Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 16
نافرمان بیٹے کا حالت نزع میں کلمہ نہ پڑھنا

تحقیق: مولوی سرفراز خان لوخاڑی
متخصص فی علوم الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی

مختلف ادوار میں گونا گوں مقاصد کے تحت ایسی روایتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں ، جن کی کوئی اصل نہیں تھی، کبھی دشمنان دین اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت ، رعب ودبدبہ، قوت وسیادت کو دیکھ کر، ایسے ہی اپنے نبی صلى الله عليه وسلم سے غیر معمولی تعلق ، محبت کو جان کر دلی کینہ و بغض کا اظہار کرنے کے لیے بے سروپاباتیں مشہور کرنے لگتے ، کبھی کوئی دل دردمندر کھنے والا سادہ لوح لوگوں کی بے رغبتی اور سستی کو محسوس کرکے اپنی طرف سے ترغیب وترہیب کے جملے حدیث نبوی کہہ کر بیان کرتا، یہ خیال کرکے کہ وہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دے رہا ہے، اس طرح دوسرے لوگ ان کی دین داری ، وضع قطع سے متاثر ہو، کر اُن کے اعتماد پر وہ روایتیں بیان کرنے لگ جاتے، کبھی کسی صحیح روایت کا حلیہ بگاڑ کر ایک نئی خود ساختہ روایت کی شکل میں بدل جاتا، کبھی کسی کا کلام کسی اور کی طرف منسوب ہو جاتا، اس طرح کی اور بھی شکلیں ، صورتیں تھیں جن کے لبادے میں موضوعات ومن گھڑت روایات کا سلسلہ چل رہا تھا ، مگر امت مسلمہ اس امتحان، آزمائش میں ناکام نہ ہوئی، بنی اسرائیل کی طرح وہ باتیں دین کا حصہ قرار دے کر مطمئن نہ ہوئی، بلکہ ایک ایک کرکے وضاع وکذاب لوگوں کا پتہ لگوایا، ان کی روایات کو نشان زد کیا، دشمنوں کو وہ کیا موقع دیتے جنہوں نے اپنوں کو بھی معاف نہ کیا؟ ان کی معمولی معمولی غلطی، کوتاہی بشری لغزشوں کو چلتا کرنے نہیں دیا، کیوں کہ معاملہ بڑا سنگین تھا، ذمہ داری بہت بڑی تھی ، نبوی تاکید بڑی سخت تھی۔

چناں چہ ایک قصہ زبان زد عوام وخواص ہے، جس میں دور رسالت میں ایک نوجوان کی حالت نزع کا ذکر ہے، والدہ کی نافرمانی کی وجہ سے وہ کلمہ کی تلقین کا جواب نہیں دے رہا تھا، آپ صلى الله عليه وسلم کو خبر دی گئی ، والدہ کو کہلوا بھیجا، جب والدہ نے رضا کا اظہار کیا تو نوجوان نے آپ صلى الله عليه وسلم کی تلقین کا جواب د یا، اس پر آپ صلى الله عليه وسلم نے بڑی خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا، اس قصہ کو مختلف طرز وانداز سے بیان کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ حسب عادت حاشیے بھی لگائے جاتے ہیں۔

یہ قصہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، اس کی روایت مختلف کتابوں میں موجود ہے، امام بیہقی رحمہ الله تعالی نے سند کے ساتھ اپنی کتاب ” شعب الایمان“ میں اس کی روایت ذکر کی ہے ، موصوف بیان کرتے ہیں۔

ترجمہ: امام بیہقی فرماتے ہیں ،ہم سے ابو عمر محمد بن عبدالواحد نے، جو صاحب ثعلب سے مشہور ہیں ۔ بغداد میں روایت بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسی بن سہل الموسی نے روایت بیان کی ، انہیں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے یہ روایت بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہم سے فائد بن عبدالرحمن نے روایت بیان کی، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبدالله بن اوفی کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کیا: اے الله کے رسول ! یہاں ایک نوجوان قریب المرگ ہے، اس کو کلمہ ”لا الہ الا الله“ کہنے کی تلقین کی جاتی ہے، لیکن وہ کہہ نہیں سکتا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا وہ اپنی زندگی میں یہ کلمہ پڑھتا نہیں تھا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تو پڑھتا تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ( جب وہ زندگی میں پڑھتا تھا) تو موت کے وقت کس چیز نے اس کو کلمہ پڑھنے سے روک دیا ہے؟

راوی کہتے ہیں کہ ( یہ سن کر) آپ صلى الله عليه وسلم اٹھے، ہم بھی ساتھ ہو گئے ، یہاں تک کہ آپ صلى الله عليه وسلم اس نوجوان کے پاس تشریف لائے، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے نوجوان! کلمہ” لا إلہ إلا الله“ پڑھ لے۔اس نے جواب دیا کہ میں کہنے پر قادر نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے پوچھا: کیوں قادر نہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ اپنی ماں کی نافرمانی کی وجہ سے۔

آپ صلى الله عليه وسلم نے دریافت فرمایا کہ آپ کی ماں بقیدِ حیات ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا کہ ان کی طرف کہلا بھیجو (تاکہ وہ آجائے)، لوگوں نے ان کو بلا بھیجا، اس کی والدہ آگئی، آپ صلى الله عليه وسلم نے اس سے پوچھا: یہ تیرا بیٹا ہے؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں۔

آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: آپ بتا دیجیے، اگر آگ جلا کر بھڑکا دی جائے، پھر آپ سے کہا جائے کہ اگر آپ اپنے بیٹے کے لیے سفارش نہیں کریں گی تو ہم اس کو آگ میں ڈال دیں؟ ماں نے کہا کہ اس وقت میں ضرور سفارش کروں گی، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ کو گواہ بنائیں اور ہم سب کو بھی کہ آپ اس سے راضی ہو گئی ہیں؟ اس نے کہا کہ میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں۔

آپ صلى الله عليه وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا: اے نوجوان! کلمہ” لا إلہ إلا الله“ پڑھ لے، اس نے کلمہ پڑھ لیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں اس پاک ذات کے لیے ہیں جس نے اس نوجوان کو آگ سے بچا لیا۔

حدیث کی تخریج مصادر ومراجع سے
یہ روایت ”زوائد مسند احمد بن حنبل“ میں اختصار کے ساتھ مذکور ہے، جس کی تفصیل آرہی ہے، اسی طرح حافظ عقیلی رحمہ الله تعالیٰ نے ”کتاب الضعفاء الکبیر“ میں ،علامہ ابوبکر احمد دینوری المالکی نے ”المجالسة وجواہر العلم“ میں، محدث بیہقی نے ” شعب الایمان“ اور ”دلائل النبوة“ میں، مْورخ ابن عساکر دمشقی نے ” تاریخ دمشق“ میں، مْورخ قزوینی نے ” التدوین فی أخبار قزوین“ میں ،خرائطی نے ” مساوی الاخلاق“ میں اور علامہ ابن جوزی نے” کتاب الموضوعات“ میں، حافظ منذری نے ” الترغیب والترہیب“ میں حافظ ہیثمی نے ” مجمع الزوائد“ میں، محدث علامہ البوصیری نے ”اتحاف الخیرة المہرة“ میں اس کی تخریج کی ہے، بعد کے مؤلفین نے انہی حضرات کے اعتماد پر بلاسند اس روایت کواپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔

روایت پر ائمہ حدیث کا کلام
امام بیہقی رحمہ الله تعالی کا کلام:
امام بیہقی رحمہ الله تعالی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : تفرد بہ فائد ابو الورقاء، ولیس بالقوی․

اس روایت کو بیان کرنے میں فائد ابو الورقاء راوی متفرد ہے اور وہ ”لیس بالقوی“ (کلمہ جرح) ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالی کی رائے:
امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالی کے فرزند عبدالله رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں: وکان فی کتاب ابي… فلم یحدث أبي بھذین الحدیثین، ضرب علیھما من کتابہ؛ لأنہ لم یرض حدیث فائد بن عبدالرحمن، کان عندہ متروک الحدیث․

یہ روایت او رایک دوسری روایت میرے والد کی کتاب میں موجود تھی… لیکن میرے والد صاحب نے یہ دونوں روایتیں بیان نہیں کیں، بلکہ ان کو اپنی کتاب میں نشان لگا کر قلم زد کر دیا تھا، کیوں کہ میرے والد فائد بن عبدالرحمن (جو دونوں روایتوں کا راوی ہے) کی حدیث کو قبول نہیں کرتے تھے، وجہ یہ تھی کہ یہ ان کے نزدیک ”متروک الحدیث“ (شدید جرح کا کلمہ) راوی تھا۔

امام ابن جوزی رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:
حافظ ابو الفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی المتوفی597ھ نے بھی عقیلی کے طریق سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

ھذا حدیث لا یصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفی طریقہ فائد، قال أحمد بن حنبل: متروک ، وقال یحیی: لیس بشیء، وقال ابن حبان: لا یجوز الاحتجاج بہ، وقال العقیلی: لا یتابعہ علی ھذا الحدیث إلا من ھو مثلہ․

یہ حدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہیں، اس کی سند میں فائد بن عبدالرحمن بھی ہے، جس کے بارے میں امام احمد بن حنبل  فرماتے ہیں کہ وہ ”متروک الحدیث“ ہے اور یحییٰ  فرماتے ہیں کہ:”لیس بشيء“ (کلمہٴ جرح) ہے اور امام ابن حبان  فرماتے ہیں اس سے استدلال کرنا درست نہیں اور امام عقیلی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ ان کی متابعت کرنے والا اس جیسا کوئی کمزور راوی ہی ہو گا (یعنی کوئی قابل اعتماد متابع تک موجود نہیں)۔

حافظ ذہبی رحمہ الله تعالی کا کلام:
حافظ شمس الدین محمد بن احمد الذہبی المتوفی748ھ نے”تلخیص کتاب الموضوعات“ میں اس روایت کے موضوع ہونے میں ابن جوزی کی تقریر وتصدیق ان الفاظ سے کی ہے۔

رواہ داود بن إبراھیم ۔ کذاب۔ ثنا جعفر بن سلیمان،ثنا فائد العطار عن ابن أبی أوفي․

داود بن ابراہیم نے اس کو روایت کیا ہے۔ جو کذاب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم سے جعفر بن سلیمان نے روایت بیان کی، اس نے کہا کہ ہم سے فائد العطار نے روایت بیان کی، انہوں نے حضرت ابن ابی اوفی رضی الله تعالیٰ عنہ ( کی طرف منسوب کرکے) روایت بیان کی ۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  کا کلام:
حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:”ومن مصائب داود بن إبراہیم․ (شدید جرح کلمہ) داودبن ابراہیم نامی کمزور راوی نے یہ مصیبت کھڑی کی ہے۔

حافظ عقیلی  کا کلام:
حافظ عقیلی رحمہ الله تعالیٰ نے یہ روایت فائد بن عبدالرحمن کے ترجمہ میں نقل کی ہے، ان کے متعلق محدثین کے اقوال کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

امام احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فائد بن عبدالرحمن ”متروک الحدیث“ ( شدید جرح کا کلمہ) ہے، امام یحییٰ رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں : ”لیس بشيء“ (کلمہ جرح ) ہے ، امام ابن حبان رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں: اس کی روایت سے استدلال کرنا جائز نہیں۔

فائد کی یہ روایت نقل کر لینے کے بعد لکھتے ہیں : ”لا یتابعہ علی ہذا الحدیث إلا من ھو مثلہ“․

کہ ان کی متابعت کرنے والا اس جیسا کوئی کمزور راوی ہی ہو گا (یعنی کوئی قابل اعتماد متابع تک موجود نہیں)۔

عقیلی رحمہ الله تعالیٰ کا یہ کہنا کہ فائد عطار کی طرح کا کوئی دوسرا راوی ہی اس کی متابعت کرے گا، اس کا بے تکلف مطلب یہی ہے کہ امام عقیلی رحمہ الله تعالیٰ کے نزدیک فائد بن عبدالرحمن العطار اس روایت کو نقل کرنے میں اکیلے ہیں ، حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ سے کسی اور نے یہ حدیث نقل نہیں کی ہے، بلکہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بھی یہ روایت موصوف کی سند کے علاوہ منقول نہیں ۔ اب اس میں دو احتمال ہیں، ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہ کلمہٴ جرح ہو کہ اس کی متابعت اس جیسا کمزور راوی ہی کرتا ہے ، بظاہر یہی مراد ہے، حافظ سیوطی رحمہ ا لله تعالیٰ نے بھی حافظ عقیلی کا قول ذکرکرتے ہوئے یہی مراد لی ہے، چناں چہ لکھتے ہیں:”فائد متروک، قال العقیلی: ولا یتابع علیہ“․

فائد راوی ”متروک“(شدید جرح کا کلمہ) ہے، حافظ عقیلی رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی متابعت نہیں کی جاتی ہے۔

دوسراا حتمال یہ ہے، اس جیسے کمزورراوی نے اس کی متابعت کی ہے، چناں چہ تلاش بسیار سے ایک کمزور بلا سند روایت ملی ہے ، جس کو فقیہ ابو اللیث سمر قندی المتوفی383ھ رحمہ الله تعالیٰ نے ”تنبیہ الغافلین“ میں ابان عن انس کی طریق سے ذکر کیا ہے، لیکن اس سے ماقبلسند موجود نہیں ، باقی ابان سے مرا دابان بن ابی عیاش فیروز، العبدی البصری ہے، جو ” متروک“ ہے اور بعض کے نزدیک کذاب ہے۔

اگر دوسرا احتمال مراد لیا جائے، تو پھر حافظ عقیلی  کا کلام امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ کے کلام کے بظاہر معارض ہو گا، کیوں کہ امام بیہقی  فرماتے ہیں: ”تفرد بہ فائد أبو الورقاء“، جیسا کہ گزر گیا ( فائد أبو الورقاء اس کو روایت کرنے میں متفرد ہے)، اس کی توجیہ یوں ہو سکتی ہے کہ امام بیہقی  کی مراد یہ ہو کہ اس کی کوئی ایسی متابع روایت نہیں ہے، جس کا اعتبار کیا جاسکے، اگر کوئی غیر معتبر روایت ہو تو یہ اس کا منافی نہ ہو گا، جیسا کہ یہاں پر ایک شاہد ملا ہے۔

متابع روایت میں ابان بن ابی عیاش فیروز، العبدی البصری کے متعلق محدثین کے اقوال:
تنبیہ الغافلین میں متابع روایت، جو حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے، اس میں ان سے روایت کرنے والا ابان بن ابی عیاش ہے، جس کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:

امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:
حافظ ذہبی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں:”قال أحمد: متروک“

حافظ خطیب بغدادی رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:
حافظ ابوبکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی المتوفی463ھ رحمہ الله تعالیٰ لکھتے ہیں:”أبان أبی عیاش رمي بالکذب“․

أبان بن أبی عیاش متہم بالکذب ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالی کا کلام:
حافظ ابن حجر عسقلانی المتوفی852ھ رحمہ الله تعالیٰ رقم طراز ہیں:
”متروک“․(شدید جرح کا کلمہ)

علامہ ابن عراق المتوفی963ھ کا تعاقب او را س کا جواب:
علامہ علی بن محمد بن عراق الکنانی المتوفی963ھ رحمہ الله تعالی نے عقیلی کے طریق سے روایت نقل کرکے ان الفاظ میں حافظ سیوطی رحمہ الله تعالیٰ کے تعاقب کا خلاصہ ذکر کیا ہے۔

”ولا یصح، فیہ داود بن إبراہیم قاضی قزوین، وفیہ حامد العطار متروک (العقب) بأن داود تابعہ فضیل بن عبدالوہاب، أخرجہ الخرائطی فی ” مساوی الأخلاق“، وحامد تابعہ فائد أبو الورقاء، أخرجہ الطبرانی والبیہقی فی ” الشعب“، وقال: نفرد بہ فائد، ولیس بالقوی․“

عقیلی کا یہ قول نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اس سند میں ایک راوی داودبن ابراہیم قاضی قزوین اور دوسرا راوی حامد العطار ہے، ابن عراق اس کا تعاقب کرکے فرماتے ہیں کہ فضیل بن عبدالوہاب نے داود بن ابراہیم کی متابعت کی ہے، جس کو خرائطی نے ” مساوی الأخلاق“ میں نقل کیا ہے اور حامد العطار کی متابعت أبو الورقاء نے کی ہے، جس کو طبرانی نے او ربیہقی نے ”شعب الإیمان“ میں نقل کیا ہے اور امام بیہقی نے فرمایا کہ فائد اس میں متفرد ہے اور ثقہ نہیں۔

ابن عراق  کا یہ فرمانا کہ عقیلی کی سند میں ایک راوی حامد العطار ہے ، درست نہیں۔ کیوں کہ عقیلی کی کتاب ” کتاب الضعفاء الکبیر“ میں اس روایت کی سند میں اس نام کا کوئی راوی نہیں ہے ، بلکہ اس کی جگہ پر فائد العطار ہے ، اس میں تصحیف واقع ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ابن عراق رحمہ الله تعالی کے پاس ”کتاب الضعفاء الکبیر“ کا ایسا نسخہ ہو جس میں فائد العطار کی جگہ پر حامد العطار لکھا ہو اور انہوں نے اس سے نقل کیا ہو، جو بھی صورت ہو، بہرحال اس نام میں تصحیف واقع ہوئی ہے، اب ابن عراق رحمہ الله تعالی کا یہ کہنا کہ حامد العطار کی متابعت فائد أبوالو رقاء نے کی ہے، درست نہ ہو گا، کیوں کہ سند میں حامد العطار کوئی راوی نہیں ، جس کی متابعت فائدالعطار نے کی ہو ، بلکہ اسی سند میں اور جس طریق کا ابن عراق رحمہ الله تعالیٰ حوالہ دے رہے ہیں دونوں میں فائد العطار ہے ، لہٰذا یہ وہی طریق ہوا ، کوئی دوسرا طریق شمار نہ ہو گا۔

سند کے متکلم فیہ راویوں پر کلام:
اس روایت کی سند میں دو راوی متکلم فیہ ہیں ،ایک داود بن ابراہیم، قاضی قزوین اور دوسرا فائد بن عبدالرحمن العطار،، أبوالورقاء، داود بن ابراہیم کذاب اور فائد بن عبدالرحمن متروک ہیں، ترتیب سے دونوں راویوں کے متعلق محدثین کا کلام ذکر کیا جائے گا۔

داود بن ابراہیم قاضی قزوین کے متعلق ائمہٴ حدیث کے اقوال:
امام بیہقی اور امام احمد بن حنبل رحمہما الله تعالی کے علاوہ امام ابن جوزی اور حافظ عقیلی رحمہما الله تعالیٰ سے، جس سند کے ساتھ یہ روایت مروی ہے، اس میں ایک دوسرا راوی داود بن ابراہیم ہے، جو قزوین کا قاضی تھا ،اس کے بارے میں محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

ابو حاتم رازی رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:
امام ابن جوزی رحمہ الله تعالی، ابو حاتم رازی کا قول ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:”وفی اسنادہ داود بن إبراہیم، قال أبو حاتم الرازی: کان یکذب․“

اس روایت کی سند میں ایک راوی داود بن ابراہیم بھی ہے ، ابو حاتم رازی نے فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔

حافظ ذہبی رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:
رواہ داود بن إبراہیم۔ کذاب․
اس روایت کو داود بن إبراہیم نے روایت کیا ہے، وہ کذاب ہے۔

حافظ سیوطی  کا کلام: داود کذاب۔داود کذاب ہے۔

ان کے علاوہ حافظ عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی المتوفی327ھ رحمہ الله تعالی نے ” الجرح والتعدیل“ میں اور حافظ شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی المتوفی348ھ رحمہ الله تعالیٰ نے ”المغنی فی الضعفاء“ میں اور حافظ احمد بن حجر العسقلانی المتوفی852ھ،علامہ سیوطی رحمہ الله تعالی نے ”اللآلی المصنوعة“ ،امام خرائطی رحمہ الله تعالیٰ کی کتاب ”مساوی الأخلاق“ اور امام طبرانی سے روایت کو سند کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ اس راوی یعنی داود بن ابراہیم کے کذاب ہونے سے اس روایت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ فضیل بن عبدالوہاب نے اس کی متابعت کی ہے ، جیسا کہ گزر گیا، لیکن ان تمام طرق کا مدار فائد بن عبدالرحمن العطار کوفی أبو الورقاء پر ہے، جو ”منکر الحدیث“ اور ”متروک“ ہے۔ (جاری)

Flag Counter