیر کو ملے گا، یعنی شروع میں سفیر کو اپنی محنت کے عوض میں کمیشن ملا اور پھر آئندہ اس کے دونوں طرف کے نیچے کے لوگوں کی محنت کے عوض میں اس کو کمیشن ملتا رہے گا۔

یہاں اگرچہ پہلی صورت میں فی نفسہ کمیشن حاصل کرنا جائز ہے، کیوں کہ اس صورت میں سفیر کی اپنی محنت سے چند افراد کمپنی سے خریداری کرتے ہیں او رکمپنی اس کا کمیشن اس سفیر کو دیتی ہے، لیکن دوسری صورت میں جب اسے بلا محنت اوروں کے واسطے کمیشن ملے، یہ ٹھیک نہیں، یعنی بلاواسطہ کسی کو کمپنی کا خریدار بنانے میں سفیر / ممبر کی محنت کا دخل ہوتا ہے، جس کی اجرت لینا جائز ہے، لیکن بغیر کسی محنت ومشقت کے بالواسطہ بننے والے ممبروں او ران کی آگے خرید وفروخت کی وجہ سے ملنے والی اجرت اور کمیشن کا لینا جائز نہیں۔

او ریہ بات واضح ہے کہ کوئی اس کمپنی کی مصنوعات اس لیے نہیں خریدتا کہ اسے صرف پہلے دو لوگوں کو ممبر بنانے کا کمیشن ملے، بلکہ وہ تو اس کمپنی کے ساتھ منسلک ہی اس لالچ میں ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ آگے سے آگے چلتا رہے او راسے بلاواسطہ بننے والے ممبروں کا کمیشن بھی ملتا رہے۔

ممبر او رسفیر فقہی اصطلاح میں ”دلال“ ہے اور دلالی اجارہ کی ایک قسم ہے ، تو گویا یہاں عقد اجارہ کے انعقاد کے لیے ایک شرط رکھی گئی ہے کہ دلال اس کمپنی کی کوئی مصنوع خریدے گا، اسی طرح کمپنی کی طرف سے یہ بھی شرط لگائی گئی ہے کہ ممبر بن جانے کے بعد بھی کسی کو دعوت دے کر کمپنی کا ممبر بنانے پر دلال کو ملنے والے کمیشن، پانچویں مرتبہ اس کو نہیں ملے گا ،بلکہ دلال پر ضروری ہو گا کہ وہ اس کمیشن سے کمپنی کی کوئی مصنوع خریدے، دونوں شرطوں کے مقتضیٰ عقد کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں احد المتعاقدین (کمپنی) کا نفع ہے، کمپنی کا اپنے ممبر/سفیر کو اس قسم کی شرائط کا پابند کرنا شرعاً جائز نہیں، اس سے عقد فاسد ہو جاتا ہے۔

اس طرز کی کمپنیوں کے طریقہ کار میں عموماً دھوکہ ہوتا ہے، وہ ظاہر ایسا کرتی ہیں، جیسے کہ ان کا مقصد مصنوعات کا بیچنا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ خریدار بھی عام طور پر سفیر/ ممبر بننے کے لیے ہی ان کی مصنوعات خریدتا ہے، نہ کہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے، اسی طرح وہ اپنے آگے اوروں کو سفیر / ممبر بنانے کے لیے لمبے لمبے کمیشن کا وعدہ کرتے ہیں ، جو ایک طرح سے دھوکہ بھی ہے اور جوئے کی ایک شکل بھی، کہ سفیر/ ممبر ان کی مصنوعات کمیشن اور بونس کی امید پر خرید رہا ہے، جس کا ملنا کوئی یقینی نہیں اور اس کی تعداد متعین اور حتمی نہیں۔

غرر کی بھی صورت یہاں پائی جارہی ہے کہ کمیشن کی لالچ میں کم قیمت کی اشیاء مہنگے داموں خریدی جاتی ہیں، کیوں کہ عام طور پر اس قسم کی کمپنیوں کی مصنوعات کی قیمت عام بازاری قیمت سے مہنگی ہوتی ہے، تو یہ زیادہ قیمت داؤ پر لگی ہوتی ہے کہ کیا وہ اپنے آگے اور ممبر/ سفیر بنا پائے گا کہ ان کی آمدنی سے وہ کمیشن اور بونس حاصل کرسکے؟

او رجب مصنوعات خریدنا مقصد ہی نہیں ہے، صرف کمیشن اور بونس حاصل کرنا مقصد ہے تو پھر یہ معاملہ ایک طرح سے سود کے بھی مشابہ ہے کہ یہاں پیسے کے بدلے میں پیسوں والا معاملہ کیا جارہا ہے۔

لہٰذا ایسی کمپنی( جس کے کاروبار میں جھوٹ، دھوکہ شامل ہو، سود، قمار اور غرر کا شائبہ ہو، اور عقد میں اس قسم کی شرائط ہوں جو مفسد عقدہوں، اور جس کے معاملات غیر شرعی ہوں) کے ساتھ اس نوعیت کا معاملہ کرنا اور اس کا سفیر بن کر کمیشن حاصل کرنا جائز نہیں ہے، ہاں! اگر کوئی حقیقتاً صرف اپنے استعمال کے لیے اس کمپنی کا کوئی پروڈکٹ ( مصنوع) خریدتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ، خرید سکتا ہے۔

دارالافتاء کسی مخصوص کمپنی کے طریقہ کار کی اپنے طور پر مکمل تحقیقات کرانے کے حوالے سے بے اختیار ہے، بلکہ جو مواد سائل کی طرف سے بھیجا جاتا ہے اس کے مطابق جواب دیا جاتا ہے، لہٰذا کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی ذمہ داری سائل پر ہی عائد ہو گی۔

Flag Counter