توبہ کرلی، کسی شیخ سے مرید ہوگیا ، تو اب لڑکی سے معافی مانگنا واجب نہیں ہے بلکہ معافی نہ مانگنا واجب ہے کیوں کہ اس سے اس کو اذیت پہنچے گی، تکلیف ہوگی، شرم و حیا آئے گی اور مسلمان کو اذیت پہنچانا حرام ہے۔اگر یقین نہ آتا ہو اور اس بات کا تجربہ کرنا ہو تو ذرا مفعول سے معافی مانگ کر دیکھیے، ڈنڈا لے کر نہ دوڑا دے تو کہنا۔اور یہ عقل کے بھی خلاف ہے کہ وہی لڑکی جس سے نامناسب حرکت صادر ہوگئی،اس کے بچے بھی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، اب اس سے جاکر معافی مانگنے میں سخت فتنہ ہے۔یہ اسلام کے حقانی ہونے کی دلیل ہے ورنہ کوئی معمر خاتون سے کہے کہ جب ہم تم کلاس فیلو تھے تو آپ کے ساتھ مجھ سے کچھ گستاخی، کچھ نالائقی ، کچھ گناہ ہوگیا تھا، تو اس کو کتنی تکلیف ہوگی۔لہٰذا یہ اسلام کے حقانی ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کو اپنا حق رکھا ہے،بس اللہ سے معافی مانگ لو۔
ایسے ہی کسی لڑکے کے ساتھ بدفعلی ہوگئی ہو، وہ لڑکا بعد میں ڈاکٹر بن گیا، اب جاکر اس کے مریضوں کے سامنے کہہ رہا ہےکہ آپ کے ساتھ میں نے جو گناہ کیا تھا میں اس کی معافی مانگنے آیا ہوں، تو اسے کتنی شرمندگی ہوگی۔اللہ تعالیٰ پر قربان جائیے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں سے آپس میں شہوت کی بیماری جیسے افعال کی معافی مانگنا جائز ہی نہیں رکھا،بس اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو۔
شہوت کے گناہ کی معافی کا الہامی مضمون
مگر اس معافی میں یہ مضمون ہو کہ اے اللہ! میری شہوت سے جتنے گناہ ہوئے ہیں وہ سب معاف فرمادیجیے اور ان سے ہم کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی بھی کردیجیے، کیوں کہ عادت خراب ہونے سے بار بار گناہ کا تقاضا شدید ہوتا ہے۔ایک مرتبہ جس نے گناہ کیا ہے،ساری زندگی اس کو مجاہدہ کرناپڑے گا۔اور دوسری دعا یہ مانگو کہ جس کے ساتھ میں نے گناہ کیا ہے، اس کی جو عادت میں نے خراب کی ہے اس کا وبال بھی میرے سر نہ آئے ورنہ سیئہ جاریہ کا وبال بھی ہوگا۔ اگر کسی کے ساتھ گناہ کرلیا تو اس کا سکھایا ہوا یہ گناہ جب دوسرا کرے گا تو گناہ سکھانے والے کو بھی اس کا گناہ ملے گا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ ہمارے گناہوں کے نقصاناتِ لازمہ جو ہماری