نام جہاں لیا جائے گا وہاں اﷲ موجود ہے، یعنی ان کے اسم میں اور مسمیٰ میں فاصلہ نہیں ہے، جس نے اللہ کا نام لیا اس کو اسی وقت اللہ ملا، لہٰذا مولانا رومی نے فرمایا اﷲ کا جو عاشق اللہ کا نام لیتا ہے اس کواسی وقت اﷲ مل جاتاہے۔ جب ابّا کا نام لے کر تمہیں رونا آتا ہے تو ربّا کا نام لے کر آنسو کیوں نہیں بہاتے ہو؟ جس نے ہم کو پالا ہے اور کس عظیم الشان انتظام سے پالا ہے کہ زمین و آسمان،سمندر و پہاڑ،سورج و چاند کو ہماری پرورش میں لگادیا،سارے عالم کا نظامِ فلکیات اور نظامِ ارضیات ہماری پرورش میں لگا ہواہے، چاند سے سمندر کی لہروں کو کنٹرول کیا، سورج کے ذریعے سمندر سے بادل اُٹھائے جن سے بارش ہوئی، بارش سے غلہ پیدا ہوا، چوپایوں کو ہل میں جوتا، پھر سورج سے غلہ پکایا۔ تو اﷲ نے سارا عالم ہماری پرورش میں لگایا ہے لیکن ہمیں اپنے لیے پیدا کیا۔ تو سوچئے! ہم کتنے اہم ہیں کہ اﷲ نے اتنا بڑا نظامِ عالم ہمارے لیے پیدا کیا تو چوں کہ اللہ خود اہم ہے اور ہم سب کو اس نے اپنے لیے پیدا کیا تو جس کو اللہ نے اپنے لیے پیدا کیا وہ بھی قیمتی ہوا۔ خوا جہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاشعر ہے ؎
ناچیز ہیں پھر بھی ہیں بڑی چیز مگر ہم
دیتے ہیں کسی ہستی مطلق کی خبر ہم
یعنی ہمارا وجود اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلیل ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر سن لو، میں نے قونیہ جاکر وہ جنگل دیکھا ہے جہاں مولانا اﷲ کی یاد میں آہ و فغاں کرتے تھے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایسی جگہ آہ و فغاں کرتا ہوں، اﷲ کا نام لیتا ہوں جہاں کوئی مخلوق نہیں ہوتی ؎
آہ را جز آسماں ہمدم نبود
راز را غیر خدا محرم نبود
میری آہ کا سوائے آسمان کے کوئی ساتھی نہیں ہوتا اور میری محبت کا بھید اور راز سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔آج بھی یہاں جنگل اور سمندر جیسی عظیم مخلوق ہمارے سامنے ہے۔ کوئی انسان دس کلو پانی بھی خلا میں نہیں لٹکا سکتا، لیکن اﷲ نے خلا میں کروڑوں من پانی رکھ دیا جس کے نیچے نہیں کوئی کالم، واہ رے میرے ربُّ العالَم!