Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

14 - 16
مدارس اسلامیہ، دین کے قلعے

مولانا سیّد عبدالله حسنی ندوی
	
الله تعالیٰ کا قانون ہے جس کا ذکر الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے اور حدیث میں بھی اس کو بیان کیاگیا ہے، وہ ہے بقائے انفع کا قانون ، جو چیز نافع ہے، جو اس کے علاوہ ہے بہہ جانے والی او رغائب ہو جانے والی ہے اور اسی کو حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، یا جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے، تو یہ بقائے انفع کا قانون بے لاگ ہے، جو جتنا نفع پہنچانے والا ہو گا اتنا ہی باقی رہے گا، اتنا ہی مضبوط رہے گا، اتنا ہی توانا رہے گا او راپنی نفع پہنچانے والی صفت میں وہ کافی رہے گا تو ہم لوگوں کو یہ چیک کرتے رہنا چاہیے او ربار بار دیکھتے رہنا چاہیے کہ ہمارا نفع کم تو نہیں ہو رہا ہے ، کیوں کہ مدارس جو ہیں وہ نفع پہنچانے کے مراکز ہیں ،ایک طرف سے لیتے ہیں، دوسری طرف دے دیتے ہیں، وہاں سے لیتے ہیں جہاں سے کوئی نہیں لے پاتا او ران کو دیتے ہیں جو لے نہیں پاتے، جو خاص طور سے براہ راست لے نہیں پاتے ان کوپہنچاتے ہیں، تو الله تعالیٰ نے مدارس کے اندر یہ صفت رکھی تھی، اب یہ صفت ہمارے اندر سے ہی ختم ہوتی چلی جارہی ہے، اس وجہ سے نگاہیں اٹھ رہی ہیں لوگوں کی ہماری طرف، جب ہم نفع والے تھے تو نگاہیں اٹھنے سے دور تھے، جب نفع کم ہوگیا یاختم ہوتا جارہا ہے تو حالات خراب ہو رہے ہیں، جب آپس میں ناچاقی ہوتی ہے تو لڑائی ہوتی رہتی ہے۔

جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
آپ نے سنا ہو گا کہ جب زیادہ پیسے والے جمع ہو جاتے ہیں تو لڑائی زیادہ ہوتی ہے، آپ نے زیادہ آرام سے رہنے والوں کو، زیادہ پیسوں والوں کو بے تکے الفاظ سے لڑتے نہیں دیکھا ہو گا، کبھی بھی کہ سامنے گریبان پکڑ لیں، لڑنے لگیں، لیکن یہ جو چھوٹے لوگ ہوتے ہیں، ایک ایک دو دو پیسے پر لڑنے لگتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس خاکہ نہیں ہے اور جس کا نفع زیادہ ہوتا ہے اس کی سطح زیادہ بلند ہوتی ہے وہ لڑتے نہیں ہیں، تو اب اس طرح مدارس میں باتیں ہیں، کیوں کہ نفع ختم ہوتا جارہا ہے اور اگر یہ سب نہیں ہے تو نفع باقی ہے۔

پاور ہاؤس کاConection صحیح ہو
یہ مدارس جو ہیں ان کے بہت سے کام ہیں، نمبر ایک وہ سارے کے سارے نفع سے وابستہ ہیں، ایک تویہ ہے کہ وہ بجلی لیتے ہیں، قرآن وحدیث سے اور قرآن وحدیث سے جو بجلی اکھٹاکرتے ہیں تو پاورہاؤس کی حیثیت ہوجاتی ہے اور جس کو جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی وہ استعمال کرتا ہے ، تویہ پاور ہاؤس ہیں، لیکن یہ پاور ہاؤس بجلی اس وقت پائیں گے، جب ان کا کنکشن ہو گا ، قرآن وحدیث سے جب ان کا تعلق ہو گا تب ان کو بجلی ملے گی اور ان سے تعلق نہیں ہو گا تو چاہے ادھر ادھر کتنے ہی تعلق ہوں۔ جتنے مذاہب ہیں ،عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ان سب کا کیامعاملہ ہے؟ ان کا رابطہاصلسے نہیں ہے اور یہودیوں کا اور عیسائیوں کا بھی کٹ گیا ہے اور انہوں نے نمبر تین اور نمبر چار، بلکہ اس کے بعد بھی لوگوں کے اقوال سے ہی وابستگی اختیار کر لی ، تو جب اصل سے رشتہ کٹ گیا، تو انرجی جوتھی سپلائی کی، وہ ختم ہو گئی اور ان کا وہ حال ہو گیا جو عمومی طور پر ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے، تھوڑا بہت رہتا ہے وہ بھی بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے اور وہ کام کا بھی نہیں رہتا، کیوں کہ اس کے اندر پاور نہیں رہتا، پاور پاور ہاؤس کے پاس رہتا ہے ، بڑی مشین اسی سے چلتی ہے ، چھوٹی مشینیں اس سے چل جاتی ہیں، تھوڑے وقت کے لیے، اس کے لیے کنکشن چاہیے تو ایک کام تو مدارس کا پاور ہاؤس کا ہے، تو اب خود دیکھ لیناچاہیے کہ ہمارا تعلق قرآن وحدیث سے کیسا ہے؟ اگر قوی ہے تو سمجھ لیں نفع ہے، ہمارے اندر۔ ہم پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں او رجب نفع نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ قلم جہاں لگاتے ہیں قلم دل کے پاس لگا ہوتا ہے، لیکن یہ کہ قلم دل کے پاس اس وقت تک رہتا ہے جب تک چل رہا ہے اور نفع باقی ہے اس کا، نفع اگر ختم ہو جائے قلم کا، تو نکال کے باہر پھینک دیا جاتا ہے، اس لیے کہ لکھنے کی اس کے اندر صلاحیت نہیں رہی، ایسے ہی مدارس کا معاملہ بھی ہے کہ آپ کیا دے رہے ہیں امّت کو؟ قرآن اور حدیث سے لیا کیا اور امّت کو دیا کیا؟ یہ ضروری ہے۔

مدارس شفا خانے ہیں
نمبر دو یہ مدارس شفا خانے بھی ہیں، تاکہ مریض آکر یہاں اپنا علاج کراسکے، یہاں ہر طرح کی دوا ملتی ہے ، یہاں ہر طرح کا آپریشن ہوتا ہے، یہاں بڑے بڑے کیس آتے ہیں مریض کے اور مریض شفا پاکے چلے جاتے ہیں، تو اگر آپ کے پاس دوائیں ہیں اور نسخے ہیں تو ظاہر ہے اس کا تعلق بھی اسی سے ہے ، قرآن وحدیث سے ، یعنی قرآن مجید وحدیث سے ایسا تعلق ہے کہ آپ اس سے علاج کر سکیں، بتا سکیں مسئلہ کا حل یہ ہے اور اس کو بھی قرآن وحدیث میں ڈھونڈ سکیں، جس جگہ یہ مسئلہ آتا ہو کہ قرآن وحدیث سے مسئلہ پیش کرو، تو اس کے لیے ہے قرآن مجید میں ﴿ إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ﴾․(سورہ محمد، آیت:7) مدد خدا کی کرو، مدد وہ تمہاری کرے گا، اس کی مدد کا مطلب کیا آپ جانتے ہیں؟ یعنی اس کے دین کی مدد کرو، الله تم پر احسان اس وقت کرے گا جب تم اس کی مخلوق پر احسان کرو گے اور تم مخلوق پر کیسے احسان کرو گے؟ یہ ذرا لمبی بات ہے، وقت کم ہے ، آپ ماشاء الله پڑھے لکھے حضرات ہیں، تو آپ سمجھ لیں کہ کیسے احسان کرنا ہے مخلوق پراور مخلوقات میں کتنی قسمیں ہیں جو آپ کا احسان چاہتی ہیں، ان سب پر احسان کرو تو الله کا احسان آپ پر ہو گا اور ان حالات سے بچائے جاؤ گے ، تو گویا کہ نسخے آپ کے پاس ہوں، جو مریض آئے، لگا دیجیے اس کو ، کہ یہ آپ استعمال کریں ۔یہ آپ استعمال کریں۔ تو یہ شفاخانے ہوں، کچھ دن رکھ لیا جائے، یہاں پر جس کو کہا جاتا ہے، ہر کم درکانِ نمک رفت نمک شد، تو اب یہاں کوئی آجائے تو شفا پاکر ہی نکلے گا، تو مدرسے جو ہیں وہ شفاخانے بھی ہیں۔

سابقہ کتب تھیں اور قرآن ہے
اب آپ سمجھ لیجیے، جیسے میں کہا کرتا ہوں، بہت سارے غیر مسلمین میں کہ تورات ، انجیل، زبور یہ تو قرآن میں ہیں اور وید اور گیتا یہ بھی ہیں اور اس کے اندر ایسی چیزیں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی کتابیں ہیں یہ، بلکہ اس وقت تورات او رانجیل سے زیادہ توحید وید میں ہے، یہ عجیب بات ہے، توحید جتنی وید اور گیتا میں ہے، اتنی انجیل اور تورات میں نہیں ہے اور قرآن کے برابر بالکل تو نہیں کہہ سکتے، لیکن قریب قریب دونوں میں کھلی ہوئی توحید ملتی ہے، لیکن یہ کتابیں تھیں اور قرآن ہے، یہ فرق ہے، یہ تھیں، قرآن ہے، تو ایسے کہیں ہمارے ساتھ نہ ہو جائے، کہ ”تھے اور ہیں۔“ نہیں ہونا چاہیے، ایک شفاخانہ ہونا چاہیے۔

مدارس اسلام کے قلعے ہیں
نمبر تین یہ کہ یہ قلعے ہیں، پناگاہیں ہیں، کوئی دشمن کسی کو بھگا رہا ہو اور وہ مدرسوں میں آجائے گاتو محفوظ ہو جائے گا، یہ نہیں کہ مدرسوں میں آکر اور نظروں میں چڑھ جائیں کہ یہ گڑ بڑ ہے، یہ دہشت گرد ہے، یہ فلاں ہے۔ ایسا نہیں ہے پناہ گاہ پہنچ جانے کے بعد، ہے کسی کی ہمت کہ کوئی ہاتھ ڈال سکے اور کوئی گزند پہنچا سکے، اس لیے کہ اس کا تعلق کس سے ہے :﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾․(الحجر:9) سے ہے، کہ ہم نے الذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں تو گویا کہ ہمارا تعلق الذکر سے ہے تو الذکر کی حفاظت کا مطلب کیا ہوا؟ جو چیزیں الذکر سے وابستہ ہیں ان کی بھی حفاظت کی جائے، قرآن اعلان کررہا ہے، بڑے زور سے کر رہا ہے اور اس کا مشاہدہ کرارہا ہے تو ایک مشاہدہ تو یہ ہے ہی، ہر آدمی جانتا ہے کتنے حافظ ہیں، ہے کوئی جو قرآن کے سوا حافظ ہو جائے اور اس کو یا دکرلے؟ ابھی ایک سکھ صاحب ملنے آئے ہم سے، تو ہم نے کہا کہ آپ کے دھرم کا کوئی حافظ ہے؟ ندوہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ۔ تو میں نے کہا ندوہ میں ماشاء الله ہزار حافظ ہوں گے ہی اور پورے ہندوستان میں پچاس لاکھ حافظ ہوں گے، چونک گئے، تو ہم نے کہا کہ کسی کی مجال ہے کہ قرآن مجید میں گھٹا بڑھا سکے، کرہی نہیں سکتے، حفاظت کا الله تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا۔ یہ بھی عجیب ہی ہے کہ علماء سے بھی حفاظت ہو گی، گویا کہ آپ اور ہم وابستہ ہو گئے ان علوم سے اور قرآن وحدیث سے تو ہم محفوظ ہیں۔

قرآن والے کی بھی حفاظت الله کے ذمہ ہے
جس کی آخری مثال حضرت شیخ عز الدین بن عبدالسلام ہیں ان کے بارے میں شاید آپ نے کچھ پڑھا ہو، شیخ عز الدین بن عبدالسلام جب مصر تشریف لے جارہے تھے، شام سے نکلے، راستہ میں ایک شہر پڑا تو پورا شہر استقبال کے لیے نکل آیا اور انہوں نے کہا ہمارے یہاں چلیے، ہم سب آپ کو بٹھاتے ہیں، کہا کہ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے، لیکن میرا علم بہت زیادہ ہے، میرا علم تمہارے شہر کا تحمل نہیں کر سکتا، مصر گئے، وہاں کے بادشاہوں نے استقبال کیا، شیخ الاسلام بنایا، شیخ الاسلام بنتے ہی انہوں نے فتوے جاری کیے اور کہا بادشاہ کی حکومت ناجائز ہے، لمباقصہ ہے، وقت نہیں ہے، آخر جو قصہ ہے ان کا وہ یہ ہے کہ سارا مصر خلاف ہو گیا، سارے بادشاہ ، وزراء اور سب نے کہا اس مولوی کو نکالو۔ یہی بہت گڑ بڑ ہے، وہ روز بیٹھے بیٹھے یہی سب کرتا رہے گا تو سب نے طے کر لیا کہ ان کی چھٹی کرنی ہے، سب آگئے، ان کے گھر پر، تلواریں وغیرہ لے کر اور سارے جمع ہوگئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، شیخ کے بیٹے باہر نکلے اورجب نکل کر دیکھا تو اس کو اندازہ ہو گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے، تو بیٹے نے جاکر اندر کہا ابا با!باہر معاملہ گڑ بڑ ہے۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے سے بڑے اطمینان سے کہا تمہاے ابا کے حق میں شہادت کہاں لکھی ہے ؟ یہ ہے محفوظ ہونا۔ تمہارے ابا کے حق میں شہادت کہاں لکھی ہے ؟ بس یہ کہہ کر باہر نکلے اور یوں کہا: بھائی کیسے آئے؟ سب کی تلواریں نیچے گر گئیں اور کہنے لگے حضورکہیے کیا چاہتے ہیں؟ کہنے لگے میں تم سب کو بیچونگالے جاکر نخاس میں اور پھرنخاس میں بیچا، بیچنے کے بعد بادشاہ بنایا، میں سمجھتا ہوں پور ی انسانی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا، یہ تجربہ نہیں ہے، لیکن یہ جو میں نے کہا ہے ، اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ یہ ہیں، یاتھے، یا کیا ہیں؟ آج بھی اگر وہ مقام پیدا ہو جائے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا، لیکن اب چوں کہ پہلا ہی مسئلہ نہیں رہ گیا کہ قرآن وحدیث سے ہمارا تعلق ہو جائے اور اس سے ہم لیں، لیکن ہم تو اپنے ہی کو کھوئے ہوئے بیٹھے ہیں ،ہم کیا کام انجام دیں، بس میرے بھائیو اور دوستو! مختصر سا وقت ہے اور یہ مختصر سی بات ہے، لیکن اپنے کو سمجھو، پہلے ہم کیا تھے اور کیاہوگئے؟ ہم کو کیا کرنا تھا اور کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا کرنا چاہیے؟ الله تعالیٰ ہم سب کی مدد فرمائے۔

Flag Counter