Deobandi Books

غم حسرت کی عظمت

ہم نوٹ :

17 - 34
میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جس وقت جونپور کی شاہی مسجد میں پڑھاتے تھے حضرت نے فرمایا کہ ایک ہندو لڑکا جو توتلا تھا مسلمان ہوگیا، مسلمان ہونے کے بعد اس کو کہیں سے گائے کے کباب کی دعوت آئی، طلباء کی اکثر دعوت آتی ہے، لیکن اب آپ سب یہ نہ سمجھیں کہ ہم کو بھی دعوت ملے گی، دعوت ایسے نہیں ملتی، طالبِ علم بن جاؤ پھر دعوت کھاؤ۔ دوسرے مدرسوں میں تو قید ہے کہ اٹھارہ بیس سال سے زائد عمر والوں کو داخلہ نہیں دیں گے لیکن ہمارے یہاں یہ قید نہیں ہے، ستّر سال کے بڈھے کو بھی میں داخلہ دینے کو تیار ہوں اگر وہ اپنے قرآن شریف کی قرأت کی صحت چاہتا ہے، حروف کی ادائیگی صحیح کرنا چاہتا ہے یا حافظِ قرآن بننا چاہتا ہے تو میرے مدرسے میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے، جس عمر میں چاہو داخلہ لے لو بلکہ بڈھوں سے میں زیادہ خوش ہوں گا۔
خیر اس نو مسلم لڑکے کو گائے کے کباب کی دعوت آئی۔ اس زمانے میں ہندوؤں کی حکومت نہیں تھی، انگریزوں کی حکومت تھی، گائے خوب کٹتی تھی لیکن چوں کہ پہلے وہ ہندو تھا اس لیے اس نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا تھا کیوں کہ ہندو کہتا ہے کہ گائے میری ماتا ہے، امّاں ہے، مگر بیل کو ابّا نہیں کہتا کیوں کہ بیل کو ابّا کہنے سے شرماتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ بیل کا بچہ ہے مگر چوں کہ گائے دودھ دیتی ہے اس لیے اس کو ماں کہہ دیتا ہے۔ اب جو اس نے کباب کھایا تو چوں کہ زندگی میں کبھی نہیں کھایا تھا تو اس کو بہت مزہ آیا۔ اب آٹھ دس دن کے بعد پھر اس کو وہی کباب یاد آئے تو اس کے جو ساتھی کتاب لے کر اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے ان ساتھیوں سے اس لڑکے نے جو کہا اب میں شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سنی ہوئی بات کی نقل کرتا ہوں۔ وہ لڑکا توتلا تھا، زبان میں لکنت تھی۔ تو پہلے میں اصل سناتا ہوں پھر نقل سناتا ہوں۔ تو شاہ عبدا لغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا کہ اس نے تتلا کر کہا کہ کہوں ڈعوٹ وواوٹ ہے کہ کٹبوا ہی لیے پھرٹ ہو یعنی کہیں دعوت وعوت بھی ہے یا کتاب ہی لیے پھرتے ہو۔ تو معلوم ہوا کہ کباب بھی کوئی چیز ہے۔
اﷲ کی محبت کی خوشبو کیسے پیدا ہوتی ہے؟
دوستو! جو نفس کی خواہشات پر قابو نہیں پا رہے وہ خاص طور سے اس کو سنیں کہ
Flag Counter