Deobandi Books

نسبت مع اللہ کی عظیم الشان دولت

ہم نوٹ :

20 - 34
جھوٹ مت بولو، تمہارے سر سے پیر تک خوشبو آرہی ہے، اس نے عرض کیا کہ میں اللہ کے غضب اور قہر کے عمل سے بچنے کے لیے نجاست میں کود پڑا تھا، اس دن سے اللہ نے مجھے یہ مقام دیا ہے کہ میرے جسم میں یہ خوشبو پیدا کردی ہے۔ کوئی اللہ  پر مر کر تو دیکھے،اللہ تعالیٰ بے شمار حیات عطا فرماتے ہیں۔ 
انسانوں اور فرشتوں کی حضوری مع اللہ کا فرق
 اللہ تعالیٰ یہی تو چاہتے ہیں کہ بندوں کا دل شکستہ ہوجائے ورنہ صرف عبادت کے لیے تو فرشتے کافی تھے،وہاں ایسے مقدس فرشتے ہیں کہ ساری دنیا کی لیلائیں ان کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہوجائیں تو ان کو وسوسہ بھی نہیں آئے گا کہ ان سے کیا ہوتا ہے، ایسی مقدس مخلوق کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ نے ہم جیسی مخلوق پیدا فرمائی جس میں گناہوں کے تقاضے رکھے، گناہو ں کے اسباب رکھے، گناہوں سے کشمکش میں رکھنے کے لیے اس مخلوق کو پیدا کیا تاکہ یہ عبادات اور گناہوں سے اجتناب کے مثبت اور منفی تار سے عشق و محبت کا چراغ روشن کرے۔ فرشتوں کوقربِ عبادت تو حاصل ہے مگر انہیں قربِ ندامت کا ادراک نہیں ہے  کیوں کہ ان میں خطا کا مادّہ ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے خطا ہوسکے، جب خطا نہیں ہوگی تو ندامت کیا ہوگی۔ انسانوں میں جو اولیاء اللہ ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ قربِِ عبادت کے ساتھ قربِِ ندامت بھی عطا کرتا ہے۔ اس کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا      ؎
کبھی  طاعتوں  کا  سرور ہے کبھی اعترافِ قصور ہے
ہے مَلک کو جس کی نہیں خبر وہ حضور میرا حضور ہے
یعنی فرشتے بھی اولیاء اللہ کے حضور کو نہیں سمجھ سکتے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا کوئی ولی ان کا نام لیتا ہے، اللہ کا ذکر کرتا ہے  تو اس کے ذکر کی لذت فرشتوں کو ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے دال روٹی کھانے والا پلاؤ بریانی کی خوشبو اور لذت محسوس کرے، تو فرشتوں کو اولیاء اﷲ کے ذکر کے سامنے اپنا ذکر دال روٹی معلوم ہوتا ہے، ساری دنیا کے اولیاء اللہ کے ذکر کو وہ پلاؤ بریانی سمجھتے ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں اس کی دو وجہ بیان کرتے ہیں، نمبر ایک فرشتے اللہ کو دیکھ کر یاد کرتے ہیں، ان کو یہ 
Flag Counter