دوزخ میں اللہ کے نور کا قدم آجائے گا، قدم سے مراد اﷲ تعالیٰ کی ایک خاص تجلی ہے، خاص الخاص نسبت مع اللہ ہے، تعلق مع اللہ کی دولت ہے کیوں کہ اللہ قدم سے پاک ہے لہٰذا نفس کو ایک ہزار گناہ کرادو، کوئی ایک لاکھ دفعہ گناہ کرلے اور پھر کوئی لڑکی سامنے آجائے تو نفس یہی کہے گا کہ اس کو بھی استعمال کرلو۔
حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا جملہ ہے کہ جن لوگوں نے گناہ کی عادت اپنا رکھی ہے اگر ان کو ساری دنیا کے حسین مل جائیں مگر ایک حسین رہ جائے اور اس کے کان میں کہا جائے بس یہی ایک باقی ہے تو نفس ایسا ظالم ہے کہ کہے گا کہ اس کو بھی لے آؤ۔ جو سالک گناہ کرکے اپنے نفس کے تقاضوں کو تسکین دیتا ہے وہ تھوڑی دیر کی تسکین ہوتی ہے، اس کے بعد اتنا شدید تقاضا ہوگا کہ اس کو برداشت بھی نہیں ہوسکے گا، رُسوائی سے الگ پالا پڑے گا لہٰذا گناہ کے تقاضوں کا علاج گناہ کرنا نہیں ہے، اس سے آگ اور بڑھتی چلی جائے گی، گناہ کے تقاضے اور قوی ہوں گے، خارش کا علاج کھجلانا نہیں ہے، شربت مصفّی خون پینا ہے، اسی طرح گناہ سے بچنے کے لیے اللہ کے خوف سے قلب کو قوی کرنا پڑے گا پھر ان شاء اللہ تعالیٰ کبھی گناہ کرنے کو دل نہیں چاہے گا، گناہ کے تقاضے کمزور ہوجائیں گے، تھوڑے تھوڑے تو آتے رہیں گے مگر توبہ و استغفار اور آہ و زاری سے وہ بھی معاف ہوجائیں گے۔
مرتے دم تک نفس پر بھروسہ نہ کریں
دیندار لوگوں سے کہتا ہوں کہ جو لوگ اپنے نفس سے مغلوب ہیں ان کی اصلاح اور تربیت کے لیے انہیں دین سمجھانے تو جاؤ لیکن ان کے پاس رات دن مت رہو ورنہ آپ پر بھی ان کا رنگ چڑھ سکتا ہے۔جیسے ایک بادشاہ نے کہا کہ میری بلّی بہت ہی تربیت یافتہ ہے، میں اس کی کھوپڑی پر چراغ جلاتا ہوں اور اس چراغ کی روشنی میں فرمانِ شاہی لکھتا ہوں، میری بلّی ایسی مہذب ہے کہ ذرا سر نہیں ہلاتی۔ ایک وزیر نے کہا کہ حضور! مجھے ایک موقع دیں کہ میں آپ کی بلّی کا امتحان لوں کہ اس کی تہذیب و تربیت کس مقام پر ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ ہاں امتحان لے لو۔ دوسرے دن وزیر ایک چوہا لایا اور بلّی کے سامنے چھوڑ دیا، اب بلّی نے جو چوہا دیکھا تو اس کی مونچھیں کھڑی ہوگئیں اور چوہے کے پیچھے دوڑپڑی بس پھر چراغ اُلٹ گیا، تیل