کہ زندگی غارت ہوگئی اور اب اس کی کوئی تلافی بھی نہیں ہوسکتی۔ جو اپنی زندگی کو مٹی کے کھلونوں پر مٹی کرتا ہے کیا وہ ظالم مٹی نہیں ہوتا؟ مجھے اپنا ایک بہت پرانا شعر یاد آیا ؎
کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کر فدا اُس پر کہ جس نے دی جوانی کو
عاشقِ لیلیٰ اور عاشقِ مولیٰ کا فرق
اس لیے عرض کرتا ہوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دل لگاتا ہے، تقویٰ سے رہتا ہے اور مٹی کے کھلونوں سے اپنے کو بچاتا ہے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ بے شمار سورج اور چاند پیدا کرتے ہیں، ساری دنیاکی سلطنت کا نشہ اس کے دل میں ہوتا ہے، مال و دولت کا نشہ اس کے دل میں ہوتا ہے، حسین اور رومانٹک دنیا کا نشہ اس کے دل میں ہوتا ہے کیوں کہ لیلیٰ کا عاشق کیا جانے مولیٰ کے عاشق کے مزے کو، اور مولیٰ کون ہے؟ مولیٰ کس کو کہتے ہیں؟ جو خالقِ لیلیٰ ہے۔ مجنوں کو لیلیٰ پر مر کر کیا ملا، جاکر پوچھ لو آج کوئی اس کو عقیدت و احترام سے یاد نہیں کرتا لیکن جو مولیٰ پر مرا تو اُن اللہ والوں کے وسیلے سے آج بھی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
مولانا رومی نے مثنوی میں اﷲ کی محبت سکھانے کے لیے مجنوں اور لیلیٰ کا نام استعمال کیا ہے کہ جب مجنوں لیلیٰ کے لیے مر سکتا ہے تو اے انسانو! تم اپنے خالق اور اپنے پیدا کرنے والے مولیٰ کی محبت کے لیے کیوں جان فدا نہیں کرسکتے؟ آج تک دنیا میں کسی نے مجنوں کے وسیلے سے دعا نہیں مانگی اور جو خدا پر مرے، مولیٰ پر مرے اُن کا وسیلہ دیا جاتا ہے کہ اے اللہ! خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے صدقے میں، حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے صدقے میں اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے میں اور مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ اور مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے صدقے میں اور مزید اوپر جاؤ تو صحابہ کے وسیلے سے اور اوپر جاؤ تو سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلے سے غرض نبیوں سے لے کر اولیاء اللہ تک تمام اﷲ والوں کا وسیلہ مانگا جاتا ہے لیکن زمین پر کوئی ایسا ہے جو کہتا ہو کہ اے اللہ! مجنوں کے صدقے میں میری دعا قبول کرلے؟ کیوں صاحب آج تک کبھی کسی نے عاشقِ لیلیٰ کا وسیلہ دیا؟ اسی سے