Deobandi Books

دل شکستہ کی قیمت

ہم نوٹ :

20 - 34
صحابہ پراعتراض کرنے والوں کو دو خطاب دیے: نمبر۱۔ خِفَّۃُ الْعَقْلِ  ہلکی عقل والے۔نمبر ۲۔ وَالْجَھْلُ بِالْاُمُوْرِاورحقائق امور سے ناواقف۔
سفاہت کی یہ تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں بیان فرمائی ہے کہ یہ خفیف العقل ہیں، عقل کے ہلکے ہیں اس لیے میرے صحابہ پر اعتراض و تنقید کر رہے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو بے وقوف کہہ رہے ہیں۔ بتائیے! اگر کوئی بندہ اپنے مالک کو خوش کرے تو وہ بے وقوف ہے ؟ اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو راضی کرے تو وہ بے وقوف ٹھہرے گا؟ بے وقوف تو تم ہو اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ  السُّفَہَآءُیہ خود پاگل اور بے وقوف ہیں وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ لیکن اس کا علم نہیں رکھتےیہ بے علم لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ پر تنقید کرنے والوں کے علم پرلا داخل کردی کہ یہ بے علم ہیں۔ لہٰذا ہر وہ شخص اس آیت کے ذیل میں شامل ہے جو صحابہ پر تنقید کرتا ہےیا صحابہ پر تنقید کرنے والے کو مولانا کہتا ہے، ایسے لوگوں کو مولانا کہنا جائز نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے علم پر لا داخل کررہے ہیں، یہاں لاکے معنیٰ نہیں کے ہیں۔ یہ وہ لا نہیں ہے جو ایک ہندوستانی نے ایک عرب سے کہا تھا کہ یہ چیز ہے؟ عرب نے کہا لا یعنی یہ نہیں ہے، تو اس نے سوچا پیسہ مانگ رہا ہے کیوں کہ وہ دہلی کا تھا۔ عربی کا لا اور ہے اور اُردو کا لااور ہے۔
لفظ حَلِیۡمْ سے عجیب استدلال
تو اﷲ تعالیٰ نے وَ لَقَدۡ عَفَا اللہُ عَنۡہُمۡ نازل فرمایا کہ ہم نے صحابہ کی اس چوک اور خطا کومعاف کردیا، ان کی خطائے اجتہادی کو معاف کردیا۔ اِنَّ اللہَ  غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ اللہ تعالیٰ غفور ہیں یعنی بڑے مغفرت کرنے والے ہیں اور حلیم ہیں یعنی بڑے حلم والے ہیں کہ عین صدورِ خطا کے وقت بھی سزا نہیں دی۔ حضرت تھانوی آیت اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ میں حلیم سے استدلال فرماتے ہیں کہ جو کچھ تکلیف صحابہ کو پہنچی یہ عتاب و سزا نہیں تھی ورنہ حلیم نازل نہ ہوتا، کیوں کہ عتاب کے ساتھ حلم نہیں ہوتا۔حلیم کے معنیٰ ہیں جو عتاب کو روک لے، قدرت رکھتے ہوئے انتقام نہ لے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اس اعتراض کو رفع کردیا کہ یہ شکست معاذ اللہ! عذاب تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے حلیم نازل کیا تاکہ معلوم ہو کہ یہ قوتِ قہریہ نہیں تھی پاداشِ اصلاحی تھی،صحابہ کی تربیت واصلاح کے لیے اللہ نے یہ معاملہ کیا تھا۔
Flag Counter