Deobandi Books

غم حسرت کی عظمت

ہم نوٹ :

16 - 34
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ  اَبۡصَارِہِمۡ4؎
اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ ایمان والوں سے فرما دیں کہ اپنی نظروں کو نامحرموں سے بچا لیں۔ بولو بھئی! اب آپ جلانا سمجھ گئے۔ سن لو! جس نے اپنی بُری خواہشات کو نہیں جلایا تو یاد رکھو پھر اسے دوزخ میں جلاکر اور پاک صاف کرکے اﷲ تعالیٰ پھر جنت میں دخولِ ثانوی دیں گے، اس لیے اپنے کو یہیں جلا لو، اللہ کے عشق و محبت کی آگ میں نفس کی بُری خواہشات کو یہیں جلا لو۔ ورنہ اﷲ بچائے دوزخ میں جانا پڑے گا، اگرچہ جہنم میں مؤمن کی تعذیب نہیں ہوگی تہذیب ہوگی یعنی اس کو میل کچیل سے پاک کر کے جنت کے قابل بنا کراللہ تعالیٰ جنت میں بھیجیں گے لیکن ہم ایسا موقع ہی کیوں آنے دیں کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں ہماری تہذیب فرمائے، ہم یہیں کیوں نہ مہذب بن جائیں،یہیں کیوں نہ اپنا تزکیہ کرالیں،یہیں کیوں نہ اپنی اصلاح کرالیں، یہیں کیوں نہ اپنی بُری خواہشات اللہ کے خوف اورعشق کی آگ میں جلا دیں۔
تو جو اپنے کو جلاتا ہے یعنی اپنی حرام خواہشات پر عمل نہ کرکے اپنے دل کو جلاتا اور تڑپاتا ہے، غمِ حسرت کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی خوشبو اُڑا دیتے ہیں اور اس کو استقامت عطا فرماتے ہیں جیسے کچی مٹی کی اینٹوں کو جب بھٹے کی آگ میں پکایا جاتا ہے تو وہ شور و غل بھی نہیں کرتیں، صبر سے پڑی رہتی ہیں مگر اندر اندر لال ہوتی رہتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ پک کر سخت ہوجاتی ہیں پھر ان سے جو مکان بنتا ہے وہ ہر آندھی اور طوفان کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن اگر اینٹوں کو بھٹے میں نہ پکایا جائے اور کچی اینٹوں سے مکان بنایا جائے تو جب بارش ہوگی مکان گر جائے گا۔ اسی طرح جن کے ایمان کی اینٹیں کچی ہوتی ہیں وہ حسن کی ذرا سی بارش میں گر جاتی ہیں لیکن جو اینٹیں پک چکی ہوتی ہیں بھٹے میں لال ہوچکی ہوتی ہیں ان عمارات پر لاکھوں ٹن بارش ہو وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ تو شیخ کے بھٹے میں اپنے کو اس طرح جلا کر پکی اینٹ کی طرح بن جاؤ کہ پھر حسن کی کتنی ہی بارشیں ہوں آپ کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچاسکیں۔ تو یہ ہے دل کو جلانا ’’اَس کے جلے تو کس نہ بسائے‘‘ جو اپنے کو ہر وقت جلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان کی خوشبو کو اڑا دیتے ہیں۔
_____________________________________________
4؎    النور:30
Flag Counter