Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

8 - 16
استغفار کی ضرورت واہمیت

ابوعکاشہ مفتی ثناء اللہ ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

گناہ کی وجہ سے کسی کی تحقیر نہیں کرنی چاہیے
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص بھی گناہ سے معصوم نہیں، لہٰذا اگر کسی سے خدانخواستہ گناہ سر زد ہو جائے، چاہے وہ ہمارے دوست احباب میں سے ہو، چاہے ہماری اولاد ، رشتہ داروں میں سے ہو، یا کوئی دوسرا عام آدمی ہو، تو اس کی اس گناہ کی وجہ سے تذلیل او رتحقیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کو خیر خواہی کے جذبے سے کہ وہ اس گناہ سے باز آجائے، محبت ونرمی سے سمجھانا چاہیے، لیکن اگر بسا اوقات سختی بھی کرنی پڑے، تو اس میں اس بات کا ضرور خیال رہے کہ وہ سختی صرف اس کی اصلاح کے لیے ہو ، اس میں اس کی تحقیر وتذلیل کا پہلو بالکل نہ ہو۔

اس لیے کہ اگر ہم نے خدانخواستہ کسی کو اصلاح کی آڑ میں سب کے سامنے ذلیل ورسوا کیا اور لوگوں کے سامنے اس کے گناہ کو اچھا لا، خاص کر جب کہ وہ آدمی اپنے اس گناہ سے تائب ہو چکا ہو، تو اس بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”من عیَّرأخاہ بذنب لم یمت حتی یعملہ، یعنی من ذنب قد تاب منہ․(مشکوٰة المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبة والشتم، رقم الحدیث:4855)

ایک شرابی کے نام حضرت عمر کا خط
حضرت یزید بن اصم رحمہ الله کہتے ہیں ، شام کا ایک آدمی بہت طاقت ور اور خوب لڑائی کرنے والا تھا، وہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی خدمت میں آیا کرتا تھا، وہ چند دن حضرت عمر رضی الله عنہ کو نظرنہ آیا، تو فرمایا: فلاں ابن فلاں کا کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا اے امیر المؤمنین! اس نے تو شراب پینی شروع کر دی ہے اور مسلسل پی رہا ہے، حضرت عمررضی الله عنہ نے اپنے منشی کو بلا کر فرمایا: خط لکھو:

یہ خط عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کی طرف سے فلاں بن فلاں کے نام سلام علیک
میں تمہارے سامنے اس الله کی تعریف کرتا ہوں ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو گناہوں کو معاف کرنے والا، تو بہ قبول کرنے والا سخت سزا دینے والا اور بڑا انعام واحسان کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگ اپنے بھائی کے لیے دعا کرو کہ الله تعالیٰ اس کے دل کو اپنی طرف متوجہ فرما دے اور اسے توبہ کی توفیق عطا فرما دے، جب اس کے پاس حضرت عمر رضی الله عنہ کا خط پہنچا ، تو وہ اسے با ربار پڑھنے لگا او رکہنے لگا، وہ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور سخت سزا دینے والا ہے ۔

اس آیت میں الله نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔

ابو نعیم کی روایت میں مزید بھی ہے کہ وہ اسے بار بار پڑھتا رہا، پھر رونے لگا، پھر اس نے شراب پینی چھوڑ دی او رمکمل طور سے چھوڑ دی، جب حضرت عمر رضی الله عنہ کو اس کی یہ خبر پہنچی، تو فرمایا ایسا کیا کرو، جب تم دیکھو کہ تمہارا بھائی پِھسل گیا ہے، اسے راہ راست پر لاؤ اور اسے الله کی معافی کا یقین دلاؤ اور الله سے دعا کر وکہ وہ اسے توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور تم اس کے خلاف شیطان کے مدد گار نہ بنو۔ (اور اسے الله کی رحمت سے ناامید نہ کرو)

واقعہ
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے پوچھا، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ میں نے زنا کیا تھا، جس سے میرے ہاں بچہ پیدا ہوا، پھر میں نے اس بچہ کو قتل کر ڈالا۔

میں نے کہا، نہیں ( تم نے دو بڑے گناہ کیے ہیں، اس لیے ) نہ تو تمہاری آنکھ کبھی ٹھنڈی ہو اور نہ تجھے شرافت وکرامت حاصل ہو، اس پر وہ عورت افسوس کرتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی، پھر میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی اور اس عورت نے جو کچھ کہا تھا اور میں نے اسے جو جواب دیا تھا، وہ سب حضور صلی الله علیہ وسلم کو بتایا، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے برا جواب دیا، کیا تم یہ آیت نہیں پڑھتے:﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَاماً، یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَاناً، إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً﴾ ․(سورة الفرقان:70-68)
ترجمہ: او رجو لوگ الله تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کرنے کوالله تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں! مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسے کام کرے گا، تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا کہ قیامت کے روز اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا اور وہ اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل وخوار ہو کر رہے گا، مگر جو (شرک اور معاصی سے ) توبہ کر لے اور ایمان بھی لے آوے او رنیک کام کرتا رہے، تو الله تعالیٰ ایسے لوگوں کے گزشتہ گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرمائے گا اور الله تعالیٰ غفور رحیم ہے۔

پھر میں نے یہ آیتیں اس عورت کو پڑھ کر سنائیں اس نے کہا تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہیں، جس نے میری خلاصی کی صورت بنا دی۔

ابن جریر کی ایک روایت میں یہ ہے کہ وہ افسوس کرتے ہوئے ان کے پاس سے چلی گئی ، ( یعنی پہلی مرتبہ جب عورت نے مسئلہ دریافت کیا اورحضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے وہ جواب دیا) او روہ کہہ رہی تھی، ہائیفسوس! کیا یہ حسن جہنم کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ اس روایت میں آگے یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس سے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ واپس آئے اور انہوں نے مدینہ کے تمام محلوں اور گھروں میں اس عورت کو ڈھونڈنا شروع کیا، اسے بہت ڈھونڈھا ،لیکن وہ عورت کہیں نہیں ملی۔

اگلی رات کو وہ خود حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس آئی، تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جو جواب دیا تھا، وہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے اسے بتا دیا، وہ فوراً سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی، تمام تعریفیں اس الله کے لیے ہیں، جس نے میرے لیے خلاصی کی شکل بنا دی اور جو گناہ مجھ سے سر زد ہو گیا تھا، اس سے توبہ کا راستہ بتا دیا اور اس عورت نے اپنی ایک باندی او ر اس کی بیٹی آزاد کی اور الله کے سامنے سچی توبہ کی۔(تفسیر ابن کثیر سورة الفرقان،68،614/4 ،وحیدی کتب خانہ)

گناہ گار کو حقیر نہ سمجھیں
”مسند احمد“ میں ایک واقعہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ راوی ہیں ، کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں دو شخص تھے جو آپس میں دوست تھے، ان میں سے ایک تو عبادت میں بہت ریاضت کرتا تھا اور دوسرا گناہ کرتا تھا او رکہتا تھا کہ میں گناہ گار ہوں، ( یعنی وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا تھا) چناں چہ عبادت کرنے والے نے اس سے کہنا شروع کیا، جس چیز میں تم مبتلا ہو ( یعنی گناہ میں ) اس سے باز آجاؤ، گناہ گار اس کے جواب میں کہتا کہ تم میرے پروردگار پر چھوڑ دو، کیوں کہ وہ غفور الرحیم ہے، وہ مجھے معاف کر ے گا، یہاں تک کہ ایک دن اس عابد نے اس شخص کو ایک ایسے گناہ میں مبتلا دیکھا، جسے وہ بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا، اس نے اس سے کہا کہ تم اس گناہ سے باز آجاؤ، گناہ گار نے جواب دیا کہ تم مجھے میرے پرورد گار پر چھوڑ دو اور کیا تم میرے داروغہ بنا کر بھیجے گئے ہو عابد نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم ! الله تعالیٰ تمہیں کبھی نہیں بخشے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا، اس کے بعد حق تعالیٰ نے ان دونوں کے پاس فرشتہ بھیج کر ان کی روحیں قبض کرائیں او رپھر جب وہ دونوں یعنی ان کی روحیں حق تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئیں تو حق تعالیٰ نے گناہ گار سے تو فرمایا کہتو میری رحمت کے سبب جنت میں داخل ہو جا اور دوسرے سے فرمایا کہ کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر دے، اس نے کہا نہیں پرورد گار۔ پھر الله تعالیٰ نے ان فرشتوں کو ( جودوزخ پر مامور ہیں) فرمایاکہ اس کو دوزخ کی طرف لے جاؤ۔ ( الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب التوبہ، باب قولہ: لاینجی احدکم عملہ،347/19)

چوں کہ عبادت کرنے والے نے اپنی عبادت او راپنے نیک اعمال پر غرور وتکبر کیا او راس گناہ گار کو اپنے سے حقیر جان کر اس سے یہ کہا کہ حق تعالیٰ تمہیں نہیں بخشے گا، اس لیے اسے مستحق عذاب قرار دیا گیا۔

اس لیے کسی بزرگ کا قول ہے کہ جو گناہ اپنے کو حقیر وذلیل سمجھنے کا باعث ہو، وہ اس طاعت وعبادت سے بہتر ہے جو غرور وتکبر اور نخوت میں مبتلا کر دے۔

گناہوں سے دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں
ہرانسان سے گناہ صادر ہوسکتا ہے ، لیکن ایسے موقع پر شریعت کی طرف سے تعلیم یہ ہے کہ پہلے تو انسان گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرے اور پوری ہمت صرف کرے، تاہم اگر کبھی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر برقرار نہ رہے بلکہ فوراً الله تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگ کر اپنے گناہ کو بخشوالے اورجب تک توبہ نہ کرے چین نہ ہو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے مومن کی شان یوں بیان فرمائی ہے: ”المؤمن یری ذنوبہ کانہ قاعد تحت جبل یخاف أن یقع علیہ، وان الفاجر یری ذنوبہ کذباب مرّ علی انفہ فقال بہ ھکذا“․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب التوبة، رقم الحدیث:6308)

مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا اور خوف زدہ ہو کہ پہاڑ اس کے اوپر نہ گر پڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسے اس مکھی کو جو اس کی ناک پر اڑے اور وہ اس کی طرف اس طرح یعنی اپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اور اسے اڑا دے۔ حاصل یہ کہ مومن گناہ سے بہت ڈرتا ہے اور اسے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں میں اس گناہ کی پاداش میں پکڑا نہ جاؤں، اس لیے اس کی نظر میں چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی بڑے اہمیت رکھتے ہیں، لیکن فاجر اپنے گناہوں کی کوئی پروا نہیں کرتا، اس کی نظر میں بڑے سے بڑے گناہ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

یہ بہت خسارے کی بات ہے کہ انسان توبہ کے بجائے ایک پر ایک گناہ کرتا چلا جائے۔ جس کی وجہ سے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے دل پر خیر کا اثر نہیں ہوتا۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إن المومن إذا أذنب کانت نکتة سوداء فی قلبہ، فإن تاب ونزع واستغفر صقل قلبہ، وإن زاد زادت، حتی یعلو قلبہ، ذاک الدین الذی ذکر الله تعالیٰ فی القرآن: ﴿کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون﴾․“ (الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب التوبة، باب فی الأمر بالتوبہ335/19)

یعنی جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے، تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہو جاتا ہے ، پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے او راستغفار کرتا ہے تو اس کا دل (اس سیاہ نقطہ) سے صاف کر دیا جاتا ہے او راگر زیادہ گناہ کرتا ہے، تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، پس یہ ران یعنی زنگ ہے، جس کے بارے میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿کلا بل ران علی قلوبھم ماکانوا یکسبون﴾ یوں ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر یہ اس چیز (گناہ) کا زنگ ہے جو وہ کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کے دلوں پر خیر وبھلائی بالکل باقی نہیں رہی ۔

یعنی جوں جوں گناہ میں زیادتی ہوتی جاتی ہے ، توں توں وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے قلب پر حاوی ہو جاتا ہے اور قلب کے نور کو ڈھانپ لیتا ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مومن دل کی بینائی سے محروم ہو جاتا ہے، چناں چہ نہ تو نفع دینے والے علوم اور نفع دینے والے اعمال ہی کی کوئی اہمیت اس کی نظروں میں باقی رہتی ہے اور نہ فائدہ مند عقل وحکمت کی باتوں کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہے اور آخر کار اس کے قلب میں ظلم وجہل اور شرو فتنہ کی تاریکی اپنا تسلط جمالیتی ہے، جس کا نتیجہ اس کے علاوہ او رکیا ہو سکتا ہے کہ گناہ پر اس کی جرات بڑھ جاتی ہے اور معصیت آمیز زندگی ہی اس پر چھا جاتی ہے۔

توبہ میں جلدی کرنے والوں کی الله نے تعریف فرمائی ہے
الله تبارک وتعالیٰ نے ایسے مومنین کی جو گناہ کے بعد الله تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیتے ہیں او رمعافی مانگ لیتے ہیں، تعریف فرمائی ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُواْ اللّہَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِہِمْ وَمَن یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّہُ وَلَمْ یُصِرُّواْ عَلَی مَا فَعَلُواْ وَہُمْ یَعْلَمُون﴾․(آل عمران:135)

ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے جب کوئی برا کام کیا، یا اپنی جانوں پر ظلم کیا، تو الله کو یاد کیا او راپنے گناہوں کی مغفرت چاہی اور گناہوں کو کون بخشے گا سوائے الله کے او رانہوں نے اپنے کیے پر اصرار نہیں کیا اور وہ جانتے ہیں۔

توبہ کرنے والے سے الله تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں
دنیا میں اگر انسان کسی کو ناراض کر لے، تو وہ ایک مرتبہ معاف کرے گا، دو مرتبہ، لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے ، جب وہ کسی بھی طرح راضی نہیں ہوتا، چاہے وہ باپ بیٹے کا رشتہ کیوں نہ ہو ، لیکن قربان جاؤں اس رحیم وکریم ذات کے کہ انسان جتنے بھی گناہ کر لے، پوری زندگی الله تعالیٰ کے ساتھ شریک کیوں نہ ٹھہراتا رہا ہو، لیکن جب وہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر الله تبارک وتعالیٰ کی چوکھٹ پر حاضرہوتا ہے، تو الله تبارک وتعالیٰ فوراً معاف فرما دیتے ہیں، صرف یہی نہیں کہ الله تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں، بلکہ بندے کے معافی مانگنے سے انتہائی خوش ہوتے ہیں اور اس خوش ہونے کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:”لله أشد فرحا بتوبة عبدہ حین یتوب إلیہ من أحدکم کان علی راحلتہ بأرض فلاة، فانفلتت منہ، وعلیھا طعامہ وشرابہ، فأیس منھا، فأتی شجرة فاضطجع فی ظلھا، قد أیس من راحلتہ، فبینا ھوکذلک اذ ھو بھا، قائمة عندہ، فأخذ بخطامھا ثم قال من شدة الفرح: اللھم أنت عبدی وأنا ربک، أخطأ من شدة الفرح․“(الجامع الصحیح للمسلم، کتاب التوبة، باب فی الحض علی التوبة، رقم الحدیث:6960)

الله تعالیٰ اس شخص سے جو اس کے سامنے توبہ کرتا ہے، اتنا زیادہ خوش ہوتا ہے کہ جتنا تم میں سے وہ شخص بھی خوش نہیں ہوتا کہ جو اپنی سواری پر بیچ جنگل بیابان میں ہو، او رپھر وہ جاتی رہی ہو، ( یعنی گم ہو گئی ہو) اور اس سواری پر اس کا کھانا بھی ہو او رپانی بھی ہو اور وہ اس کو تلاش کرنے کے بعد ناامید ہو جائے او رایک درخت کے پاس آکر اپنی سواری سے ناامیدی کی حالت میں (انتہائی مغموم وپریشان) لیٹ جائے او رپھر اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑا ہوا دیکھ لے، چناں چہ وہ اس سواری کا مہار پکڑ کر انتہائی خوشی میں (جذبات سے مغلوب ہو کر ) یہ کہہ بیٹھے، اے الله! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، مارے خوشی کی زیادتی کے اس کی زبان سے یہ غلط الفاظ نکل جائیں۔

یعنی اس شخص کو اصل میں کہنا تو یہ تھا، کہ اے الله! تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، مگر انتہائی خوشی کی وجہ سے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کہنے کے بجائے یہ کہہ بیٹھا ہے کہ اے الله تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔

مقصد یہ کہ الله تعالیٰ بندہ کی توبہ سے بہت خوش ہوتے ہیں، اوراس کی توبہ کو قبول فرماکر اپنی رحمت سے نواز دیتے ہیں۔

آسمان کی طرف سراٹھا کر استغفار کیجیے الله مسکرا کر معاف کر دیں گے
حضرت علی بن ربیعہ رحمہ الله کہتے ہیں، مجھے حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنے پیچھے بیٹھایا اور حرہ کی طرف لے گئے، پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر فرمایا: اے الله! میرے گناہوں کو معاف فرما، کیوں کہ تیرے علاوہ اور کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا ، پھر میری طرف متوجہ ہو کر مسکرانے لگے، میں نے کہا اے امیر المؤمنین ! پہلے آپ نے اپنے رب سے استغفار کیا، پھر میری طرف متوجہ ہو کر مسکرانے لگے ،یہ کیا بات ہے؟

انہوں نے فرمایا: حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک دن مجھے اپنے پیچھے بٹھایا تھا، پھر مجھے ”حرہ“ کی طرف لے گئے تھے، پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر فرمایا: اے الله !میرے گناہوں کو معاف فرما، کیوں کہ تیرے علاوہ او رکوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا، پھری میری طرف متوجہ ہو کر مسکرانے لگے تھے، میں نے کہا یا رسول الله! پہلے آپ نے رب سے استغفار کیا، پھر میری طرف متوجہ ہو کر مسکرانے لگے، اس کی کیا وجہ ہے ؟

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس وجہ سے مسکرا رہا ہوں کہ میرا رب اپنے بندے پر تعجب کرکے مسکراتا ہے او رکہتا ہے اس بندے کو معلوم ہے کہ میرے علاوہ او رکوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔

الله تعالیٰ اپنی طرف اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھتا ہے
اور وہ ایسی رحیم کریم ذات ہے کہ جب بندہ اس سے مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے، تو ان کو خالی واپس نہیں کرتا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ان ربکم حییٌ کریم، یستحیی من عبدہ إذا رفع یدیہ إلیہ أن یردھما صفرا“․(مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، الفصل الثانی، رقم الحدیث:2244)

تمہارا پروردگار بہت حیا مند ہے، وہ بغیر مانگے دینے والا ہے اور وہ اپنے بندے سے حیا کرتا ہے کہ اسے خالی ہاتھ واپس کرے، جب کہ اس کا بندہ اس کی طرف ( دعا کے لیے ) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے۔

اور الله تبارک وتعالیٰ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:﴿وَہُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُون﴾․ (سورة الشوری:25)

اور وہی ہے جو قبول کرتا ہے توبہ اپنے بندوں کی او رمعاف کرتا ہے برائیاں او رجانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

ایک اورجگہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿نَبِّیٴ عِبَادِیْ أَنِّیْ أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ،وَ أَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الأَلِیْم﴾․(سورة الحجر:49)

آپ میرے بندوں کو آگاہ کر دیں کہ میں بہت ہی درگزر کرنے والا، بے حد مہربانی کرنے والا ہوں اور یہ بھی کہ میرا ہی عذاب نہایت درد ناک عذاب ہے۔

الله تعالیٰ اپنے بندوں پر ماں سے زیادہ مہربان ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک قیدی عورت کو دیکھا، جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا اور وہ اپنے بچے کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا، تو قیدیوں میں سے جس بچہ کو دیکھتی اس کو گلے لگالیتی، یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا، خوشی خوش لے کر اسے گود میں اٹھالیا، سینے سے لگا کر پیار کیا اور اس کے منھ میں دودھ دیا، یہ دیکھ کر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے فرمایا: بتلاؤ یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یا رسول الله ! ہر گز نہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله کی قسم! جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پر مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ الله تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف رحیم ہے۔

واقعہ
اسی طرح ایک واقعہ مشکوٰة شریف میں ہے، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے ہم راہ کسی غزوہ میں چلے جارہے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم مسلمان ہیں، ان میں سے ایک ایسی عورت بھی تھی، اپنی ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہی تھی، ( یعنی کچھ پکارہی تھی) اس کے پاس اس کا بچہ بھی تھا، چناں چہ جب آگ کی لپٹ اٹھتی، تو وہ بچے کو ایک طرف ہٹا دیتی، (تاکہ آگ کی تپش سے اسے تکلیف نہ پہنچے)

پھر وہ عورت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کرنے لگی کہ آپ الله کے رسول ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس عورت نے کہا، کہ کیا الله تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس عورت نے کہا کہ ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی؟(تو پھر الله تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ میں کیوں ڈالتا ہے؟)

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ سن کر روتے ہوئے اپنا سر نیچے کر لیا، پھر (تھوڑی دیر کے بعد) اپنا سر مبارک اس عورت کی طرف اٹھایا اور فرمایا: الله تعالیٰ اپنے بندوں کو عذاب نہیں کرتا، ہاں! صرف ان لوگوں کو عذاب دیتا ہے، جو سرکش ہیں اور ایسے سرکش ہیں جو الله تعالیٰ سے سرکشی کرتے ہیں، (یعنی اس کے احکام نہیں مانتے) اور لا إلہ الا الله کہنے سے انکار کرتے ہیں۔ (مشکوٰة المصابیح، کتاب الدعوات، باب سعة رحمة الله، الفصل الثالث، رقم الحدیث:2378)

الله تعالیٰ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے
الله تبارک وتعالیٰ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے کہ کب یہ بندہ نادم ہو کر متوجہ ہو گا، تاکہ اس کی مغفرت ہو جائے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”إن الله عزّوجل یبسط یدہ باللیل لیتوب مسییٴ النھار، ویبسط یدہ بالنھار لیتوب مسییٴ اللیل حتی تطلع الشمس من مغربھا․“(الترغیب والترہیب، کتاب التوبة والزہد، الترغیب فی التوبہ88/4)

الله تعالیٰ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے، یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے۔ الله تعالیٰ کا ہاتھ پھیلانا اس کی رحمت ومغفرت سے کنایہ ہے۔ (جاری)

Flag Counter