غیبت اور بہتان میں فرق
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات میں ان کے منہ پر کہہ دوں، بالکل سچ کہہ رہا ہوں، میں قسم کھاسکتا ہوں کہ ان میں یہ عیب ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر سچ ہے جب ہی تو غیبت ہے، اگر اس میں یہ عیب نہ ہوتا تب تو بہتان ہوتا۔ غیبت اسی کا نام ہے کہ کسی میں سچا عیب ہو۔ اپنے مسلمان بھائی کے سچے عیب کا تذکرہ بھی مت کرو، خود اس مسلمان بھائی سے کہہ دو کہ آپ ایسا کام نہ کیا کریں۔
اللہ کے بندوں کو رُسوا کرنا حرام ہے
غیبت کے حرام ہونے کا حکم اللہ تعالیٰ کی شفقت، رحمت اور محبتِ عظمیٰ کا عکاس ہے۔ جیسے کسی کا بیٹا نمازی نہیں ہے اور ابا اس کے کان کھینچتا ہے ، گوشمالی کرتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے لیکن اگر لوگ جگہ جگہ بیٹھ کر آپس میں اس کے بیٹے کا تذکرہ کریں کہ فلاں کا بیٹا بے نماز ی ہے تو یہ بات باپ کو ناگوار گزرے گی۔ ہمارے گناہوں پر اللہ تعالیٰ کو تو حق حاصل ہے کہ چاہیں تو سزا دیں اور چاہیں تو معاف کردیں ، ہم ان کے غلام ہیں، یہ مالک و غلام کا معاملہ ہے لیکن غلاموں اور بندوں کو اللہ نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ آپس میں میرے بندے کی رُسوائی کا تذکرہ کریں۔
اپنے بندے کی بُرائی کا دوسرے بندوں سے تذکرہ کرنے کو پسند نہ کرنا دلیل ہے کہ ہمارے ربا کو ہم سے ابا سے بھی زیادہ محبت ہے۔ جیسے ابا نہیں چاہتا کہ کوئی میرے بچوں کی غیبت کرے ، خود چاہے ڈانٹ دے چاہے کان اینٹھ دے، مگر ابا کو پسند نہیں ہے کہ میرے بیٹے کے جگہ جگہ ریلوے اسٹیشنوں پر یا ہوٹلوں میں تذکرے ہورہے ہوں۔ تو ربا کو بھی یہ پسند نہیں ہے کہ میرے بندوں کی غیبت ہو۔
ماں باپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہاری شفقت اور رحمت متقاضی نہیں ہے کہ تمہارے بچوں کی ادھر ادھر بُرائی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت بھی پسند نہیں کرتی کہ میرے بندوں کے ادھر ادھر تذکرے ہوں۔ یہ غیبت کے حرام ہونے کی عظیم عظیم عظیم