Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

12 - 16
وہ ثانی اثنین لقب پانے والا

احتشام الحسن،طا لب علم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
الله تعالیٰ نے زمین وآسمان کو عدم سے وجود بخشا ، زمین وآسمان کی تمام مخلوقات کو کن کہہ کر تخلیق کیا، پھر ان مخلوقات میں مختلف درجات رکھے انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف المخلوقات بنایا، پھرانسانوں میں سب سے اعلیٰ درجہ انبیائے کرام کو عطا فرمایا، انبیاء میں سب سے عالیٰ مقام ہمارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ پھر تمام انبیاء کے بعد اگر کسی جماعت کا درجہ ہے تو وہ اصحاب پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کا ہے ۔ جن کو الله تعالیٰ نے﴿أولئک ھم الفلحون﴾․ ﴿أولئک ھم الصادقون﴾․ ﴿أولئک ھم المؤمنون حقاً﴾ اور﴿رضی الله عنہم ورضوا عنہ﴾ کے القابات سے یاد کیا۔

پھر تمام اصحاب پیغمبر میں اگر کسی صحابی کا درجہ ہے تو وہ خلیفة الرسول حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے سواکوئی اور نہیں ہے۔ اسی پر تمام اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی فضیلت کے تمام دلائل ایک طرف اور قرآن مجید کی یہ آیت:﴿ثَانِیَ اثْنَیْْنِ إِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا﴾․ (سورہ توبہ، آیت:40) ایک طرف ۔یہ آیت آپ  کی فضیلت پر ایک ایسی دلیل ہے کہ اس میں آج تک کسی مفسر ، کسی محدث اور کسی مجتہد کا اختلاف نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی دورائے ہے کہ اس آیت سے مراد حضرت ابوبکر صدیق کے علاوہ کوئی اورنہیں۔

آپ کا نام ونسب
آپ کا نام عبدالله، کنیت ابوبکر اور لقب عتیق وصدیق تھا۔ والد کا نام عثمان اور کنیت ابوقحافہ تھی، والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر تھی۔ خاندانی رشتے میں اپنے شوہر کی چچازاد بہن تھیں۔

آپ قریش کی ایک شاخ تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کیطرف سے شجرہ نسب یہ ہے، عبدالله بن عثمان بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب۔ والدہ کا نسب نامہ یہ ہے ، سلمیٰ بنت صخر بن عمروبن کعب۔ یہاں سے آپ کا اور آپ کے شوہر کا نسب ایک ہو جاتا ہے، چھٹی پشت میں والدہ اور والد کی طرف سے ” مرة بن کعب“ پر آپ کا سلسلہ نسب حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔

آپ کی ولادت
آپ کی ولادت باسعادت عام فیل کے ڈھائی بر س بعد ہوئی، یعنی سن ہجری کے آغاز سے پچاس برس چھ مہینے قبل۔ آپ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے کم وبیش تین برس چھوٹے تھے۔

عہد جاہلیت میں آپ کا مرتبہ
زمانہ جاہلیت میں آپ قبائل واقارب میں راست گوئی، امانت ودیانت میں مشہور تھے، اہل مکہ آپ کو علم، تجربہ اور حسن خلق کے باعث معزز ومحترم خیال کرتے تھے۔ خصوصاً علم الانساب اور اخبار عرب کی وجہ سے قوم کو آپ کی صداقت وحقانیت پر بڑا اعتماد تھا، آپ کی فطرت شروع سے ہی سلیم تھی، چناں چہ آپ کو اسلام سے پہلے بھی بت پرستی سے نفرت تھی، شراب نوشی کو بُرا جانتے تھے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں ابو نعیم کے حوالے سے حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے کہ ”لقد حرّم ابوبکر الخمر علیٰ نفسہ فی الجاہلیة“۔ ترجمہ: ابوبکر نے عہد جاہلیت میں بھی شراب اپنے اوپر حرام کر رکھی تھی۔

آپ کا قبول اسلام
آپ کے قبول اسلام کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر اس وقت تجارت کے لیے یمن گئے ہوئے تھے، جب واپس آئے تو سردارانِ قریش ملنے گئے تو حضرت ابوبکر نے پوچھا”کوئی نئی بات؟“ ان لوگوں نے کہا ”ہاں! ایک نئی بات یہ ہے کہ ابو طالب کا یتیم بچہ نبوت کادعویٰ کرتا ہے ۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر کا دل تڑپ اٹھا۔ سردارانِ قریش رخصت ہو گئے تو سیدھے خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اورآں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے بیعت کے بارے میں سوال کیا اور اسی مجلس میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا میں نے جس کسی کے سامنے اسلام پیش کیا تو اس نے تھوڑی بہت جھجک ضرور محسوس کی، لیکن جب ابوبکر کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے جھجک کے بغیر اس کو قبول کر لیا۔

حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم سے آپ کا تعلق
اسلام سے پہلے ہی آپ کے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے دوستانہ تعلقات تھے، پھر اسلام کے بعد یہ تعلق اور گہرا ہو گیا، یہی وجہ تھی کہ سفر وحضر، ہر جگہ ، ہرموقع پر آپ حضور صلی الله علیہ وسلم کے شانہ بشانہ نظر آتے تھے، غارثور ہو یا ہجرت مدینہ، غزوہ بدر ہو یا غزوہ احد، غزوہ خندق ہو یا غزوہ حنین، غرض ہر وقت آپ  حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔

آپ کا یہ تعلق اتنا پختہ رہا کہ وفات کے بعد بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا اور آج تک آپ کے پہلو میں آرام فرما رہے ہیں۔ اسی وفاداری کو دیکھتے ہوئے الله تعالیٰ نے آپ  کو ثانی اثنین کے لقب سے نوازا، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود اپنی زبانی فرما دیا کہ ”ہر ایک کے احسان کا بدلہ میں نے چکا دیا، سوائے ابوبکر کے احسان کے، ان کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کا بدلہ قیامت کے دن الله تعالیٰ ہی ان کو عطا فرمائیں گے۔“ اورحضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم پر کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہمارے گھر صبح وشام نہ آئے ہوں #
        پروانے کو شمع بلبل کو پھول بس
        صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

آپ کا دورِخلافت
جب حضور پاک صلی الله علیہ وسلم اس دنیاسے پردہ فرماگئے تو اس کے بعد تمام اصحاب پیغمبر کے اجماع کے ساتھ خلیفة الرسول مقرر ہوئے، آپ خلافت کے منصب پر دو سال اور تین ماہ تک فائز رہے، اس دوران آپ نے اتحاد امت ،منکرین زکوٰة کی سرکوبی، مرتدین سے مقابلے اور جھوٹے مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا، اسلامی افواج اور لشکروں کو عراق، شام، فلسطین اور دمشق بھیجا آپ نے 75 ہزار آٹھ سو مربع میل تک اسلام کا جھنڈا لہرا کر اسلامی سلطنت کو وسعت دی۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں میرے امتیوں کے ساتھ سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے رحم دل ابوبکر صدیق ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنے دورِ خلافت میں اٹھنے والے ہر چھوٹے، بڑے فتنہ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور انہیں راہِ راست پر لائے۔

آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حضرت عمر فاروق کو بلوایا۔ ان کو خلافت کا منصب سونپا، انہیں بہت مفید نصیحتیں کیں، جو ان کی کام یاب خلافت کے لییعمدہ دستور العمل ثابت ہوئی۔

آپ کی شان ومرتبہ
آپ کی شان ومرتبہ پر تمام امت مسلمہ متفق ہے۔ آپ کی شان میں قرآن مجید کی کئی آیات نازل ہوئیں، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ آپ کی شان میں وراد ہوئیں ہیں اور آج تک جتنے مفسر، محدث، فقہاء ، علماء ، خطبا اور اولیا کرام گزرے ہیں تمام نے آپ کی شان میں تعریفی کلمات کہنا اپنے لیے باعث برکت وفخر سمجھا۔

اپنے تو اپنے رہے، غیروں نے بھی آپ کے مقام ومرتبہ کا اعتراف کیا، تاریخ کے اوراق میں آپ کا نام سنہری حروف میں جلی طور پر لکھا ہوا ہے۔ یہاں پر صرف بطور دلیل کچھ اقوال ذکر کرنے پر اکتفا کیا جائے گا، تفصیل کے لیے مطول کتب کی طرف رجوع کیا جائے۔

قرآن مجید کا فیصلہ
الله تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ”اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو کیا مضائقہ، خدا اس کا ناصر ہے، جب کہ کفار نے اس کو مکہ سے نکال دیا وہ دوسرا ہے دو میں سے، جب کہ دونوں دوست غار میں تھے اور جب کہ اپنے رفیق کو کہہ رہا تھا کہ غم نہ کیجیے، یقینا خدا ہمارے ساتھ ہے۔“ (سورہ توبہ، آیت:40)

حضرت مولانا ادریس کاندھلوی نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ ” یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت کی اتنی بڑی اہم اور مستند دستاویز ہے کہ علماء نے کہا ہے کہ چوں کہ حضرت ابوبکر کی معیت وصحبت نبوت قرآن مجید میں منصوص ہے، اس بنا پر جوان کی صحابیت کا منکر ہے وہ قرآن مجید کی اس آیت کا منکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے۔ (معارف القرآن، ج1،ص:442)

اس آیت میں حضرت ابوبکر صدیق کی خصوصیات مذکور ہیں ثانی اثنین۔ إذھما فی الغار ۔ لصاحبہ۔ لا تحزن۔ ان الله معنا۔ تفصیل کے لیے تفاسیر کی طرف رجوع کریں۔

ثانی اثنین اور صدیق اکبر
حضرت مولانا نافع صاحب دامت فیوضہم فوائد نافعہ میں رقم طرازہیں کہ ۔”جس طرح ابوبکر کو ثانی فی الغار کی خصوصیت حاصل ہوئی، اسی طرح آپ کو ثانویت (ثانی ہونے کی) خصوصیت قدرت کاملہ کی طرف سے بہت سے دیگر مقامات میں بھی حاصل ہوئی، مثلاً: ثانی فی الاسلام۔ قبول۔ اسلام میں آں موصوف حضرت خدیجہ الکبری کے بعد دوسرے شخص ہیں۔ ثانی فی الہجرة۔ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت کرنے میں آپ دوسرے درجے میں ہیں۔ ثانی فی عریش بدر… مقام بدر میں جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے لیے تیار کیے جانے والے عریش میں آنجناب صلی الله علیہ وسلم کی معیت میں بیٹھنے والے دوسرے شخص ہیں۔ عریش چھاتہ کو کہتے ہیں۔ ثانی فی الامامةبالصلوٰة۔ جناب نبی اقدس صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آنجناب صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز کی امامت کرنے والے آں موصوف  ہیں۔ ثانی فی مقبرة النبی صلی الله علیہ وسلم … جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے روضہ اطہر میں دفن ہونے میں آں موصوف کا دوسرا درجہ ہے۔ ثانی فی دخول الجنة… جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق جنت میں داخل ہونے والے آپ دوسرے شخص ہوں گے۔ (فوائد نافعہ ،ص:91)

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فیصلہ
حضرت عائشہ سے ترمذی شریف میں مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس قوم وجماعت میں ابوبکر  موجود ہوں، اس کے لیے موزوں نہیں ہے کہ اس کی امامت ابوبکر کے علاوہ کوئی اور شخص کرے۔ (رواہ ترمذی) ایک او رجگہ پر ابن عمر  روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم نے صلی الله علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کو مخاطب کرکے فرمایا: ” تم میرے یارِغار ( یعنی غار کے ساتھی اور رفیق ہو ) او رحوضِ کوثر پر میرے مصاحب ہوگے۔“ (رواہ ترمذی)

ایک مرتبہ ابوبکر صدیق  حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے آپ  سے فرمایا کہ: ” تم دوزخ سے الله تعالیٰ کے آزاد کردہ ہو۔“ اس کے بعد آپ کانام عتیق پڑ گیا۔

اصحاب پیغمبر کا فیصلہ
حضرت عمر فاروق، سیّدنا صدیق اکبر کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” حضرت ابوبکر حسب ونسب کے اعتبار سے ہم میں سب سے افضل ہیں اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سب سے زیادہ چہیتے ہیں۔“

حضرت علی  نے فرمایا: ”ہم تمام لوگوں میں سے خلافت کا حق دار ابوبکر صدیق کو جانتے ہیں، کیوں کہ وہ صاحب غار اور ثانی اثنین ہیں۔ ”حضرت حسان بن ثابت سے ایک دفعہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم نے ابوبکر کے متعلق بھی کچھ اشعار کہے ہیں ، انہیں کہو تاکہ ہم بھی سن لیں ۔ “تو حسان کہنے لگے #
        وثانی اثنین فی الغار المنیف
        وقد طاف العبد بہ اذصعد الجبلا
        وکان حب رسول الله قد علموا
        من البریة لم یعدل بہ رجلا
                                (دیوان حسان،ص:240)
آپ نے یہ اشعار سن کر تبسم فرمایا اور یہ کلمات ارشاد فرمائے ” اے حسان! تم نے سچ کہا وہ (ابوبکر) ایسے ہی ہیں۔“

سلف صالحین کے اقوال
حضرت امام ابو جعفر (باقر) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”جس شخص نے حضرت ابوبکر وعمر کی فضیلت کو نہ جانا وہ سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے جاہل رہا۔“ ایک او رجگہ فرمایا: ”میں ان سے محبت کرتا ہوں اوران کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔“

ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں لکھا ہے کہ ” تمام اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ سے افضل ابوبکر صدیق  ہیں ۔ امام شعبی سے ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ الله تعالیٰ نے صدیق اکبر  میں چار خصلتیں ایسی پیدا کی ہیں کہ اب تک کسی شخص میں پیدا نہیں کی ہیں ( اور نہ قیامت تک کسی اور کو عطا کرے گا) اول آپ صدیق ہیں، کسی اور کا نام صدیق نہ ہوا۔ دوم آپ صاحب غار ہیں ۔ سوم ہجرت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ہم راہ تھے۔ چہارم آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز میں امام ہونے کا حکم فرمایا اور باقی مسلمانوں کو مقتدی ہونے کا۔

شیعہ علماء کے اقوال
شیعہ مفسر علامہ طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت ﴿وسیجنبھا الأتقی الذی یؤتی مالہ یتزکی﴾ ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں: عن ابن الزبیر قال: ان الآیة نزلت فی ابی بکرٍ․ (تفسیر مجمع البیان)

شیعہ کی معتبر کتاب کتاب الاحتجاج میں امام محمد تقی اور قاضی یحییٰ بن اکثم کا ایک مکالمہ درج ہے، اس میں قاضی یحییٰ نے حضرت عمر کی فضیلت میں حدیث پیش کی کہ حضرت عمر کی زبان پر سکینہ اترتا تھا تو اس کے جواب میں امام محمد تقی نے کچھ اس طرح ارشاد فرمایا: ” میں عمر کی فضیلت کا منکر نہیں ہوں اور یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت ابوبکر حضرت عمر سے افضل ہیں․“ (کتاب الاحتجاج ،ص:248)

غیروں کا اعتراف
1937ء میں سلطنت برطانیہ نے ہند کے باشندوں کو صوبہ جاتی خود مختاری دی تو گاندھی نے اپنی قوم کو مشورہ دیا تھا ہندو وقوم کو آزادی ملنے والی ہے، چوں کہ وہ اس طویل مدت میں حکم رانی کے طورو طریقے فراموش کرچکے ہیں، اس لیے میں ان کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ہجرت ابوبکر اور عمر کے ”اسوہٴ حسنہ“ کو پیش نظر رکھیں، کیوں کہ تاریخ عالم ان سے بہتر حکم ران ابھی تک ہمارے سامنے پیش نہیں کرسکی۔

اسٹینلی لین پول کچھ اس طرح رقم طراز ہوتا ہے : ”ابوبکر کی سنجیدہ قوت فیصلہ او رمحبت وشفقت سے لبریز دل یہ دوخوبیاں اسلام کی ترقی کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئیں۔“

آپ کا سفر آخرت
وفات سے ایک سال قبل ایک یہودی نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا جو سال بھر اندر ہی اندر اثر کرتا رہا، بعض حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی جدائی کا صدمہ اس قدر شدید تھا کہ وہ اندر ہی اندر گھلتے پگھلتے رہے۔

آپ نے وفات سے 15 دن پہلے دوشنبہ کو غسل کیا، جو کہ ٹھنڈا دن تھا،جس کی وجہ سے 15 دن بخار میں رہے ، نماز کے لیے بھی نہ نکل سکے، حضرت عمر بن خطاب کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، اس حالت مرض میں 22 جمادی الثانیہ 13ھ کو جان جان آفریں کے سپرد کر دی اور تمام عالمِ اسلام کو سوگ وار چھوڑ کر اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ آپ کی زبان مبارک پر سب سے آخری کلمات وہی تھے جو حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمائے تھے، وہ کلمات یہ تھے ”توفنی مسلماً، والحقنی بالصالحین․“

Flag Counter