Deobandi Books

غم حسرت کی عظمت

ہم نوٹ :

25 - 34
ایک مرتبہ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر ! حضرت مجھ کو حکیم اختر کہتے تھے، مولانا وغیرہ نہیں کہتے تھے کیوں کہ میرے بابا تھے، بابا اپنے بچے کو مولانا تھوڑی کہتے ہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ حکیم اختر! جب دعا میں رونا آجائے تو سمجھ لو کہ دعا قبول ہو گئی، یہ آنسو قبولیت کی رسید ہیں۔
غمِ حسرت کے انعامات
میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ایک جملہ شاہ عبد الغنی صاحب کا سناؤں گا اور ایک شعر مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کا سناؤں گا۔ تو شاہ عبد الغنی صاحب کا جملہ تو سنا دیا کہ حضرت فرماتے تھے ’’اَس کے جلے تو کس نہ بسائے‘‘ یعنی جو اپنے کو اﷲ کے عشق میں جلاتا ہے  یعنی گناہ چھوڑنے کا غم اٹھاتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی خوشبو اُڑادیتے ہیں۔ اب مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا شعر سنو      ؎
سنیں یہ  بات میری گوشِ دل سے جو میں کہتا ہوں
میں ان پر مرمٹا  تب کہیں گلشنِ دل میں  بہار آئی
گوشِ دل یعنی دل کے کان سے سنو! یہ ایک اﷲ والے کا کلام ہے۔ گلشن اقبال میں رہنے والو ! اصلی گلشن تو دل کا گلشن ہے، اگر دل میں گناہ کے کانٹے ہوں گے تو گلشن اقبال وغیرہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اور ایک شعر سناتا ہوں جو پہلے بھی سنا چکا ہوں جس کا ایک مصرع میرا ہے اور ایک مصرع مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے ۔ میرا مصرع ہے  ؎
اپنا   عالم    الگ    بناتا    ہے
اﷲ تعالیٰ اپنے ہر عاشق کو ایک الگ عالم دیتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ اس کے دل کے آسمان و       زمین دوسرے کر دیتے ہیں ، وہ خود ایک عالم ہو تا ہے، وہ اپنے عالم میں مست رہتا ہے اور    اپنا عالم الگ بناتا ہے ۔ تو حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ ایک مصرع میرا بھی لگا دو    ؎
عشق  میں جان  جو  گنواتا  ہے
اپنا    عالم     الگ     بناتا    ہے
Flag Counter