Deobandi Books

غم حسرت کی عظمت

ہم نوٹ :

24 - 34
تو ایک نو جوان بچے نے اس پر مصرع لگایا۔ حضرت نے فرمایا کہ اتنا عمدہ مصرع تھا کہ اس کو نظر لگ گئی اور تین دن میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اب سوچئے کہ کیسا مصرع ہو گا؟ وہ مصرع تھا     ؎
اے سیلِ اشک تو  ہی بہا دے  اُدھر  مجھے
سیل معنیٰ سیلاب اور اشک معنیٰ آنسو ۔ اب بتاؤ ظالم نے کیسا مصرع لگایا یعنی اے میرے آنسوؤں کے سیلاب تو ہی مجھے میرے محبوب کی طرف بہا کر لے جا۔
تو میں عرض کر رہا تھا کہ اﷲ والے خدا کے حضور میں کس طرح روتے ہیں۔ جب شاہ عبد الغنی صاحب تہجد میں روتے تھے، استغفار و توبہ کرتے تھے تو نعرہ مارتے تھے یا ربّی معاف فرمادیجیے، پھولپور کی خاموش فضاؤں میں حضرت کا دن بھر بھی یہی نعرہ تھا، وہاں پھولپور میں جنگل کی زندگی تھی ، تھوڑے فاصلے پر ایک قصبہ تھا جس کے گھر دور سے نظر آتے تھے، تو مجھے آج بھی حضرت کا نعرہ یاد آتا ہے یا ربی معاف فرمادیجیے، اور جب حضرت یاربّی معاف فرمادیجیے کہتے تھے تو اس یقین سے کہتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ خدائے تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے ، یہ ان ہی بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے ، میری آہ خود رو نہیں ہے، میری آہ نے شاہ عبد الغنی صاحب کی آہوں سے تربیت پائی ہے، میرا دردِ محبت شاہ عبدالغنی صاحب کے دردِ محبت کا پروردہ ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میں اپنے بزرگوں کی آہ کو پیش کرتا ہوں الحمدﷲ! اور جو کچھ پیش کر تا ہوں اس کا مزہ پہلے میں خود لوٹتا ہوں ، جو خود مزہ نہیں لوٹتا وہ دوسروں کو کیا لٹائے گا۔
حضرت شاہ عبد الغنی صاحب روزانہ پانچ میل اپنے تانگے پر بیٹھ کر بخاری شریف پڑھانے جاتے تھے، میں بھی حضرت کے ساتھ بیٹھتا تھا،حضرت راستے بھر قرآن شریف کی تلاوت کرتے جاتے تھے، قرآن شریف ان کو بڑا پکا یاد تھا، قرآنِ پاک کے دس دس پارے پڑھتے تھے اور کہیں نہیں بھولتے تھے۔ ایک مرتبہ راستے میں حضرت نے اپنی تلاوت روکی اور فرمایا کہ یہاں بد بو آرہی ہے، دیکھا تو وہاں کسان بیل کے گوبر سے کھاد بنا رہے تھے۔ حضرت نے فرمایا کہ بدبو دار جگہ پر اﷲ کا نام لینے میں خوف ِ کفر ہے لہٰذا اپنے دوستوں سے بھی عرض کرتا ہوں کہ جہاں کہیں بدبو دار جگہ ہو وہاں تسبیح، تلاوت وغیرہ روک دو ، بدبو دار جگہ پر کبھی اﷲ کا نام نہ لو۔
Flag Counter