نازل فرمایا۔ غفور کے معنیٰ ہیں معاف کردینے والا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس کے ساتھ عزیز کیوں نازل کیا؟ عزیز کے معنیٰ ہیں زبردست طاقت والا۔ تو اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں الفاظ ایسے تھوڑے ہی نازل کر دیے۔
لہٰذا علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ چوں کہ مغفرت اُس شخص کی معتبر ہوتی ہے جس میں طاقت ہو۔ ایک شخص ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہے، کمزور ہے، بیمارہے اس کو کسی نے تھپڑ مار دیا، اب وہ کہتا ہے کہ جاؤ میں نے معاف کردیا، تو تھپڑ مارنے والا کہتا ہے کہ تم میں انتقام کی طاقت ہے ہی نہیں،تم چالیس دن سے ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو، بستر سے اٹھ نہیں سکتے، مجھ کو دوڑا کرپکڑ نہیں سکتے لہٰذا مجبوراً معاف کردیا،میرے نزدیک تمہاری معافی کی کوئی حیثیت نہیں۔مفسرِ عظیم علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غفور سے پہلے عزیز نازل کردیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں زبردست طاقت والا ہوں اس کے باوجود تمہیں بخشتا ہوں لہٰذا میری مغفرت کی قدر کرنا، ناقدری نہ کرنا۔ اُس طاقت والے نے اپنی صفتِ مغفرت کی عظمتِ شان کے لیے عزیز نازل کیا، زبردست طاقت والے نام کو پہلے نازل کیا۔
خیر میں یہ عرض کررہا تھا کہ مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث سہار نپوری فرماتے ہیں ؎
گو ہزاروں شغل ہیں دن رات میں
لیکن اسعدؔ آپ سے غافل نہیں
نظر بازی اور حسن پرستی کا بھیانک عذاب
اس کے بعد ایک شعر اور فرمایا جس کا آج کل بڑا مرض پھیلاہوا ہے، وہ مرض ہے نظر بازی کا، حسن پرستی کا، ہرشخص سوچتا ہے کہ کو ئی حسین مل جاتا تو بڑا چین ملتا، بڑا مزہ آتا، بڑے اچھے دن گزرتے،حالاں کہ اس سے خراب اور بدترین دن نہیں گزریں گے، جو سانس اﷲ کی نافرمانی میں گزرتی ہے وہ دوزخیوں کی زندگی ہے، جس نے دوزخ نہ دیکھی ہو وہ اللہ کے قہر اور عذا ب کو خرید کر دیکھے کہ نافرمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ ایک اللہ والےمولانا شاہ محمد احمد صاحب کا شعر ہے ؎