امتحان کا پرچہ دے دیا اور غضِّ بصر کا حکم دے دیا کہ اے پیغمبر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرمائیے کہ مؤمن اپنی نظر کو بچا کر رکھیں اور مٹی والے کھلونوں پر اپنے ایمان کو اور میری محبت کی نعمت کو ضایع نہ کریں، میرے عشق سے بے وفائی نہ کریں کہ سڑکوں پر مٹی کا کھلونا دیکھ کر آسمان والے اللہ کو بھول جائیں اور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات کوبھول جائیں۔
میں نے ایک دفعہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت میرا ایک مصرع ہوا ہے کہ ؎
اپنا عالم الگ بناتا ہے
یعنی جو اللہ پر دل دیتاہے اور اللہ والا بن جاتا ہے اس کے دل کی دنیا الگ ہوجاتی ہے، اس کے قلب کے آسمان و زمین، اس کے دل کے چاند اور سورج الگ ہوجاتے ہیں، اللہ کے ذکر سے اس کے دل میں بے شمار چاند اور سورج کا نور پیدا ہو جاتا ہے، جس کے دل میں اللہ آتا ہے اس کے دل میں بے شمار آفتاب آجاتے ہیں۔
دوستو! میں افسانہ نہیں کہہ رہا ہوں، جس کے دل میں اللہ آتاہے تو آفتاب تو اﷲ کی معمولی بھیک ہے، سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی ادنیٰ سی بھیک ہیں، جس کے دل میں وہ بھیک دینے والا آتا ہے اس کے دل میں بے شمار سورج اور چاند آجاتے ہیں، اس کی کیفیت کا سلاطین بھی تصور نہیں کر سکتے، دنیا بھر کے بادشاہ کسی اللہ کے ولی کے مقام کو نہیں سمجھ سکتے کیوں کہ ان کو اﷲ کی محبت کا نشہ ہوتا ہے، کسی کو سلطنت کا نشہ ہے، کسی کومال و دولت کا نشہ ہے، کسی کو رومانٹک اور حسینوں کے چکر کا نشہ ہے۔ قبروں میں جانے کے بعد ان کی آنکھیں کھلیں گی کہ اصل نشہ وہی تھا جو انبیاء کا نشہ تھا جو ان کے صدقے میں اللہ نے اپنے دوستوں کو اور اولیاء اللہ کو عطا فرمایا تھا، جو زمین پر بھی اللہ کے عشق کا، اللہ کی محبت کا دریا لیے پھرتے ہیں اور زمین کے نیچے یعنی عالمِ برزخ میں بھی ان کا جو مقام ہوگا وہ ان شاء اللہ تعالیٰ دنیا دیکھے گی اور جنہوں نے اپنی زندگی مٹی کے کھلونوں پر اور مٹی کی دنیا پر تباہ کی اور اللہ کو بھول گئے تو ایسے لوگوں کو مرنے کے بعد پریشانی کاسامنا رہے گا اور وہ زندگی میں بھی پریشان رہتے ہیں لیکن مرنے کے بعد ان کو پتا چلے گا