ہوگئی، وہ صاحب ایسے نہیں ہیں،اور اسے کچھ پڑھ کر بخش دیں،تین مرتبہ قُلْ ھُوَ اللہُ یا کچھ اور پڑھ کر ایصالِ ثواب کردیں۔
غیبت پر معافی مانگنا اس وقت واجب ہے جب اس شخص کو غیبت کی اطلاع ہوجائے،مثلاً کراچی والا لاہور والے کی غیبت کررہا ہے مگر اس کو خبر نہیں ہے تو لاہور والے سے معافی مانگنا واجب نہیں ہے کیوں کہ ابھی اس کو اطلاع نہیں ہوئی لہٰذا اذیت نہیں پہنچی۔ یہ تحقیق حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی ہے،اس کو کم لوگ جانتے ہیں۔ ورنہ بعض لوگ نادانی سے خط لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کی غیبت کی اس لیے معافی چاہتا ہوں۔ بلا وجہ اس کا دل خراب کیا اور اس کو اور غصہ آتا ہے کہ عجیب دوست ہے،تعلقات میں بھی بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جب تک جس کی غیبت کی ہے اس کو خبر نہ ہو اس سے معافی مانگنا واجب نہیں۔
غیبت کا کفارہ کیا ہے؟
جن لوگوں سے غیبت کی ہے ان لوگوں سے یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں بہت نالائق ہوں، مجھ سے کمینہ پن ہوگیا ہے،ان صاحب میں تو بہت سی خوبیاں ہیں، لہٰذا آپ لوگ بھی اس سے اپنا دل صاف کرلیں اور اس کو کچھ پڑھ کر بخش بھی دیں۔ میرا مشورہ ہے کہ روزانہ تین مرتبہ قُلْ ھُوَ اللہُ شریف پڑھ کر تمام امت کو بخش دو اور خدا سے یہ عرض کرو کہ اے اللہ! اگر ہم نے کسی کا حق مارا ہو، کسی کی غیبت کی ہو، کسی کو بُرا بھلا کہا ہو تو اس قُلْ ھُوَ اللہُ شریف پڑھنے کا ثواب قیامت کے دن اسے دے کر ہمارا راضی نامہ کرادیں۔
تو یہ اسلام کے برحق ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے کہ غیبت کی معافی مانگنا اس وقت واجب ہے کہ جس کی غیبت کی اس کو اطلاع ہوجائے لیکن اگر اسے خبر نہیں ہے تو جس مجلس میں غیبت کی وہیں کہہ دو کہ بھائی مجھ سے نالائقی ہوگئی اور میں توبہ کرتا ہوں،ان سے زیادہ تو ہم عیب دار ہیں، ایسا کون بندہ ہے جو بے عیب ہو۔ اور تین مرتبہ قُلْ ھُوَ اللہُ شریف پڑھ کر اسے بخش دو۔ اور اللہ سے دعا کرلو کہ اے اللہ! قیامت کے دن راضی نامہ کرادینا ۔ لیکن اگر اسے پتا چل گیا مثلاً کوئی آدمی یہاں سے لاہور گیا اور اسے بتادیا کہ کراچی میں فلاں شخص