Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی عظیم الشان دولت

ہم نوٹ :

8 - 34
تو اشعار کا سننا ان چار شرطوں سے جائز ہے۔ علامہ شامی ابن عابدین نے فقہ شامی میں یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے خلافِ شرع سماع سے پناہ مانگی ہے بلکہ اپنے زمانے میں اسے ترک کردیا تھا کیوں کہ وہ شرائط پوری نہیں ہورہی تھیں تَرَکَ السَّمَاعَ بِزَمَانِہٖ اپنے زمانے میں انہو ں نے سماع ترک کردیاتھا۔
دنیائے  حسنِ مجاز سراسر فانی ہے
سماع کی ان شرائط میں سے ایک شرط ہے سامع اہل ہویٰ نہ باشد یعنی نفس کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ نہ ہو، اس کے دل میں کوئی مجازی معشوق نہ ہو ورنہ عشق اس کو بجائے اللہ کی طرف لے جانے کے مردار معشوق کے سامنے لے جائے گا۔ مردار اس لیے کہتا ہوں کہ سب مرنے والے ہیں، معشوق چاہے عورت ہو چاہے مرد ہو، سب کا آخری انجام قبرستان ہے۔ اگر دنیا کے یہ عشاق قبرستانوں میں جاکر اپنے معشوقوں کی قبر کھود کر دیکھ لیتے یہاں تک کہ مجنوں بھی لیلیٰ کی قبر کھود کر دیکھ لیتا تو سر پیٹ کر روتا اور کہتا کہ آہ! میں نے کس پر اپنی قیمتی زندگی غارت کردی جس کا آج یہ حشر ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی پیاری بات فرماتے تھے     ؎
بقول دُشمن پیمانِ دوست بشکستی
ببیں از  کہ بریدی و  با  کہ پیوستی
دُشمن یعنی نفس وشیطان کے کہنے پر اللہ تعالیٰ کے عہدو پیمان کو توڑ دیا، وفاداری ختم کردی اور مرنے والوں کے پیچھے پڑگئے   ،ذرا سوچو تو کہ کس سے جوڑا اور کس سے توڑا، اللہ سے رشتہ توڑ ا اور مرنے والوں سے جوڑا، خالق کو چھوڑ دیا اور عارضی مخلوق سے رشتہ جوڑ لیا۔ اس پر میرا ایک بہت پرانا اُردو کا شعر ہے      ؎
کسی خاکی پہ مت کر خاک  اپنی  زندگانی کو
جوانی کر فدا اُس پر کہ جس نے دی جوانی کو
جوانی کی عبادت کا اجر
یہ جتنے بھی حسین ہیں سب حسن کا ڈسٹمپر لگے ہوئے چلتے پھرتے بت ہیں،جو کچھ 
Flag Counter