اور دونوں کا حاصل یہ ہے کہ خدا کیسے ملتا ہے؟ چاہے نظم ہو چاہے نثر ہو دونوں کا خلاصہ کیا ہے؟ کہ اللہ کیسے ملتاہے۔ بعض لوگوں کو خدا کے ملنے میں دیر ہورہی ہے، بعض لوگ دس د س سال سے آرہے ہیں مگر اب تک خدا نہیں ملا۔ وجہ کیا ہے؟ اس کی حقیقت بتاتا ہوں، مگر پہلے اپنے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نثر سناتا ہوں، حضرت نے فرمایا کہ اللہ کی محبت کی خوشبو جگر اور دل میں کب پیدا ہوتی ہے کہ آدمی خود بھی مست رہتاہے اور جدھر سے گزر جاتا ہے اس کی خوشبو سونگھ کر دوسرے بھی مست ہو جاتے ہیں، فرماتے ہیں’’اَس کے جلے تو کس نہ بسائے‘‘یہ پھولپور اعظم گڑھ کی زبان ہے یعنی جو اپنے کو اللہ کے عشق میں جلاتا ہے اس کی خوشبو دور دور تک جاتی ہے اور وہ اﷲ والا ہوجاتا ہے۔
دل کو عشقِ الٰہی میں جلانے کا مطلب
اب آپ کہیں گے کہ بھائی اپنے کو جلانے کا کیا طریقہ ہے؟ لہٰذا اپنے کو جلانے کا طریقہ بھی بتانا پڑے گا ورنہ کوئی اپنی انگلی نہ جلالے۔ دل کو اللہ کے عشق میں جلانے کا مطلب ہے کہ آپ کی جتنی خواہشات اللہ تعالیٰ کی خوشیوں کی مخالفت میں ہیں یعنی جس بات سے ہمارا نفس تو خوش ہو لیکن اللہ تعالیٰ ناخوش ہو تو ایسی خوشیوں کو جلاکر خاک کردو یعنی ہم بندہ ہوکر اپنی خوشی کو وہ مقام نہ دیں کہ وہ مالک جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اس کی خوشیوں پر ہم اپنی خوشی کو ترجیح دیں اور نفس دشمن کے غلام بن جائیں۔ سوچ لو! جو دشمن کے ہاتھ چڑھتا ہے اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اور اس کی کیا دُرگت بنتی ہے۔ آپ بتائیے! جب کوئی اپنے دشمن کے قابو میں آجاتا ہے تو اسے کس طرح رُسوا کر تاہے۔
بولو! نفس دشمن ہے یا نہیں؟ تمہارے پہلو میں تمہارا نفس تمام دشمنوں سے بڑا دشمن ہے، لیکن جب دشمن کہتا ہے کہ اس عورت کو دیکھ لو، اس لڑکے کو دیکھ لو، اس کا نمک چکھ لو تو اس وقت فقیری کہاں غائب ہوجاتی ہے؟ گول ٹوپیاں کہاں چلی جاتی ہیں؟ اس وقت تسبیح کہا ں چلی جاتی ہے؟ آہ و فغاں اور اشکبار آنکھیں کہاں چلی جاتی ہیں؟ خانقاہوں کی صحبتیں کہاں چلی جاتی ہیں؟ شیخ کے ملفوظات کیوں نہیں یاد آتے؟ اللہ تعالیٰ کی یہ آیت کیوں نہیں یاد آتی: