تمہاری غیبت کررہا تھا تو پھر اب معافی مانگنا واجب ہوجائے گا کیوں کہ اسے اطلاع ہوگئی ہے۔ بتائیے!یہ مضمون ضروری ہے یا نہیں؟یہ بہت عظیم مضمون پیش کررہا ہوں، یہ ہم سب کی بگڑی بنانے کا مضمون ہے۔
حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس کی غیبت کی گئی جب تک اس کو اطلاع نہ ہو تو اس سے معافی مت مانگو۔ لیکن جس مجلس میں غیبت کی ہے اسی مجلس میں کہہ دو کہ بھائی ہم سے غلطی ہوگئی اور ہم نے اپنی نیکیاں ضایع کردیں۔کون ہے جو عیب دار نہ ہو؟ ہمارے اندر ہزاروں عیب ہیں مگر پھر بھی ہم نے بلاوجہ ایک مسلمان بھائی کی آبرو کو نقصان پہنچادیا ، ہم اس سے توبہ کرتے ہیں اور آپ سب بھی کچھ پڑھ کر بخش دیں کیوں کہ آپ بھی گناہ گار ہوگئے ہیں کیوں کہ آپ نے بھی غیبت سنی ہےلہٰذاا ٓپ سب بھی تین تین مرتبہ قُلْ ھُوَ اللہُ شریف پڑھ کر بخشیں۔
مالی حق محض استغفار کرنے سے معاف نہیں ہوگا
اگر کسی کا مالی حق مارا ہے تو وہ حق دینا پڑے گا، مثلاً کسی کی گھڑی چرالی تو وہ گھڑی واپس کرنی پڑے گی، صرف پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنے سے مالی حق معاف نہیں ہوگا۔جس کی گھڑی چرائی تھی اگر وہ مر گیا تو اس کی اولاد کو پیسے دینے پڑیں گے،اس کے وارثین کو دینے پڑیں گے۔ لیکن اگر چرانے والا غربت کی مجبوری سے نہیں دے سکا تو ثواب بخشنے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن راضی نامہ کرادیں گے، لیکن اگر وہ مال دار ہے پھر بھی کنجوسی کی وجہ سے ادا نہیں کررہا ہے تو پھر مال ہر صورت میں دینا پڑے گا محض پڑھ کر بخشنے سے یہ گناہ معاف نہیں ہوگا۔
شہوت کے گناہوں کی بندوں سے معافی مانگنا ضروری نہیں
بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جن میں صاحبِ حق سے معافی مانگنا واجب نہیں ہے بلکہ معافی نہ مانگنا واجب ہے۔ جیسے فرسٹ ایئر میں لڑکے کا کسی لڑکی سے غلط معاملہ، نامناسب، غیر شریفانہ، بے حیائی کا کوئی کام ہوگیا ، یوں سمجھیے کہ زنا ہوگیا، اس کے بعد وہ اللہ والا بن گیا،