سیکھو۔ اہلِ محبت گمراہ نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ صحبت زیادہ تر اہلِ محبت کی اختیار کرو تاکہ عشقِ الٰہی پیدا ہو۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک شعر یاد آیا، فرماتے ہیں؎
میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے
یعنی میں اﷲ کے در اور اس کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ چکا ہوں، عمر بھر میں ان کا رہوں گا، اﷲ کا بن کے رہوں گا؎
سرِ زاہد نہیں یہ سر سرِ سودائی ہے
یہ خشک ملّا کا نہیں، خشک زاہد کا نہیں،یہ عاشقوں کا سر ہے۔ اس لیے علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ محبت ایسی چیز ہے کہ یہ لغت کے لحاظ سے بھی فصل اور جدائی پر راضی نہیں ہے۔ اگر دو ہونٹ نہ ملیں تو محبت کا لفظ ادا نہیں ہوسکتا۔ دونوں ہونٹ الگ کرکے کوئی بڑے سے بڑا قاری بھی محبت کا لفظ منہ سے نہیں نکال سکتا۔ پس جس کی لغت متقاضئ وصل ہے اور فصل پر راضی نہیں اس کا مسمّٰی کیسا ہوگا! جس کو اﷲ محبت دے گا وہ خدا کے فراق اور جدائی پر راضی نہیں ہوسکتا یعنی نافرمانی جو سببِ بُعد ہے، اﷲ سے دوری کا سبب ہے، اس کا عادی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اﷲ کے عاشقین گناہ سے ڈرتے ہیں، ان کو ایک ہی غم ہوتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی گناہ نہ ہوجائے اور ہم اپنے اﷲ سے، اپنے محبوب سے دور ہوجائیں۔ اسی لیےصحبتِ صالحین، نمازیں، حج ،عمرہ ،نفلیں، تلاوت، ذکر و تسبیح کرتے ہیں کہ ہم اﷲ سے قریب ہوجائیں، اﷲ ا ﷲ کہتے ہوئے ہمارے قلب و جان اﷲ سے چپک جائیں۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲعلیہ کا ایک جملہ یاد آیا ’’ذکر ذاکر کو مذکور تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘ ذال کاف را، ذاکر میں بھی ہے اور مذکور میں بھی ہے۔ اﷲ پاک کا نام مبارک اسمِ اعظم ہے۔ اس کا پڑھنے والا ناممکن ہے کہ اﷲ تک نہ پہنچے، مگر خمیرہ کتنا ہی عمدہ ہو لیکن خمیرہ کے ساتھ اگر زہر بھی کھائے تو خمیرہ کیا کام کرے گا؟ اس لیے ضروری ہے کہ صحبتِ صالحین اور ذکر و تلاوت کے ساتھ گناہوں سے بھی پرہیز رکھو۔
تو اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ایک نصیحت فرمائی لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ یہودیوں اور عیسائیوں سے دل سے دوستی مت کرو۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ