Deobandi Books

غم حسرت کی عظمت

ہم نوٹ :

28 - 34
خدمات کے لیے ہزاروں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہوتا ہے۔ اور خدا اپنے دین کے لیے کسے قبول کرتا ہے، خدا اپنی محبت کا غم کسے دیتا ہے ؟ حضرت سر مد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں  ؎
سرمدغمِ  عشق  بوا لہوس را  نہ  دہند
سوزِ غم   پروانہ   مگس   را    نہ    دہند
اے سر مد! خدا اپنی محبت کا غم دنیا کے ہوس پرستوں کو نہیں دیتا ، دنیا کے لالچیوں کو نہیں دیتا، جس طرح پروانے کا روشنی پر فدا ہونے کا جذبہ مکھیوں کو نہیں ملتا، اسی لیے مکھیوں کو پروانہ نہیں کہتے حالاں کہ اس کے بھی پر ہوتے ہیں لیکن مکھیوں کی فطرت ہے پاخانہ پیشاب پر بیٹھ کر پیشاب چوسنا اور پاخانہ کھانا۔مکھیوں کا مقام غلاظت ہے تو غلاظت پر بیٹھنے سے ان کے پر اس قا بل نہیں رہتے کہ ان کو پر کہا جائے جبکہ پروانہ روشنی پر فدا ہوتا ہے اس لیے اس کا نام پروانہ ہے، تو اﷲ نہ کرے کہ کسی مؤمن کی روح مکھی کی طرح غلاظت میں مبتلا ہواور گلنے سڑنے والے جسموں پر فدا ہو۔
اب مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک شعر سناتا ہوں جس کو فرانس کے ایک نو مسلم عیسائی نے مجھے سفر میں سنایا تھا اور وہ میرا شاگرد بھی ہے ، وہ میری کیسٹ سے سن سن کر اشعار یاد کرتا ہے، اسلام لانے کے بعد مثنوی کے اتنے شعر اس کو یاد ہیں کہ میں حیران ہوں کیوں کہ میرے بعض دوستوں کو بھی اتنے شعر یاد نہیں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کی کیسٹ میں ایک شعر سنا ہے     ؎
گر  خفاشے   رفت  در   کور   و   کبود
بازِ  سلطان  دیدہ  را   بارے  چہ  بود
چمگادڑ تو پیشاب پاخانے کی نالیوں کو چوس رہا ہے لیکن جس نے سلطان کو دیکھا ہو، بادشاہ کو دیکھا ہو یعنی جس کو اﷲ تعالیٰ نے کعبۃ اﷲ دکھایا، روضئہ مبارک دکھایا، تہجد کی نمازیں نصیب فرمائیں ان سلطان دیدہ آنکھوں کو کیا ہوا کہ وہ بھی گناہوں سے باز نہیں آرہی ہیں۔ یہ شعر اس عیسائی نو مسلم نے مجھے سنایا۔ آہ! میں نے کہا اﷲ تعالیٰ کا دین ہے جس کو چاہے دے دے۔ آج میرا مال فرانس پہنچ گیا اور نو مسلم عیسائی مزے لے رہا ہے، بہر حال اب میں اس کو عیسائی نہیں 
Flag Counter