فَاَثَابَکُمۡ غَمًّۢا بِغَمٍّ17؎
اللہ نے ان کو یہ غم اس لیے دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خطائے اجتہادی سے غم ہوا تھا، اگر اللہ تعالیٰ یہ غم نہ دیتے تو صحابہ ساری زندگی شرمندہ رہتے، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تھوڑا سا زخم پہنچا کر ان کا دامن صاف کردیا۔ اس لیے فرمایا وَلَقَدۡ عَفَا اللہُ عَنۡہُمۡہم نے ان کو معاف کردیا۔ حکیم الامت لکھتے ہیں کہ جب خدا نے معاف کردیا تو پھرکسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔
اسم اعظم تَوَّاب اور رَحِیْم کا ربط
قرآنِ پاک کا ایک ایک لفظ اپنے اندر حکمت و معانی کا دریا رکھتا ہے جیسے یہاں حلیم نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دیا کہ یہ شکست عذاب نہیں تھی بلکہ اس سے مقصود صحابہ کی تربیت تھی اور جیسے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ آیت اَنَّ اللہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ18؎ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کا نزول فرقۂ معتزلہ کے رد میں ہوا ہے۔ اگرچہ نزولِ قرآن کے وقت یہ فرقہ موجود نہیں تھالیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں تو تھا کہ یہ فرقہ پیدا ہوگا۔ فرقۂ معتزلہ ایک باطل فرقہ ہوا ہے جو کہتا ہے کہ جب بندہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو مجبوراً معاف کرنا پڑےگا، قانونی طور پر ضابطے سے اﷲ تعالیٰ کو بندے کو معاف کرنا پڑے گا۔ تو علامہ آلوسی السید محمود بغدادی فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اَلتَّوَّابُ کے ساتھ اَلرَّحِیۡمُ کا لفظ نازل کرکے قیامت تک کے لیے اس فتنے کا جواب دے دیا کہ میں جو تمہاری توبہ قبول کرتا ہوں وہ ضابطے اور قانون سے نہیں کرتا، شانِ رحمت سے قبول کرتا ہوں کیوں کہ میں رحیم ہوں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں فِیْہِ رَدٌّ عَلٰی فِرْقَۃٍضَالَّۃٍ مُعْتَزِلَۃٍ19؎ اس آیت میں رد ہے فرقہ ضالہ معتزلہ کا۔
اسم اعظم عَزِیْزاور غَفُوْر کا ربط
اسی طرح قرآنِ پاک میں اﷲ تعالیٰ نے سورۂ ملک میں وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ20؎
_____________________________________________
17؎ اٰل عمرٰن:153
18؎ التوبۃ :118
19؎ روح المعانی:42/11،التوبۃ(118)،داراحیاء التراث
20؎ الملک:2